(زبیر فیصل عباسی)
بہت سے لوگوں کی دانست میں سی پیک سڑکوں کا نام ہے۔ ایسی سڑکیں جن سے چین کو راستہ ملے گا اور پاکستان کو محض راہداری۔ جو اشخاص اس میں عمومی دلچسپی رکھتے ہیں وہ اس میں سڑکوں کے علاوہ کارخانوں کو بھی شامل کرلیتے ہیں۔ بہرحال زیادہ تر کا خیال یہی پایا جاتا ہے کہ سی پیک جہاں سے گزرے گا وہیں سے دولت کی دیوی، لکشمی اپنے درشن دینا شروع کردے گی۔
میری دانست میں یہ تمام خیالات درست تو ہو سکتے ہیں لیکن یہ حالات کی مکمل تصویر نہیں بناتے۔ اس وقت میں آپ کے سامنے چند گزارشات رکھوں گا، جن کو پڑھ کر آپ محسوس کرسکیں کہ سی پیک دراصل اسی پرانی حکایت کے موصوف اندھے کے ہاتھی سے شاید بڑا جانور ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
ہم کہہ سکتے ہیں کہ سی پیک ایک بڑی تبدیلی کا نام ہے جو اقتصادی تو ہے ہی لیکن اس کا تعلق پاکستان کی خارجہ، دفاعی، اور ادارہ جاتی سطح پر ممکنہ تبدیلیوں سے ہے۔ زرداری صاحب کی جانب سے حال ہی میں دئیے گئے انٹرویو میں ان کا خیال یہ تھا کہ چین کے پاکستان میں کاروباری سرمایہ کاری اور دیگر ہمسایہ ممالک کی شمولیت سے پاکستان کے دفاع میں مدد ملے گی۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان کی سالمیت میں دیگر ممالک کی کاروباری اور معاشی دلچسپی بڑھے گی تو وہ اس کے دفاع کو بھی مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہ ایسی سوچ ہے جس کا تعلق ہماری خارجہ پالیسی سے بھی بن جاتا ہے اور دیگر طاقتور ملکوں سے محض عسکری و فوجی تعلق سے بڑھ کر اس کا پھیلاؤ معاشی و سماجی جہتوں کی طرف بھی نکل پڑتا ہے۔ ان نئے راستوں میں نئی ریاستیں آتی ہیں اور دوستوں کی تعداد بڑھنے کے امکانات روشن دکھتے ہیں۔ تو جس منصوبے کو جو لوگ محض ٹھیکیداروں کی سڑک اور کارخانے لگانے کی سکیم سمجھتے ہیں وہ دراصل اسی حکایت والے ہاتھی کے جسمانی پھیلاؤ سے واقفیت نہیں رکھتے۔
سی پیک کے تناظر میں ایک بات اور بھی اہم ہے کہ یہ منصوبہ ہماری معیشت کے بنیادی ڈھانچے کو بھی بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس منصوبے کی جزیات کو غور سے طویل مدتی نقطئہ نظر سے دیکھیں تو یہ نئی مہارتوں کے لئے نئی نوکریاں یا کام لے کر آئے گا۔ یہ چوتھے صنعتی انقلاب، جو انٹرنیٹ ٹیکنالوجی، تھری ڈی پرنٹنگ اور حیاتیاتی ٹیکنالوجی سے عبارت ہے، کو پاکستان کے بہت پاس لے آئے گا۔ یہ اس لئے نہیں ہو گا کہ چین یہاں سے سڑک پر سامان لاد کر چل پڑے گا؛ بلکہ چین کو ۲۰۳۰ کے بعد اپنی نوجوان نسل کی طرف سے افرادی قوت میں کمی پیش آئے گی جبکہ پاکستان میں ان کی تعداد زیادہ ہو گی۔ یہ وہ وقت ہوگا جس میں چین سے اچھے تعلقات کے فوائد ملنا شروع ہوں گے۔
یہ ون بیلٹ ون روڈ، یا سی پیک ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں سے ہو کر بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی نوجوانوں کے لئے ممکنات کا ایک بڑا جہان کھولنے کا باعث ہو سکتا ہے۔ نئی مہارتیں اور نئی نوکریاں تبھی ممکن ہیں جب آپ کی معیشت کا ڈھانچہ سائنس، ٹیکنالوجی، صنعت اور خدمات کے شعبے کو بدل دے اور زراعت بھی صنعت کا درجہ حاصل کر لے۔ یہ تمام تبدیلیاں آپ کے یہاں نئے قوانین اور نئے اداروں کے قیام کا آغاز کر سکتے ہیں۔
آپ کو بینکنگ کے نظام میں بھی ابھی سے تبدیلیاں نظر آئیں گی اور خدمات کا شعبہ بہت تیزی سے “آٹومیٹ” یا خود کار ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہ smartphone app-based ٹیکسی کی سروس ہو، یا تجارت و ٹیکس سے متعلق معاملہ یا پولیس اور حساس اداروں کی سراغ رسانی، یہ تمام امور نئی مہارتوں اور نئی نوکریوں کے راستے کھول رہے ہیں۔ یہ ابھی صرف نقطہٴ آغاز ہے اس کے پیچھے ایک بڑی امکانات کی طویل قطار لگی ہوئی ہے۔
سی پیک پر اب بھارت، انگلستان، روس، ایران، اور دیگر مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہ تمام ممالک اپنا سامان بھی دیگر ممالک میں بیچنا چاہتے ہیں اور انہیں راستہ چاہئے۔ لیکن اگر ہم امن و امان کے ساتھ سرمایہ کاری کا ماحول دے پائے تو سی پیک ہمارے ملک میں تجارتی اور صنعتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اداروں کی استطاعتِ کار کو بھی بدل کر رکھ دے گا۔ یہ باتیں کچھ صاحبان فکر کو ابھی محض خالی نعرے سے محسوس ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ سب الٹ پھیر آنکھ جھپکنے میں اور چند سال میں نہیں ہو گا۔ اس کو وقت چاہئے اور اگلے بیس سے پچاس سال بہت اہم ہوں گے۔ مثلاً ہمارے یہاں کامرس سے متعلق خاص طور ہر ملکیت کے تنازعے اور تجارتی معاہدے پرعمل درآمد کروانے میں بہت عرصہ درکار ہوتا ہے؛ یہ اب مزید نہیں چل سکے گا۔
چین اور دیگر ممالک مسائل کو جلد حل کرکے آگے بڑھنے کا مطالبہ کریں گے۔ یہ وہ دباؤ ہو گا جو ہمیں اپنے سول نظام انصاف میں بنیادی تبدیلیاں لانے کے لئے مہمیز کرے گا۔ یہ ممکن ہے کہ اگر ہم کوتاہ اندیش ثابت نا ہوئے اور کہیں دو نظام نا لے آئیں: ایک باہر والے کے لئے، اور ایک اپنے لئے ہو، لیکن توقع یہی ہے کہ دیوانی عدالتوں کو بھی اپنا کام تیز اور موثر انداز میں کرنا ہو گا۔
اگر ہم ایک جملے میں سی پیک کو سمیٹنے کی کوشش کریں تو سی پیک چوتھے صنعتی انقلاب کو پاکستان کی سرحدوں کے اندر تیزی سے داخل کر دے گا۔ اب یہ ہماری سمجھ بوجھ، ذہانت، مستقبل کے تقاضوں، ان تقاضوں سے منسلک چیلینجز اور امکانات، اور قائدانہ صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ ہم اپنے آپ کو کس طرح تیار کرتے ہیں اور اپنی افرادی قوت کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ اس امکانات سے بھرپور تبدیلی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس کا تعلق مغربی یا مشرقی روٹ والی بحث سے کہیں زیادہ، ہمارے سماجی اداروں جیسا کہ تعلیمی و معاشی اداروں، انصاف اور امن و امان برقرار رکھنے والے اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرنے سے ہے۔