کیا تخلیقیت خدا داد صلاحیت ہے؟
از، اصغر بشیر
تخلیقیت کے وجود کے متعلق ماہرین میں دو نقطۂِ نظر پائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے روایتی نقطۂِ نظر تخلیقیت کو نیم دائروی خط کی صورت میں دیکھتا ہے جس میں خط کے ایک کونے میں انتہائی تخلیقیت کے حامل جب کہ خط کے دوسرے کونے میں انتہائی کم تخلیقیت کے حامل لوگ موجود ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے عوام کی اکثریت خط کے درمیانی حصوں میں ہوتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ نقطۂِ نظر تخلیقیت کو موجود اور نا موجود کے حوالے سے پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اس نقطۂِ نظر کی تحقیق میں موجودہ کام یاب تخلیقی صلاحیتوں کے حامل راہ نُماؤں اور کار و باری حضرات کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور ان میں موجود خصوصیات کو اصول بنا کر دوسرے لوگوں میں ان خصوصیات کی موجودگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ آسان لفظو ں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تخلیقیت کا روایتی اندازِ فکر ’’آپ کتنے تخلیقی ہیں؟‘‘ کا جائزہ لیتا ہے۔
مزید دیکھیے: مذہبی فکر میں فرد معاشرتی تحریکات سے دور کیوں از، قاسم یعقوب
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے اعمال اور نقطۂ نظر سے اس کی تخلیقیت کا اندازہ لگانا ایک طرح کا ناقص مفروضہ ہو گا۔ تخلیقی سوچ کے حوالے سے حالیہ ریسرچ میں تخلیقیت کو مختلف پہلو سے دیکھا گیا ہے۔
اب سوال یہ کیا جاتا ہے کہ لوگ کس طرح مختلف طریقوں سے اپنی تخلیقیت کا اظہار کرتے ہیں؟ اس کو سٹائل اپروچ بھی کہتے ہیں۔ یہ اپروچ تخلیقیت کو موجودگی یا غیر موجودگی کے نقطۂ نظر سے دیکھنے کے بہ جائے ایجادیت (innovatism) اور موافقیت (adaptation) کو ایک افقی خط کے دونوں حدیں متعین کرتی ہے۔
اس کو مائیکل کرٹن (Michael Kirton) نے پروان چڑھایا ہے۔ اس تھیوری کے مطابق ہر فرد سٹائل کے تسلسل (Style Continuum) میں کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایک شخص مطلق تخلیقیت کا حامل ہو، یا مطلق تخلیقیت سے عاری ہو بَل کہ تخلیقیت ہر شخص میں ہر دم موجود رہتی ہے، بس اس کے اظہار کی کیفیتیں بدلتی رہتی ہیں۔ یہ ایک انتہاء پر ایجادیت پسندی کی طرف راغب ہو جاتی ہے تو دوسری طرف مطابقیت کو اپنا لیتی ہے۔
کرٹن نے اپنی تھیوری کے لیےمختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منیجر کے کام کے انداز کا جائزہ لیا تو اس پر دو حقیقتیں عیاں ہوئیں۔ ایک یہ کہ بعض منیجر اپنے موجودہ عمومی حالات سے مطمئن تھے اور صرف ایسی تبدیلیاں لانے کے خواہاں تھے جو ان کے کام کو مزید بہتر بنا دے، ان کے کام کے ماحول میں بہتری پیدا کرنے اور موجودہ کاموں کے اثرات کا دائرہ کار بڑھا دے۔
اس طرح کے منیجر کو کرٹن موافق کنندہ (adaptor) کہتے ہیں کہ یہ اپنے دفتر کی چار دیواری گرا کر نئی دیوار بنانے کے بہ جائے صرف کمرے کے اندرونی ماحول میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں جو کمپنی کے لیے اور ان کے لیے سود مند ہوتا ہے۔
جب کہ دوسری طرف وہ منیجر تھے جو بنیادی تبدیلیوں کے خواہاں تھے ان کی تبدیلیاں اس حد تک بنیادی ہو جاتی ہیں کہ کمپنی کے موجودہ کار و باری سر گرمیوں کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کے منیجر انقلابی سوچ کے تحت تخلیقیت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ منفرد کرنے کے لیے سر گرم رہتے ہیں۔ وہ غیر متوقع انداز میں کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور مفروضات کے خلاف جا کر ان کی حقانیت کا جائزہ لیتے ہیں جو کہ بَہ یَک وقت سود مند اور نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ان کی جدت پیراڈائم توڑنے کے فن میں چھپی ہوتی ہے۔
کرٹن کے بقول تمام لوگ موافق کنندہ و ایجاد کنندہ تسلسل (Adaptor-Innovator Continuum) میں کسی نہ کسی مقام پر موجود ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ترجیحات کے مطابق کسی محرک کے جواب میں اس تسلسل میں سے کسی جو ڑ کا انتخاب کرتے ہیں۔ بس یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک عمل کے لیے تخلیقی ہونے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ ایجاد سے متعلقہ ہو۔ ایک عمل کسی ایجاد سے متعلق ہوئے بغیر بھی تخلیقی ہو سکتا ہے۔ بس یہ ہے کہ تخلیق کے مختلف اظہار ہوتے ہیں۔