کرکٹ اور فلم، سحر انگیز ہم جولیاں
نصیر الدین شاہ نے 2005 میں آنے والی فلم اقبال میں ایک سابق کھلاڑی کا کردار نبھایا جو صلاحیت کے با وُجود نظر انداز کیا گیا، اور اب شراب میں ڈوب کر زندگی گزارتا ہے۔ اسے اقبال کے اصرار پر کوچنگ کرنا پڑتی ہے اور وہ اقبال میں چھپے ٹیلنٹ کو نکھار کر اسے ریاستی ٹیم میں سلیکٹ کرانے کی محنت کرتا ہے۔
از، حسین جاوید افروز
بر صغیر پاک و ہند میں کرکٹ کا کھیل ایک جنون کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل سِنہ 1932 میں متحدہ ہندوستان کی پہلی ٹیم بنی اور تب سے اب تک کرکٹ پاکستان اور بھارت میں سب سے زیادہ دیکھنے اور کھیلے جانے والے کھیل کی حیثیت رکھتا ہے۔
پاکستان اور بھارت میں کرکٹرز کو دیوتا کی سی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور کھیل کے میدان سے لے کر اشتہارات تک، اشتہارات سے سے کر فلمی صنعت بھی ان کے سِحَر کا شکار نظر آتی ہے۔
ایک دور میں پاکستان اور بھارت میں فلمی ستاروں اور کرکٹرز کے درمیان تواتر سے نمائشی کرکٹ میچ بھی ہوا کرتے تھے جو شائقین کے لیے بہت دل چسپی کا سبب بنے۔
بولی وڈ نے بھی کرکٹ کے سِحَر کو متعدد بار پردۂِ سکرین پر دکھانے کی کوشش کی ہے اور فلم بینوں کے لیے یہ تجربہ ہر دور میں کشش کا سبب رہا ہے۔
اس سلسلے میں بھارت میں بنائی گئی فلموں کا جائزہ لیا جائے تو ایک طویل فہرست سامنے آتی ہے جس میں کرکٹ اور کھلاڑیوں کی زندگی کو موضوع بنایا گیا اور ان کی کھیل کے حوالے سے لگن اور عروج و زوال کو تفصیل سے فلمایا گیا ہے۔
1984 میں فلم آل راؤنڈر سامنے آئی جس میں کمار گورو اور رتی اگنی ہوتری نے لیڈ رول نبھائے ایک ابھرتا کھلاڑی کس طرح زوال کا شکار ہوتا ہے۔ غلط صحبت کا شکار ہو کر کیسے کھیل سے اپنی توجہ کھو بیٹھتا ہے، یہ فلم آل راؤنڈر کا موضوع تھا لیکن کمار گورو کی سٹار پاور سے محروم صلاحتیں فلم کو ناکامی سے نہ بچا سکیں۔
معروف اداکار دیو آنند نے 1990 میں اول نمبر بنا ڈالی جس میں انھوں نے چیف سلیکٹر کا کردار ادا کیا جو اپنے کرکٹر بھائی آدیتہ پنچولی کی جگہ نئے ابھرتے کھلاڑی عامر خان کو موقع دیتا ہے جو سنچری بنا کر اپنی جگہ پکی کر لیتا ہے۔ کہانی کے اعتبار سے یہ ایک مضبوط فلم تھی مگر باکس آفس یہ فلم کچھ کمال نہیں دکھا سکی۔ اس کے بعد ایک طویل وقفہ آیا اور کرکٹ پر کوئی خاص فلم سامنے نہیں آ سکی۔
2001 میں عامر خان نے تاریخی پسِ منظر میں لگان فلم بنائی جس میں انگریز افسران اور پس ماندہ کسانوں کے درمیان ایک کرکٹ میچ ہوتا ہے۔ اس کو ہارنے کی پاداش میں کسانوں کا لگان تین گنا بڑھ جانے کا احتمال ہوتا ہے۔ انسانی عزم اور اپنی زمین کے پیار سے مزین لگان کو عالم گیر شہرت ملی اور اسے آسکر ایوارڈ کے لیے نام زَد کیا گیا۔
2005 میں فلم اقبال نے فلم بینوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ کہانی بھارت کے ایک دور اُفتادہ پس ماندہ گاؤں کے ایسے لڑکے کی تھی جو پیدائشی گونگا ہوتا ہے لیکن کرکٹ کا جنون اسے چین لینے نہیں دیتا۔
نصیر الدین شاہ نے فلم میں ایک سابق کھلاڑی کا کردار نبھایا جو صلاحیت کے با وُجود نظر انداز کیا گیا اور اب شراب میں ڈوب کر زندگی گزارتا ہے۔ اسے اقبال کے اصرار پر کوچنگ کرنا پڑتی ہے اور وہ اقبال میں چھپے ٹیلنٹ کو نکھار کر اسے ریاستی ٹیم میں سلیکٹ کرانے کی محنت کرتا ہے۔
ایک با صلاحیت کھلاڑی کو کس طرح ہائی لیول کرکٹ کے ایوانوں تک رسائی ملتی ہے، سلیکشن کے پسِ پردہ کیا سیاست کارِ فرما ہوتی ہے، یہی اس فلم کا موضوع ہے اور اسی کاوش پر اقبال کو نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔
2006 میں ہیٹ ٹرک نامی ایک چھوٹے بجٹ کی فلم سامنے آئی جس میں ڈینی اور نانا پاٹیکر نے مرکزی کردار نبھائے۔ اس میں ڈینی نے ایک مریض کے کردار میں شان دار اداکاری کی جو کہ موت کی جانب جا رہا ہے۔ لیکن کرکٹ میچوں کی سنسنی خیزی اس کی زندگی میں جوش کو جگائے رکھتی ہے۔
اسی طرح 2008 میں عمران ہاشمی کی فلم جنت سامنے آئی جس میں ایک نو جوان کو سٹّے بازی کی لَت میں پڑے دکھایا گیا ہے اور میچ فکسنگ کی دلدل میں دھنس جانے کے بعد اس پر کیا گزرتی ہے، کرکٹ کے کھیل میں کھیل کے علاوہ اور کیا کیا گورکھ دھندے ہیں، اس فلم میں ان تمام معاملات کی بہت عمدہ عکاسی کی گئی۔ عمران ہاشمی کی یہ فلم باکس آفس پر بھی کام یاب ٹھہری۔
2010 میں اکشے کمار کی فلم پٹیالہ ہاؤس رہلیز ہوئی جس میں برطانیہ میں پلے بڑھے ایک کھلاڑی کی کہانی بیان کی گئی، جو اپنے سخت گیر والد کی منشاء کے خلاف انگلش ٹیم میں شمولیت اختیار کرتا ہے جس پر اسے دھتکار دیا جاتا ہے۔
اکشے کمار کی جذباتی ادا کاری کے با وجود یہ فلم کچھ خاص نہیں کر پائی۔ اسی طرح ہرمن باویجا کی وکٹری میں بھی کھلاڑی کے عروج و زوال کو موضوع بنایا گیا۔
حالیہ کچھ عرصے میں کرکٹ پر مبنی فلموں میں رجحان بدل گیا ہے اور اب کرکٹرز کی زندگیوں کو موضوع بنایا گیا۔ اس سلسلے میں 2016 کی اظہر نے خاصے گہرے اثرات مرتب کیے۔ عمران ہاشمی نے فلم میں اظہر الدین کا کردار نبھایا جس نے پہلے تین میچوں میں لگاتار تین سنچریاں بنائیں اور راتوں رات سٹار بنے۔
کپتان بننے کے بعد میچ فکسنگ کے الزامات، تحقیقات کے عمل کو تفصیل سے دکھایا گیا۔ فلم میں دل چسپ سین وہ تھا جس میں کپل دیو جیسا کھلاڑی اظہر کو میچ فکسنگ کے الزامات کے بعد ملاقات کا وقت نہیں دیتا اور اظہر کو کیس لڑنے کے لیے کوئی وکیل بھی نہیں ملتا۔ لیکن پھر یہ کپل دیو ہی تھا جو بیان دیتا ہے کہ جس اظہر کو میں جانتا ہوں وہ اس گھناؤنے سکینڈل میں ملوث ہو ہی نہیں سکتا۔
اظہر کے اداکارہ سنگیا بجلانی کے ساتھ افیئر اور شادی پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ عمران ہاشمی نے فلم میں قدرتی اداکاری کر کے فلم بینوں کے دل جیت لیے۔
حال ہی میں فلم ایم ایس دھونی سامنے آئی جس میں سوشانت سنگھ راجپوت نے دھونی کا کردار ادا کیا۔ اس فلم میں دھونی کی جد و جہد کی زندگی بہت اچھا فلمایا گیا۔ کس طرح رانچی شہر ایک متوسط گھرانے کا نو جوان جس کو ریلوے پلیٹ فارم کی سخت نوکری بھی کرکٹ جاری رکھنے کے لیے کرنا پڑتی ہے، کیسے وہ بھارت کا صفِ اوّل کا کپتان بنا؟
لیکن فلم کے دوسرے ہاف میں دھونی کی کرکٹ کی کام یابیوں کو مزید بہتر بھی دکھایا جا سکتا تھا، تاہم مجموعی طور پر یہ ایک اچھی کوشش رہی۔
رواں بھی فلم بینوں کے لیے اس موضوع پر ایک دل چسپ فلم 83 بھی ریلیز کے لیے تیار ہے جس میں انڈین ٹیم کی عالمی کپ 1983 میں جیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ جب کہ فلم میں کپل دیو کا مرکزی کردار رنویر سنگھ کرنے جا رہے ہیں۔ بلا شبہ یہ فلم بھی کرکٹ کے حوالے سے ایک اچھا اضافہ ثابت ہو گا۔
کرکٹ پر جہاں بھارت میں اتنی فلموں کا ذکر ہوا وہاں ایک معیاری فلم پاکستان میں بھی بنائی گئی. ہمایوں سعید کی میں ہوں شاہد آفریدی جو کہ سیال کوٹ کے ایک غریب نو جوان شاہد کی کہانی ہے جس کو ایک کوچ نے سیال کوٹ کی ٹیم میں چانس دیا اور پھر کس طرح سیال کوٹ کی ٹیم قومی ٹورنامنٹ فائنل میں شاہد کی پرفارمنس کی بَہ دولت اسلام آباد کی ٹیم کو شکست دیتی ہے۔ میں ہوں شاہد آفریدی پاکستانی سِنِیما کے تناظر میں ایک خوش آئند اضافہ ثابت ہوئی۔
انڈین پرَیمیئر لیگ اور پاکستان سپر لیگ کے بعد کرکٹ میں جہاں گلیمر اور پیسے کی بہتات نے جنم لیا وہاں اس جنون نے کرکٹ اور فلمی دنیا کو بھی ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ امید ہے کہ ہم مستقبل میں کرکٹ پر مبنی مزید فلموں سے بھی لطف اندوز ہو سکیں گے۔