کرکٹر میگزین کا ستارہ کہاں ڈوبا، کہاں نکلا

کرکٹر میگزین
Base illustration from Cricketer magazine's Facebook Page

کرکٹر میگزین کا ستارہ کہاں ڈوبا، کہاں نکلا

از، حسین جاوید افروز

اس وقت ہم انگلینڈ میں ہونے والے بارہویں ورلڈ کپ کے دل چسپ میچز سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور ورلڈ کپ کے بخار نے عالمی کرکٹ کے شائقین کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ایک جانب کرکٹ کی سنسنی خیزی اور ٹیموں کے مابین ٹاپ فور میں جگہ بنانے کی جنگ برابر جاری ہے تو دوسری جانب دنیا بھر کا الیکٹرونک میڈیا بھی انگلش میدانوں پر کھیل کے ہر لمحے کی بھر پُور انداز میں کوریج کر رہا ہے۔ اور تو اور اس بار ایک نیا مظہر یہ بھی سامنے آیا ہے کہ عالمی کرکٹ کے سابق سپر سٹارز نے اپنے یو ٹیوب چینلز کے ذریعے کھیل پر ماہرانہ تبصرے کر کے شائقین کے جوش کو اور بھی گرما دیا ہے۔ 

اس سلسلے میں پاکستانی کھلاڑیوں جیسے سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم، راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر، رمیز راجہ اور نام وَر وکٹ کیپر راشد لطیف اپنے اپنے یو ٹیوب چینلز سے اپنے ماہرانہ تبصروں کے ذریعے نہ صرف پاکستانی پرستاروں میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں بَل کہ بیرونِ ملک خصوصاً انڈین شائقین بھی ان پاکستانی شاہینوں کے پر مغز تبصروں پر کھل کر داد دے رہے ہیں۔ 

کئی انڈین شائقین تو یہ بھی کہتے ہیں ان کے ہاں سپورٹس چینل ”اسپورٹس تک“ میں بھی وہ مزہ اور جذبہ موجود نہیں جو ان کو سابق پاکستانی کھلاڑیوں کی رائے سننے سے ملتاہے۔ یہاں کرکٹ کی باریکیوں اور تاریخ سے بہ خُوبی آشنا ”ڈاکٹر نعمان نیاز“ کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جن کی زندہ دلی اور راشد لطیف کے ساتھ بذلہ سنجی دیکھنا اپنے آپ میں ایک پر لطف تجربہ ہے۔ 

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کرکٹ وقت کے ساتھ بدلی ہے اور ورلڈ کپ جیسے میگا ایونٹ کی کوریج کے لیے نئے نئے مظہر آئے روز سامنے آ رہے ہیں۔ اب سے چالیس پچاس برس پہلے یہ ریڈیو کمنٹری ہی تھی جو شائقین کو کرکٹ سے جوڑے رکھتے تھی اور عوام مزے لے لے کر عمر قریشی، چشتی مجاہد کی انگریزی اور منیر حسین، حسن جلیل کی اردو کمنٹری سنا کرتی تھی۔ 

دھیرے دھیرے ٹیلی ویژن آیا اور لوگ پہلے لائیو ٹیسٹ میچ اور ون ڈے میچز سے لطف اندوز ہونا شروع ہوئے اور پھر کیری پیکر کے انقلاب کے بعد سے ڈے اینڈ نائٹ میچز میں سفید گیند اور رنگین کٹ میں ملبوس کھلاڑیوں نے گویا کرکٹ کو ایک نئی جہت عطا کی۔ 

یہاں اب میں 70 کی دھائی سے لے کر نئے ہزاریے تک کے دور کی بات کر رہا ہوں جب پرنٹ میڈیا کے ذریعے بھی کرکٹ کو ایک نئی توانائی ملی اور کرکٹ کے رسائل کے ذریعے دنیا بھر میں کرکٹ کے مداحین کو کرکٹ کی تاریخ، تازہ خبروں اور ریکارڈز کو گہرائی سے جاننے اور جانچنے کا موقع ملا۔ 

اس دور میں اسپورٹس ٹائمز، منیر حسین کے اخبار وطن اور حنیف محمد صاحب کی سرپرستی میں کرکٹر میگزین کو عوام میں قبولیت کی سند عطا ہوئی۔ یاد رہے یہ وہ دور رہا ہے جب ”کرک انفو“ جیسی ویب سائٹس، یہاں تک کے انٹرنیٹ کا نام نشان بھی موجود نہ تھا۔ 

اب تو ایک کلک پر آپ کو گزشتہ 150 سال کی کرکٹ کے اعداد و شمار اور تصاویر با آسانی دستیاب ہو جاتی ہیں۔ مگر اس دور عوام انہی رسائل کے توسط سے پاکستانی اور عالمی کرکٹ کی باریکیوں سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ مجھے بھی 1992 کے ورلڈ کپ کے سحر اور پھر عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت تلے اس میگا ایونٹ میں شان دار کامیابی نے کرکٹ کے جہاں سے رُو شناس کرایا اور یہ جنون آج بھی تین دھائیاں گزرنے کے بعد بھی زور شور سے جاری ہے۔ اور مجھے کہنے دیں کہ کرکٹ کے حوالے سے میرا یہ جنون صرف اور صرف پاکستان کے صف اول کے میگزین کرکٹر کے ہی مرہونِ منت رہا ہے۔

کرکٹر سے میری وابستگی کا آغاز مئی 1993 سے ہوا جب پہلی بار میں نے اپنے والدین کی مہر بانی سے لڑکپن میں اس کا تازہ شمارہ حاصل کیا۔ یوں تو ماہنامہ کرکٹر ستر کی دھائی سے ہی مقبولیت حاصل کر چکا تھا جب اسے حنیف محمد اور، ریاض منصوری اور بعد ازاں منصور علی بیگ جیسے محنتی ایڈیٹر ملے جنہوں نے اس رسالے کے دیدہ زیب سرِ ورق، عمدہ تصاویر کے ذریعے عوام میں اپنا منفرد مقام بنا لیا۔ 

مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید نکھار آتا گیا جب اس میں چند دل چسپ سلسلے جیسے ”اس ماہ جنم لینے والے کھلاڑی، کرکٹ کے خاندان، کرکٹ خبروں پر مشتمل ادھر ادھر سے اور ماضی کے کھلاڑی حال کے آئینے“ شامل کیے گئے۔ جب کہ رسالے کے درمیان میں ایک دل فریب پوسٹر بھی رسالے کی چکا چوند میں اچھا خاصا اضافہ کردیا کرتا تھا۔ 

اس ماہ جنم لینے والے کھلاڑی میں مذکورہ ماہ میں پیدا ہونے والے کرکٹر کی زندگی اور کیریئر پر مفصل روشنی ڈالی جاتی تھی جو کہ کرکٹر کی جان ہوا کرتی تھی۔ جب کہ ماضی کے کھلاڑی حال کے آئینے میں سابقہ عالمی کرکٹرز کی آراء اور تجربات بیان کیے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے خاندان میں بھارت کی امر ناتھ فیملی، جنوبی افریقہ کی پولاک فیملی، پاکستان کی محمد فیملی اور دیگر کرکٹ خاندانوں کے کرکٹ کیریئر اور عروج و زوال کا بھی تفصیلی جائزہ لیا جاتا تھا۔ جب کہ ہر ماہ عالمی کرکٹ میں ہونے والی سر گرمیوں کے حوالے سے ”ادھر ادھر سے“ کے نام سے سلسلہ کرکٹ قاری کو کرکٹ کی حرکیات سے ہر لمحہ با خبر رکھتا تھا۔ 

کرکٹر کا سب سے دل چسپ پہلو کھلاڑیوں کی آب بیتی پر مشتمل سلسلہ تھا جو کہ کرکٹ قارئین میں ہمیشہ مقبولیت کا حامل رہا۔ جب کہ اس رسالے میں میں میچز کے اسکور کارڈز اتنی خوبصورتی اور روانی سے پیش کیے جاتھے کہ آج تک مجھے 90 کی دھائی میں ہونے والی ٹیسٹ سیریز اور ٹورنامنٹس کے اسکور کارڈز اب تک اَز بر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر سیریز کے اختتام پر دونوں ٹیموں کی پرفارمنس پر مشتمل شماریاتی جائزہ بھی اپنی مثال آ پ ہوا کرتا تھا۔ 

اگر ہم کرکٹر کا اس کے حریف رسالے اخبار وطن سے موازنہ کریں تو اخبار وطن کو محض ایک پوائنٹ کی بر تری اس لیے حاصل رہی کہ اس کے شمارے کے ساتھ ایک جمبو سائز کرکٹ پوسٹر بھی ملا کرتا تھا جو کرکٹ قارئین کے لیے ایک سوغات کا درجہ رکھتا تھا۔ وگر نہ مجموعی طور پر اگر دونوں رسائل کا تقابل کیا جائے تو بلا شبہ کرکٹر مقصدیت، انفرادیت کے حوالے سے ہر لحاظ سے اخبار وطن پر حاوی رہا ہے۔ اخبار وطن میں شعر و شاعری کے سلسلے اور ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کے کرتا دھرتا افراد کے انٹرویوز بوریت کا سامان پیدا کرنے کا سبب بنتے تھے۔ جب کہ کرکٹ ریکارڈز اور انٹر نیشنل میچز کے اسکور کارڈز کو مہارت اور دل چسپی سے پیش کرنے میں کرکٹر، اخبار وطن سے کہیں آگے اور بلند معیار کا حامل رہا ہے۔ 

مجھے یاد ہے کہ کئی بار کرکٹر میں وکٹ کیپر سپیشل، عالمی کپ سپیشل، جنوبی افریقہ سپیشل، جاوید میاں داد سپیشل اور وسیم اکرم سپیشل کے عنوانات سے بھی خاص نمبر شائع کیے جاتے رہے جو کہ اس دور میں بہ  غیر انٹرنیٹ کی سہولت کے عرق ریزی سے تیار کرنا کوئی آسان کام ہر گز نہیں تھا۔ 

مگر افسوس کرکٹر کا ستر کی دھائی سے چلتا ہوا سفر مئی 2019 میں رک گیا اور مالی مشکلات کی وجہ سے کرکٹر بند کر دیا گیا۔ میں سمجھا کہ مجھے میرا ہاکر شاید سستی کی وجہ سے کرکٹر کا عالمی کپ 2019 پر مشتمل شمارہ فراہم کرنے میں نا کام رہا ہے۔ مگر لاہور کے طول و عرض میں تلاش کے بعد مجھے علم ہوا کہ واقعی کرکٹر کی بندش اب ایک حقیقت بن چکی ہے۔ 

نہایت ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان جو کہ ایک کرکٹ کریزی ملک ہے وہاں اب اس لمحہ موجود میں کرکٹ پر اردو زبان سے شائع ہونے والا ایک بھی معیاری رسالہ اب باقی نہیں رہا۔ یہ صد فیصد درست ہے اب انٹر نیٹ ایج کی بدولت کرکٹ کا ماضی حال اور مستقبل ہم سے ایک کلک کی دوری پر ہے مگر ہم جو کہ 90 کی دھائی والی جنریشن ہیں کرکٹر کو کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے، جس نے اس وقت ہمیں کرکٹ سے جوڑے رکھا جب ذرائع نہایت محدود ہوا کرتے تھے۔ 

ذاتی طور پر میرے پاس 1993 سے 2019 تک کے کرکٹر کے تمام شمارے محفوظ ہیں۔ تاہم اگر کسی دوست کے پاس 70،80 اور 90 کی دھائی کے شمارے موجود ہوں تو مجھ سے ضرور رابطہ کریں کیوں کہ اب کرکٹر کے مستقبل کا باب تو بند ہی ہو چکا ہے، مگر شاید ماضی میں کرکٹر کی تلاش کا سفر ہمیشہ جاری رہے گا۔

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔