کرکٹر سنجے منجریکر کی یاد داشتیں
از، حسین جاوید افروز
اس بارے میں قطعی کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ کرکٹ کو برصغیر پاک و ہند میں جنون کی حد تک پسند کیا جاتا ہے۔ یوں تو برٹش ہندوستان کے وقت سے ہی کرکٹ کی داغ بیل پڑ چکی تھی لیکن آزادی ملنے کے بعد سے ہی کرکٹ کلکتہ سے پشاور تک پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کا مرغوب کھیل بن گیا۔ جہاں ہندوستان نے ہر دور میں بہترین بلے بازپیدا کیے جن کی فہرست پولی امریگر، وجے ہزارے سے گواسکر اور گواسکر سے ٹندولکر اور ٹندولکر سے ویرات کوہلی تک جاتی ہے۔ وہاں پاکستان نے بھی ہر دور میں فضل محمود، عمران خان، وسیم اکرم ،وقار یونس ،شعیب اختر اور محمد عامر جیسے بے مثال باؤلرز تخلیق کیے جنہوں نے ایک عالم کو اپنی تباہ کن پرفارمنس سے سحر زدہ کیے رکھا۔
آج بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ مقابلے ساری دنیا کو اپنے طلسم میں مبتلا کیے رکھتے ہیں۔ جہاں میچ کے دوران دونوں ممالک کے کھلاڑیوں کے درمیان جذبات پرجوش ہوتے ہیں وہاں میدان سے باہر دونوں اطراف کے کھلاڑی ایک دوسرے کے لیے دوستانہ جذبات بھی رکھتے ہیں۔ ایسے ہی دوستانہ اور گرم جوش خیالات کا کھل کر اظہار سابق انڈین بلے باز ’’سنجے منجریکر‘‘ نے بھی اپنی سوانح عمری Imperfect‘‘ میں کیا ہے۔
سنجے منجریکر کی رگوں میں کرکٹ سے لگاؤ شروع سے تھا جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ممبئی میں انڈر19 کے ایک میچ کے لیے سنجے نے اپنی بہن کی شادی میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔ کرکٹ سے وابستگی کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی تھی کہ وہ سابق بھارتی بلے باز’’ وجے منجریکر‘‘ کے صاحبزادے بھی ہیں۔ وجے منجریکر اپنے وقتوں کے عظیم بلے باز تھے جن کی غلطیوں سے مبرا ٹیکنیک ان کا خاصہ تھی ۔ایک بار’’ منصور پٹودی‘‘ سے کسی نے پوچھا آپ گواسکر اور سچن میں کسے تکنیکی طور پر بہتر گردانتے ہیں تو پٹودی نے فورا جواب دیا کہ’’ تکنیکی حوالے سے وجے منجریکر ہی لاجواب تھا‘‘۔ ممبئی سے تعلق رکھنے والے سنجے منجریکر1987 سے 1996 تک بھارتی ٹیم کے اہم بلے باز رہے۔ 37 ٹیسٹ اور 74 ون ڈے میچز میں انہوں نے بھارت کی نمائندگی کی۔
کل کے سابق کھلاڑی اور آج کرکٹ کی دنیا کے نامورکمنٹیٹر کی حیثیت سے سبھی منجریکر کے صاف گو تجزیوں کے دلدادہ ہیں۔ اپنی کتاب’’ Imperfect ‘‘میں سنجے نے اپنی ابتدائی زندگی ،ٹیم میں شمولیت کی جدوجہد اور بھارتی ڈریسنگ روم کی اندرونی کہانیوں کو ایماندارنہ طریقے سے بیان کیا ہے۔ سنجے کی اس کاوش کی خو بصورتی اس کا سادہ پن اور خودنمائی سے اجتناب برتنا ہی ہے۔
سنجے کہتے ہیں کہ اس کتاب کو لکھنے کا جوش مجھ میں میرے قریبی دوستوں نے بھرا جو ہمیشہ سے ہی مجھے کہتے رہے ہیں کہ سنجے تمھارے اندر بذات خود ایک کتاب موجود ہے۔ تو پھر میں نے قلم اٹھایا اور اپنی ذاتی اور کھیل کی زندگی کے گوشے قارئین کے لیے آشکار کیے۔ شروع شروع میں تو تین سو سے چار سو الفاظ کا ایک آرٹیکل لکھنا بھی میرے لیے خاصا مشکل تھا لیکن پھر باقاعدگی سے مشق کرتے کرتے میں ایک کتاب لکھنے کا اہل ہوہی گیا۔
میں نے اس کتاب میں اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ پیش کیا اور کتاب کا نام اس لیے Imperfect رکھا کیونکہ بطور انسان ہم ہمیشہ سے ہی خود کو کاملیت کے درجے پر فائز کرنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں ۔اور اس وقت ہم Imperfect ہی ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ میں نے اپنے والد وجے ہزارے کے ساتھ اپنے تعلق کو سچائی سے بیان کیا۔ وہ انتہائی غصیلے انسان تھے۔ میں کبھی بھی ان کے قریب اسی لیے نہیں ہوسکا تھا ۔وہ بھی کوئی کامل انسان نہیں تھے۔ میں نے اپنے والد کے منفی پہلوؤں کو بے نقاب نہیں کیا بلکہ وہی لکھا جو کہ حقیقت تھا ۔البتہ میرے لیے میری ماں سب کچھ تھی اور یہ میں ہی جانتا ہوں کہ کتنی مشکل سے میں نے ان کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے۔
میری کرکٹ کا آغاز بمبئی کی ٹیم سے ہوا جس کا میں بعد ازاں کپتان بھی بنا ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ صرف اٹھارہ برس کی عمر میں میں نے اپنے والد کو کھویا اوراس وقت ممبئی ٹیم کی بدولت ہی میری کرکٹ کی زندگی شروع ہوسکی۔ یہ مقابلے سے بھرپور ایک ٹیم تھی جس میں جذبے کی کوئی کمی نہیں تھی۔لیکن جب میں انڈین ٹیم کا حصہ بنا تو مجھے مایوسی ہوئی۔ کیونکہ قو می ٹیم میں ایک منفی اپروچ حاوی رہتی تھی۔ خاص کو ہم جب بھی باہر جاکر کھیلتے تو جیتنے کے جذبے کا فقدان رہتا تھا جو کہ ٹیم کے لیے ایک غیر صحت مندانہ رجحان تھا۔
اسی اور نوے کی دھائی ہندوستان کرکٹ کے لیے برے ادوار میں سے ایک تھے۔ کھلاڑیوں کے درمیان تال میل اور ٹیم سپرٹ کا گہرا فقدان پایا جاتا تھا۔ ہمارا بیرون ملک سیریز جیتنے کا ریکارڈ بہت ہی شکستہ ہوچکا تھا۔ اسی لیے انڈین ٹیم کو گھر کا شیر سمجھا جاتا تھا۔ یہ 2002 اور2003 تھا جب گنگولی نے بطور کپتان ٹیم کو ایک فتح گر سکواڈ میں بدل دیا۔یہی وجہ ہے کہ آج کی انڈین ٹیم ہمارے وقتوں کی سست اور جذبے سے عاری ٹیم سے بدرجہا بہتر ہے۔ بہر حال جہاں میرے لیے بھارت کے لیے کھیلنا ایک اعزاز تھا وہاں شاید شہرت پانے کا ٹکٹ بھی تھا ۔میں نے بچپن سے ہی سنیل گواسکر، اجیت واڈیکر کو میرے والد سے گھر آ کر ملتے دیکھا تھا ۔ہندوستان میں جلد ناموری تک رسائی کے لیے کرکٹ ایک آسان سیڑھی ہے۔
ہندوستان میں مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ مشہور ہوتے ہیں تو کوئی آپ کے کمزور پہلوؤں کی نشان دہی نہیں کرتا۔ جب آپ کہیں گرے تو سمجھو جیسے آسمان ٹوٹ پڑا ہے۔ یہاں ہمارے سامنے سٹیو جابز کی مثال ہے جس کے جینئس ہونے میں کوئی کلام نہیں مگر وہ بھی خامیوں سے مبرا نہیں تھا ۔افسوس بھارت میں لوگ جھوٹ میں رہنا پسند کرتے ہیں ۔ میچ فکسنگ کے حوالے سے سنجے کا موقف یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ نوے کی دھائی میں میچ فکسنگ نے بھارتی کرکٹ کو خاصا نقصان پہنچایا مگر یہ بھی تو دیکھیے الزامات عائد کیے گئے کارروائی ہوئی مگر کچھ ثابت نہیں ہوا۔ یہاں ہنسی کرونئے کی مثال ہے جس نے کم از کم اعتراف تو کیا۔
اگر کوئی انڈین کھلاڑی بھی کرونئے کی تقلید کرتا تو میں ضرور اس بارے میں اپنی کتاب میں تذکرہ کرلیتا۔ اسی طرح سابق انڈین کپتان اظہر الدین کے متعلق سنجے واضح طور پر ان کی قائدانہ صلاحتیوں پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ بقول سنجے، اظہر میں قیادت کے قدرتی جراثیم موجود نہیں تھے۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ وہ انتہائی مہربان شخصیت کا حامل انسان ہے جو کھلے دل سے خیراتی سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتا ہے۔ کتاب کا سب سے دل چسپ پہلو پاک بھارت کرکٹ سے جڑے چند واقعات ہیں جو کہ منجریکر نے بیان کیے۔ جیسے سنجے کے مطابق، میں 1989 میں دورہ پاکستان کے وقت ا نڈین ٹیم کا ممبر تھا۔ یقین مانیے پاکستان کھیلنے کے حوالے سے انگلینڈ یا آسٹریلیا سے کہیں آسان جگہ تھی ۔جہاں بھارت کی طرح سپاٹ اور بے جان وکٹیں ہوتی ہیں۔
جس دور میں ہم پاکستان گئے وہ پاکستان بہت مختلف ہوا کرتا تھا ۔میں نے اس دورے میں لاہور میں 218 رنز کی باری کھیلی جس پر مجھے دوسرا گواسکر بھی کہا جانے لگا ۔مجموعی طور پر میں نے اس ٹور میں569 رنز سکور کیے ۔مجھے یاد ہے کہ جب میں اور سچن پشاور میں شاپنگ کے لیے بازار گئے تو ہمیں پشاوری چپل لینی تھیں۔ ہم بہت دُبکے ہوئے تھے کہ جانے لوگ کیسے ہمیں بطور انڈین کھلاڑی برداشت کریں گے؟ مگر جس طرح بازار میں ہمیں عوام نے خوش آمدید کہا اور اعلیٰ قسم کی پشاوری چپل بھی بطور تحفہ دی وہ واقعی قابل دید تھا۔
اسی طرح ایک میچ کے دوران کچھ تماشائی اچانک میدان میں پہنچ گئے اور کپتان سری کانت کی قمیض پھاڑ دی۔ اگر یہ واقعہ اب ہوتا تو شاید دورہ ہی ملتوی ہو جاتا لیکن اس واقعہ سے اس وقت کچھ فرق نہیں پڑا۔ اس دورے میں مجھے پاکستانی قائد عمران خان کو گہرائی سے سمجھنے کا موقع ملا۔ عمران خان 37 برس کی عمر میں بھی جوش اور ولولے سے لبریز تھا۔ مجھے یاد ہے کہ سچن فیصل آباد میں کھیل رہا تھا جب بال اس کے قریب سے چھو کر نکل گئی۔ سب خاموش رہے مگر یہ عمران ہی تھا جس امپائر سے پرجوش اپیل کی ۔لیکن سچن ناٹ آؤٹ قرار دیا گیا۔ عمران نے اضطراب سے اپنے کھلاڑیوں کو کہا یار آواز تو آئی تھی ناں یار ۔ بعد میں سچن نے مجھے بتایا کہ عمران درست تھا ۔لیکن عمران کی تیز حس نے جس طرح سچن کی غلطی کو بھا نپ لیا یہ اس کی عظمت کی واضح دلیل تھی۔
رمیز راجہ نے ایک بار مجھے بتایا کہ اگر عمران بطور کپتان کھیلتا رہتا تو میں کبھی ٹیم سے ڈراپ نہیں ہوتا۔ عمران کو کسی بھی کھلاڑی کی چھپی ہوئی صلاحیت کو پہچاننا بخوبی آتا تھا۔ عمران نے عالمی کپ 92 کے سیمی فائنل میں انضمام پر بھروسا کیا جس نے ناساز طبعیت کے باوجود پاکستان سیمی فائنل جتوا دیا۔ عمران نے جھگڑالو پاکستانی ٹیم کو ایک رنگ ماسٹر کی طرح قابو کیا اور اس کو ایک فتح گر سکواڈ میں بدل گیا۔ وہ لڑکوں کو سخت محنت پر اکساتا اور ہمہ وقت کھیل پر ایک عقاب کی طرح نظریں جمائے رکھتا ۔یقین مانیے ایسا کپتان اس دور میں انڈین ٹیم میں ناپید تھا ۔بھارت میں کوئی بھی آپ کو کامیابی کے لیے اس شدت سے نہیں اکساتا تھا جو خاصہ عمران خان کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان ،سنیل گواسکر کی جگہ میرا آئیڈیل بن گیا۔
رمیز نے ہی مجھے بتایا کہ بطور کپتان پاکستانی ڈریسنگ روم سے عمران کی بدولت منفی اپروچ ہی ختم ہوگئی تھی۔ اسی طرح عمران خان کی بدولت ہی پاک بھارت سیریز میں نیوٹرل امپائر لائے گئے تاکہ میچ کی سپرٹ متاثر نہیں ہوسکے ۔سنجے نے میانداد اور عمران کی دلچسپ ہم آہنگی بھی بتائی کہ میانداد ہمہ وقت ایک ذہین لیکن شرارتی کردار رہا تھا۔ جو دوران میچ ہر وقت عمران کو مشورے دیتا رہتا تھا ۔ایک بار تو عمران نے بھی کہا جاوید بس کر اب رہنے دے ۔کبھی ایک بات بولتا ہے تو کبھی دوسری ۔جب عمران سے میانداد کے مشوروں بابت پوچھا گیا تو عمران نے ترنگ میں کہا ’’اگر جاوید کے دیے گئے مشوروں کے مطابق ٹیم کو فائدہ ہوتا تھا تو یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں ۔ایک ہزار غلط مشوروں میں ایک تو درست ہوگا ہی ناں ‘‘۔
ایک بار جاوید عمران کے پاس سلیم یوسف کی شکایت لے کر آیا کہ یا تو یہ ٹیم میں رہے گا یا میں۔ تو عمران نے ہنس کر اتنا کہا ۔’’یار جاوید تو بھی ناں ۔‘‘اور اس کے بعد دونوں ہنس پڑے اور مسئلہ ختم ہوگیا۔ کہنے کا مطلب تھا کہ عمران اچھی طرح علم تھا کہ ان منھ زور پاکستانی کھلاڑیوں کو کیسے قابو میں رکھنا ہے؟ اسی طرح سنجے نے ایک دلچسپ واقعہ بتایا کہ شارجہ میں ایک میچ کے دوران دلیپ وینگسارکر وقار کی ایک قاتلانہ یارکر پر کلین بولڈ ہوگیا ۔تو جاوید نے دلیپ کو جملہ کسا ’’دلیپ تمھارا کیریئر بہت طویل رہا ہے۔ اس میں وقار کی ہی کمی تھی جو اب پوری ہوگئی ہے۔ لیکن پریشان نہ ہو وقار آج کل سب کے ساتھ ایسا ہی کررہا ہے‘‘۔
ایک بار میری ایک پاکستانی صحافی سے ان بن ہوگئی تو مجھے خاصا غصہ آیا۔ جب ساتھیوں نے پوچھا کیوں اتنے لال پیلے ہورہے ہو۔ تو میں بولا یار اس پاکستانی بدمعاش نے غلط بات کہہ دی ۔اچانک کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بھاری آواز میں کہا اتنا بھی اینٹی پاکستان ہونا اچھا نہیں۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو یہ عمران خان تھا ۔ عمران میدان میں ایک سخت جان حریف اور میدان سے باہر ایک مددگار شخص تھا۔ ایک بار وہ مجھے اور منندر سنگھ کو ملتے ہی بولا سنجے تم نیوزی لینڈ میں ہیڈلی کو درست نہیں کھیلے۔ اور منندر تم کیوں اپنا اچھا بھلا باؤلنگ ایکشن تبدیل کر رہے ہو ۔ ایسے ہی لگے رہو۔ ایسے عظیم کھلاڑی کا ہمارے متعلق ایسا مشاہدہ ایک شاندار احساس تھا ۔ ہماری ٹیم میں عمران جیسی فائٹنگ سپرٹ کسی حد تک منوج پربھاکر اور کرن مورے میں ہی تھی ۔ بلکہ ہمارے کپتان سری کانت تو وسیم اکرم سے اتنے خوفزدہ تھے کہ اس کا اوور آتے ہی نان سٹرائیک اینڈ پر چلے جاتے تھے۔
سنجے منجریکر آج کی بھارتی ٹیم کے متعلق کہتے ہیں کہ اب دھونی میں وہ بات نہیں رہی۔ اس کی جگہ نئے کھلاڑیوں کو موقع ملنا چاہیے۔ ہم نے ماضی میں کپل دیو کوزبردستی کھلایا جبکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کی رفتار اور ردھم ختم ہوچکے تھے۔ لیکن یہ ہمارے شاید ڈی این اے میں ہے کہ ہم کھلاڑیوں کو عظمت اس مقام تک پہنچا دیتے ہیں کہ ان پر جائز تنقید سے بھی گریزاں رہتے ہیں۔ مجھ پر بھی برا وقت آیا جب میری فارم چلی گئی اور میری جگہ گنگولی اور ڈراوڈ نے لے لی ۔’’ Imperfect ‘‘بلاشبہ سنجے منجریکر کی انتہائی دلچسپ کوشش ہے جو کہ کرکٹ کے شائقین کے لیے کسی سوغات سے کم نہیں ہے۔