ملیر کا ماحولیاتی ماتم
از، عومر درویش
چچا فیض کی آنکھیں تقریبا ایک صدی کے مشاہدوں سے لبریز ہیں، 92 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتےان آنکھوں نے کراچی خصوصاً ملیرکو کئی رُوپ دھارتے ہوئے دیکھیں ہیں۔ ان آنکھوں نے گڈاپ کی سونا اُگلتی زمین کو ہاؤسنگ سوسائٹیز کے نام سے کنکریٹ اور سمینٹ میں بدلتے دیکھا ہے اور برسات کے موسم میں اپنی طاقت دکھانے والے دریائے ملیر کو سوکھتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ انہی آنکھوں نے بارش کے بعد سر سبز ہوتی پہاڑی سلسلوں اور ان پہاڑیوں میں چہچہاتے پرندوں کی آوازوں کو بھی بغور سنا ہے، گاؤں سے ذرا فاصلے پر چاندنی راتوں میں شور مچاتے کیرتھر نیشنل پارک کے بھٹکے ہوئے جانوروں اور انہی پہاڑی سلسوں کے باسی گیدڑ اور بھیڑیوں کی آوازوں سے لے کر صبح سویرے کسی پیڑ کی ٹہنی پر رسیلے گیت گاتی کوئل کی مدُھر آواز کو بھی اپنے کانوں میں سمویا ہے۔
چچا فیض کہتے ہیں جب سے دریائے ملیر سے ریتی بجری کا گھناؤنا کاروبار شروع ہوا تب سے ہماری زمینوں کی کوکھ بنجر ہونا شروع ہوئی۔ ریتی بجری کے اس کھیل میں مقامی انتظامیہ سے لے کر سندھ کی حکومتوں کا بھی عمل دخل رہا ہے۔ دریائے ملیر اس علاقے کے لئے اتنا ہی اہم ہے جتنا پنجاب کے لئے دریائے سندھ ہے۔ زمینیں بارانی ہونے کے باعث بارش کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں۔ بارشوں کے موسم میں لوگ کھیتوں میں بند باندھ کر پانی جمع کرتے ہیں اور سارا سال اُسی پانی کو زندگی کی بنیادی ضروریات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ پینے کے لئے کنویں کا پانی استعمال ہوتا ہے مگر اس ریتی بجری کے کاروبار کے باعث اس علاقے کا واٹر ٹیبل سطح زمین سے بہت نیچے ہوا ہے جس کے باعث اب پینے کا پانی بھی آسانی سے میئسر نہیں ہے۔ چچا فیض کہتے ہیں یہ زمین میری ماں ہے یہی زمین میرے والدین سے لے کر میرے بچوں تک کا پیٹ پالتی آئی ہے۔
پچھلے دنوں چچا فیض کے ساتھ ایک بھیانک صورتحال پیش آئی۔ اُن کی زمینوں کے ساتھ بحریہ ٹاؤن کی احدود آتای ہیں۔ بحریہ ٹاؤن والے اُن کی زمین حاصل کرنے کے اپنے بروکرز، ایجینٹس کے ذریعے ان سے سودا کرنے کی کوشش کی مگر چچا فیض نے انکار کر دیا۔ جب ایک طرف سے بحریہ ٹاؤن والوں کو ناکامی ہوئی تو انہوں نے طاقت کا استعمال کرنا شروع کر دیا اور علاقے کے سردار سے لے کے پولیس تک اُن کے پیچھے لگا دیا، اُن کی فیملی پر جھوٹے کیسسز بنا کر بیٹے اور بھائیوں کو جیل بھیج دیا مگر فیض چچا تھے کہ اپنی ضد پہ اڑے رہے اور کیس کو لے کے عدالت پہنچے تو اُن کے وکلا کو خریدا گیا۔ یہاں سے فیض چچا نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا کیس خود لڑیں گے۔ اس بڑھاپے میں بھی ابھی تک وہ ان کیسسز کی پیروی کر رہے ہیں۔
جب ہر طرف سے بحریہ ٹاؤن والوں کو ناکامی کا سامنا ہوا تو اس کے روح رواں ملک ریاض خود چچا فیض سے ملاقات کرنے اُن کے گھر گئے انہیں آفر کی کہ میں آپ اور آپ کی فیملی کو عالیشان گھر بنا کر دوں گا اور بحریہ ٹاؤن کی تمام سہولیات کے ساتھ ساتھ، میڈکل اور تعلیم زندگی بھر کے لئے آپ کو مفت فراہم کر دی جائیں گی اس کے علاوہ آپ کو بلینک چیک دیا جائے گا جس پہ رقم آپ اپنی مرضی سے لکھ لیں بس یہ زمین ہمارے نام کر دیں۔ چچا فیض کے گلے میں زہر اُتر رہا تھا، انہوں نے پانی کا گلاس اُٹھایا، پیا اور لمبی سانس لی، لرزتے ہاتھوں سے حقے کا پائپ اُٹھایا لمبا سا کش لیا اور ملک ریاض سے کہنے لگے “ملک صاحب آپ ہمارے گھر چل کر آئے ہیں آپ ہمارے مہمان ہیں، آپ بیٹھں کھانا کھائیں ہمارے ساتھ” اس دوران حقے کا پائپ تھوڑا کھینچ کر دوبارہ ایک لمبا کش لیا اور ملک ریاض سے پوچھنے لگا “ملک صاحب آپ کی ماں زندہ ہیں؟ ملک ریاض کا جوب نفی میں تھا۔
چچا فیض نے پڑے اعتماد سے دوسرا سوال پوچھا “ملک صاحب اگر آپ کی ماں زندہ ہوتی توآپ اُن کو کتنے میں فروخت کرتے؟ یہ سوال سُن کر ملک ریاض کے ماتھے پہ پسینے کی بوندیں اُمڈ آئی اور انہوں نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہنے لگے ” گبول صاحب آپ کیسی باتیں کرتے ہیں، ماں کی کوئی قیمت یا مول نہیں ہوتا۔ ایسا بھلا کوئی سوچ بھی سکتا ہے؟ چچا فیض نے حقہ ایک طرف رکھ دیا اور ملک ریاض کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے “ملک صاحب آپ کو معلوم ہے یہ زمین میری ماں ہے، میرے والدین سے لے کر میرے بچوں تک اسی زمین نے ہمیں پالا پوسا ہے، اگر آپ کو اپنی ماں اتنی پیاری ہے تو پھر مجھ سے میری ماں کا مول کیوں پوچھ رہے ہو؟ چچا فیض کی یہ بات محفل میں سناٹا پھیلا گئی ملک ریاض اُٹھے اور چپ چاپ سر کھجاتے ہوئے اپنی راہ لی۔
یہ کہانی صرف چچا فیض کی نہیں بلکہ اس علاقے کے سارے باسیوں کے ساتھ یہی سلوک ہوا ہے۔ اُن کی آنکھوں کے سامنے اُن کی زمینوں پر قبضے پہ قبضہ کیئے جا رہے ہیں وہ چیخنا چلانا چاہتے ہیں مگر اُن کی آواز پر ہر سمت سے پہرے لگا دئے گئے ہیں۔ کہیں پولیس کی شکل میں تو کہیں میڈیا کو کوریج سے روکنے کی شکل میں۔ پاکستانی میڈیا بیچارہ کچھ ان کے سامنے کٹھ پتلی ہے۔ ڈان اخبار نے اس معاملے کو اُٹھایا تھا اُسی بنا پر سپریم کورٹ نے نیب کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ نیب کی تحقیقاتی رپورٹ میں چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے تھے۔ نیب کے مطابق بحریہ ٹاؤن کراچی نے لوگوں کے ساتھ فراڈ کیا ہے۔ انہوں نے اُس وقت سے پلاٹ فروخت کرنا شروع کر دئے تھے جب اُن کے پاس زمین کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا۔ اسی فراڈ سے کروڈوں پیسے کما لئے ہیں۔ ان تحقیقات کی روشنی میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو کام کرنے سے روکا تھا مگر علاقے کی پولیس اور رینجرز کی زیر نگرانی کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی تعمیراتی کام ابھی تک چل رہا ہے۔
لوگوں کے گھروں سے لے کر تاریخی قبرستان تک، جو کہ اس علاقے کی پہچان تھے، مسمار کرتے جارہے ہیں اور لوگ بیچارے ہاتھ باندھ کر اپنی آنکھوں سے اپنی تباہی دیکھ رہے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ علاقہ کیرتھر نیشنل پارک کا سپورٹ ایریا ہے بحریہ ٹاؤن سے پہلے اس کی پہاڑیاں گیدڑ، خرگوش، بھیڑیا، لومڑی، مارخور اور دیگر جنگلی حیات کا مسکن ہوا کرتی تھیں مگر جب سے بحریہ ٹاؤن کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا ہے آئے روز جنگلی حیات روڑ پر کسی کی گاڑی کے نیچے آ کے مرتے دیکھ رہے ہیں۔ اس علاقے کے باسی ترقیاتی کام کے خلاف نہیں مگر تعمیراتی کام کس جگہ پہ اور کس طرح ہوتا ہے اس کے خلاف ہیں۔ میڈیا سے لے کر دوسری تنظیموں تک کسی کے بھی کان میں جوں تک نہیں رینگتی کیونکہ یہ کام ملک کے ایک بااثر شخص کی زیر نگرانی ہو رہا ہے۔ بیچاری حکومت سندھ تو اس قدر بے بس دکھائی دے رہی ہے کہ جب کورٹ کی طرف سے پریشر آیا تو بحریہ ٹاؤن کے روڑ کو ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے کھاتے میں ڈال کر جان بخشی کرائی اور جب یہاں کے باسیوں نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا تو حکومت کی طرف سے تمام قدیمی گوٹھوں کو غیر قانونی ہونے کا نوٹس جاری کر دیا اور سیکیورٹی اداروں کی مدد سے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر لوگوں کے گھروں اور کھیتوں تک کو مسمار کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ یہ کہانی صرف ایک چچا فیض کی نہیں بلکہ اس علاقے کے سب گھروں میں اسی تباہی اور بربادی کا ماتم ہوتا ہے۔
ملیر کے لوگوں کو چچا فیض بن کے ان مافیاؤں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیئے۔ میں دنیا کے اُن تمام معتبر اداروں اقوام متحدہ اور ماحول دوست تنظیموں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ ہماری آواز بن کر اس آنے والی ماحولیاتی تباہی سے بچنے میں اپنا کردار ادا کریں۔