ثقافت و تہذیب کیا ہے

Saqlainsarfaraz
ثقلین سرفراز

ثقافت و تہذیب کیا ہے

از، ثقلین سرفراز   

تہذیب اُسی وقت شروع ہو گئی تھی جب دو انسان پہلی بار آپس میں ملے۔ دو انسانوں کا آپس میں ملنا سماجی عمل تھا اور سماجی عمل سے ہی تہذیب کا آغاز ہوتا ہے۔ تمدن ڈھیر سارے لوگوں کا آپس میں مل جل کر رہنے کی جگہ اور خاص شہری ضابطوں کے علم کا نام ہے۔ ایسے ضابطے، اصول جن پر عمل کرتے ہوئے شہری اپنی زندگیوں کو بہتر انداز میں گزارتے ہیں۔

ریاستی اصول، شہری اصولوں پر لاگو ہوتے رہتے ہیں جب کہ شہری اصول میرے خیال میں جہاں ان کا ریاست سے کافی عمل دخل ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی کئی اصول ان کے فطری اور تہذیب کے پروردہ ہوتے ہیں جب کہ تہذیب کا دائرہ اس سے الگ اور وسیع ہے اور یہ بنیادی چیز ہے۔

انسان پہلے تہذیب سے آشنا ہوتا ہے، شہری اصولوں سے تو اس کا واسطہ کہیں بعد میں جا کر پڑتا ہے۔ ہر شہر کے اصول مختلف ہوتے ہیں اور ہو سکتے ہیں، لیکن تہذیب کا دائرہ ہر جگہ پر بنیادی طور پر ایک جیسا ہوتا ہے۔ تہذیب فطری زیادہ ہوتی ہے اور تمدن ضرورت کے مطابق فطری رہتا ہے۔ شہری اسے اپنی ضرورت کے مطابق ترتیب دیتے رہتے ہیں۔

تہذیب پہلے ہے اور تمدن بعد میں، اور تمدن، جگہ گھیرتا ہے جب کہ تہذیب کہیں اندر ہوتی ہے۔ اگر تہذیب نہیں ہو گی تو تمدن، جبری ریاستی تمدن تو ہو سکتا ہے لیکن انسان کا فطری تمدن نہیں ہو سکتا۔ جب کہ تمدن کا وجود نہ بھی ہو تو تہذیب پھر بھی اپنی اصل حالت میں رہے گی۔ تہذیب کا وجود بنیادی اور تا دیر ہے۔

انسان کا آپس میں مل جل کر رہنے کا نام سماج ہے۔ جب کہ تہذیب ایک ایسے نظریے کا نام ہے جس پر عمل کرتے ہوئے انسان اپنی زندگی کو ایک مہذب انداز میں گزارتے ہیں۔

تہذیب در اصل انسانوں کی اپنے لیے بنائے گئے بہترین اعمال کی تراش خراش کا نام ہے اور فطرت کی کانٹ چھانٹ بھی تہذیب و ثقافت کی ذیل میں آئے گی۔

تہذیب میں میرے خیال میں دو بنیادی چیزیں شامل ہیں جس پر تہذیب کی بنیاد کھڑی ہے۔ ایک اخلاقیات اور دوسرا اقدار ہیں۔ اخلاقیات ایک ایسا علم ہے جس سے ہم کسی بھی سماج کی تہذیب کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ اس سماج کے خصائص و نقائص کیا ہیں اور یہ کن اخلاقی اصولوں پہ قائم ہے۔

واضح رہے اخلاقیات کا علم سب انسانوں کی بات کرتا ہے۔ اخلاقیات کو مزید آسان کروں تو اخلاقیات میں ہم انسانی اعمال کا مطالعہ ان کی اچھائی و برائی کے نقطۂِ نظر سے کرتے ہیں۔ افادیت پسندی، نیکی، محبت، علم اور حسن، یہ اخلاقیات کے معیار ہیں جس سے ہم کسی بھی سماج کے اخلاقی معیاروں کو پرکھ سکتے ہیں۔

دوسرا تہذیب میں انسانی اقدار شامل ہیں۔ کسی شئے کی باطنی خوبی، یا قیمت قدر کہلائے گا۔

قدر میں بنیادی طور پر انسانی محنت شامل ہوتی ہے۔ اقدار کسی بھی سماج کے تہذیبی اصولوں کا نام ہے۔ واضح رہے یہ اقدار رواج کی ذیل میں بھی آئیں گی۔ رواج وہ عمل ہے جو جہاں ہو، وہاں بھلا لگے اور اس سماج میں قابلِ قبول ہو۔ اقدار ایک طرح سے سماجی اصول ہوتے ہیں جن پر افراد عمل پیرا ہوتے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ اقدار بھی اخلاقیات کا خاص موضوع ہے اور اخلاقیات ہی کسی سماج کی تہذیب ہوتی ہیں۔

تہذیب مسلسل انسانی محنت کے بعد اپنا وجود قائم کر پاتی ہے۔ ہر تہذیب کے پیچھے انسانی عمل و محنت کا کردار نمایاں رہا ہے۔ تہذیب گو باطن کی چیز کی ہے اور یہ انسانی کردار و فعل سے ظاہر ہوتی ہے، مگر انسان اسے دیکھنے سے زیادہ محسوس کر سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ تہذیب کو جہاں ہم محسوس کرتے ہیں، اس سے پہلے تہذیب اپنا وُجود انسانی و جغرافیائی فطرت کی مطابقت سے قائم کر چکی ہوتی ہے۔ جس طرح میں نے پہلے کہا اخلاقیات سب انسانوں کی بات کرتی ہے اسی طرح تہذیب بھی اجتمائی و کُلی تقاضوں سے مزین ہوتی ہے۔

کوئی بھی تہذیب ہو، انسان کی ہزاروں سال کی محنت کے بعد اپنا وجود قائم کر پاتی ہے۔ ایک بات اور بھی واضح رہے تہذیب کا تعلق انسانی ضرورت سے بھی کافی نتھی رہا ہے۔ انسانی ضرورت کا تہذیب کو قائم کرنے میں اساسی کردار رہا ہے اور کئی ضرورتیں زمین و جغرافیہ سے ممکن تھیں۔

تہذیبوں میں جدت ہر دور میں معاصر انسانی ضرورت کے تحت آتی رہی ہے اور ہر دور میں انسانی ضروریات مختلف رہی ہیں۔

انسان نے انسان سے مل کر سماج کو وجود بخشا۔ سماج میں سماجی تعامل و تبدل سے سماج ارتقاء کی جانب رواں دواں رہا۔

انسان کا سماج میں سماجی عمل کسی ضرورت کے تحت ہی رہا۔ انسانی تہذیب کا وجود بھی انسان کے ضرورت عمل سے ہی سامنے آیا اور اسی طرح ایک انسان دوسرے انسان کے فعل تہذیب سے آشنا ہوا اور انسانی تہذیب کو قائم کرتا چلا گیا۔ چیزوں کی دریافت و ایجاد میں انسان جُت گیا۔ نت نئی چیزوں کی دریافت و ایجاد انسان کی ضروریات بنتی چلی گئیں۔

اسی طرح انسان اشیاء کو وُجود بخشتا چلا گیا اور ضروریاتِ انسانی کو مزید فروغ دیتا چلا گیا۔ اشیاء کے سماجی تعامل و تبدل سے فعل تہذیب کا ہی مظاہرہ ہوا۔ اسی طرح چلتے چلتے انسانی تہذیب کو تقویت ملتی گئی۔

تہذیب انسانی نے سماج میں فروغ پایا۔ اکیلے فرد کی کوئی تہذیب نہ تھی۔ سماج ہی تہذیب کا مظہر ثابت ہوا اور تہذیب کو سماج میں فروغ حاصل ہوا۔ سماج و تہذیب لازم ملزوم ہیں۔ سماج نے تہذیب کو وجود دیا لیکن تہذیب نے سماج کو مضبوط کیا اور تاریخِ انسانی میں جو سماج تا دیر قائم و مضبوط رہے ان میں جہت دار انسانی تہذیب کا بہت عمل دخل رہا ہے۔

انسان کے مبادی اعمال، ثقافت کی ذیل میں آتے ہیں۔ تہذیب تو بہت بعد کی پیداوار ہے۔ انسان کائنات میں آتا ہے پہلے اسے ثقافت سے آشنا کرایا جاتا ہے یا وہ خود ہو جاتا ہے جب کہ تہذیب تو  سماجی ربط کا نام ہے اور سماجی ربط ایک بچہ کیا جانے کیا ہوتی ہے؟

دوسرا ثقافت کو انسان نے ابتداء سے ہی سر انجام دینا شروع کر دیا تھا اور اس کی تکمیل بَہ تدریج ہوتی رہی اور ثقافت کو ہر دور میں انسان اپنی معاصرانہ ضرورتوں اور تقاضوں کے تحت نئے سرے سے متشکل کرتا آیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے جب کہ تہذیب تو بہت آہستہ آہستہ پروان چڑھی ہے۔

ثقافت نے تہذیب کو کئی حوالوں سے وجود بخشا ہے اور جب ثقافت تبدیل ہوتی ہے تو ساتھ تہذیب میں بھی تبدیلی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ثقافت میں تغیّر پذیری کا عمل تیزی سے اور زیادہ پایا جاتا ہے جب کہ تہذیب میں کم اور آہستہ رَو ہے۔

ثقافت ایک خارجی عمل کا نام ہے جب کہ تہذیب باطنی محسوسات کا عمل ہے۔ انسان نے کائنات میں اپنی زندگی کی ابتداء خارج سے کی نہ کہ داخل سے۔ واضح رہے تسخیرِ کائنات کا سلسلہ داخل تک رسائی تھی اور تہذیب بھی انسانی فعل کی داخلی گہرائی و گیرائی کا اظہار ہے۔

شعور اور ثقافت و تہذیب کا تعلق بھی گہرا ہے۔ شعور، داخلی ہوتا ہے جب کہ یہ خارج سے وُجود پاتا ہے۔ اسی طرح ثقافت کا تعلق خارج سے ہے جب کہ یہ بھی اپنی جڑیں کہیں داخل میں رکھتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں داخلی و خارجی سطح پہ ثقافت و شعور کا تعلق الگ الگ جدلیاتی نوعیت کا بھی واضح ہے۔