کلچر کے خدوخال ، ڈاکٹر وزیر آغا
از، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
کلچروزیرآغا کا محبوب ترین موضوع ہے اور یہ موضوع تسلسل وتوانائی کے ساتھ ان کی عملی اور ذہنی و فکری زندگی کا محور و مرکزرہا ہے۔ مفہوم کی سطح پر دیکھیں تو کلچر میں ہل چلانے، بیج بونے اور فصل اُگانے کا استعارہ نظر آتا ہے۔ وزیر آغا کی زندگی اس استعارے کی بیّن مثال ہے، اس لیے کہ اگر انہوں نے ہل چلایا تو صرف زمین ہی میں نہیں، انفرادی و اجتماعی ذہن میں ہل چلایا، اگر بیج بویا تو صرف اجناس ہی کا نہیں، تصورات کابیج بویا اور اگر فصل اُگائی تو اناج ہی کی نہیں، تخلیقی کردار و افکار کی فصل اُگائی۔ وزیر آغا کو اس عہد کا کلچرل وجود کہا جائے تو کچھ بے جا نہ ہو گا۔
وزیر آغا نے اپنی تحریروں میں غالباً سب سے پہلے ’’فیض، انجماد کی ایک مثال‘‘ میں شاعری کی نُمو کے حوالے سے کلچر کے موضوع کو مس کیا تھا۔ ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘میں یہ موضوع کھل کر اور جم کر سامنے آیا۔ چونکہ ادب کو کلچر کا ایک بڑا مظہر مانا جاتا ہے۔ اس لیے انہوں نے گیت، غزل اور نظم کی اصناف میں مزاج کے اعتبار سے ہندوستانی کلچر کی ارتقائی کروٹوں کو نشان زد کیا اور شاعری کے پیٹرن میں کلچر کے پیٹرن کا مطالعہ کیا۔ بعد ازاں اس تناظر میں انہوں نے اردو زبان کے تہذیبی پس منظر اور دوہے کے کلچر پر الگ سے روشنی ڈالی۔اس سارے مطالعے کے توسط سے کلچر کے مفہوم اور تہذیب و تمدن کی حدود کا تعین بھی ممکن ہوااورسب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی تنقید کو ایک ثقافتی وارضی تناظر نصیب ہو ا۔جہاں تک اصطلاحوں کا معاملہ ہے ‘ہمارے ہاں کلچر، تہذیب اور تمدن کی اصطلاحوں کو گڈمڈ کر دیا گیا ہے۔ بعض دانشوروں نے کلچر کو تہذیب و ثقافت کا اور بعض نے اسے تہذیب و تمدن کا مجموعہ سمجھا۔تہذیب اور تمدن کے بیچ رشتے کی نوعیت کو مادی اور روحانی پہلوؤں سے جوڑ کر دیکھاگیا۔ کلچر اور تہذیب کو ایک دوسرے کامترادف قرار دینے کی روش تو بہت عام رہی۔ وزیر آغا نے کلچر کو ثقافت ، سو الائزیشن کو تہذیب اور اربن کلچر کو تمدن کے معنوں میں استعمال کیا اور ان اصطلاحوں کے مابہ الامتیاز کو ابھار کر سارا الجھاوہ دور کر دیا۔ ان کی فکرانسانی مطالعے اور کلچر کے سائنسی نظریے سے پوری طرح مربوط ہے۔
کلچر کی ایک بحث وزیر آغانے ’’تصوراتِ عشق و خرد، اقبال کی نظر میں‘‘ میں اٹھائی اور کلاسیکی ، مجوسی اور مغربی کلچر کا تجزیہ کر کے اس مستقل خلیج کو باطل ثابت کر دیا جو شپنگلر نے مجوسی اور مغربی کلچر کے مابین قائم کی ہوئی تھی۔ شپنگلر نے مجوسی کلچر کو مشرقِ وسطیٰ کے مذاہب یعنی یہودیت ، عیسائیت، زرتشت اور اسلام کو مشترکہ کلچر کہا تھا مگر ایک تو اس نے اس کلچر کی اصل روح کو پیش نہیں کیا تھا جس کے تحت ارض و سما ایک تخلیقی رشتے میں گندھے ہوئے تھے۔ دوسرے اس نے اسلامی کلچر کو بھی نشان زد نہیں کیا تھا جو فکری جہات کی مماثلت کے باعث مجوسی کلچر سے جُڑا ہوا تھا مگر رسوم و ظواہر کے فرق کی بنا پر مجوسی کلچر سے الگ بھی تھا۔وزیر آغا کے نزدیک علامہ اقبال کی عطا یہ ہے کہ انہوں نے یہ دونوں کام انجام دیے اور مغربی کلچر میں جس حرکت و جہت کا اظہار ہوا تھا، اسے اسلامی کلچر کی توسیع قرار دیا۔
وزیر آغا نے اپنے مختلف مضامین میں پاکستانی کلچر پر بھی اظہار خیال کیا اور اس مفروضے کو ردّ کیا کہ پاکستانی کلچر اپنے پورے خدوخال کے ساتھ متشکل ہو گیا ہے اور یہ کہ اسے ہیٹ میں سے خرگوش کی طرح نکال کر دکھایا جا سکتا ہے۔ فیض احمد فیضؔ ، جمیل جالبی،کرار حسین حتیٰ کہ انتظار حسین نے اپنے اپنے ذہنی تحفظات کی بنا پر اس بحث میں کوئی نہ کوئی ٹھوکر ضرور کھائی ہے اور الجھاؤ پیدا کیا ہے۔ وزیر آغا کایہ کہنا کہ بعض اوقات سیاسی حد‘جغرافیائی حد سے زیادہ طاقتور ثابت ہوتی ہے،بہت اہم نکتہ ہے۔ ہر چند کہ انہوں نے اس بات کو مسئلہ نہیں بنایا کہ اقتصاد اور سیاست کی وضع کردہ قوت اور کلچر کی تخلیقی قوت کس طرح ایک دوسری کو قطع کر کے گزر جاتی ہیں لیکن پاکستانی کلچر کے بارے میں ان کا تجزیہ بالعموم افراط و تفریط سے بلند رہا ہے۔ ان کا مؤقف یہ ہے کہ ابھی پاکستانی کلچر کٹھالی میں پڑا ہے اور تشکیل کے مرحلے سے گزر رہاہے،البتہ وہ ابھی سے شگفتن گل کا منظر دکھا رہا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ملکی کلچر اور انسانی کلچر کے ساختیے کو سامنے رکھا ہے اور جغرافیائی حدود کے تناظر میں سماجی زندگی کے فعال اور منفعل عناصر، طبائع، عقائد اور آب و ہوا کا تجزیہ کر کے پاکستان کلچر کے چند ایک ابھرتے ہوئے ہیولائی نقوش کو نشان زد کیا ہے۔ خصوصاً پاکستان کی کلی ثقافت میں علاقائی ثقافتوں کے اہم اجزا کے اختلاط و انجذاب کو فطرت یعنی Nature سے دوبارہ جُڑنے کا عمل قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک دماغ کے ساختیے اور کلچر کے ساختیے میں اصل کھیل نشوونما کاہوتا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے کلچر اور نیچر کی آویزش اور انسلاک کے اس انداز کو اہمیت دی ہے جو اصلاً انسانی دماغ کے ’’پلس مائنس سٹرکچر‘‘ کے مطابق عمل پذیر ہوتا ہے۔ یہی سٹرکچر ادب میں بھی کارفرما ہوتا ہے اور جمہوریت میں بھی۔ یہی سٹرکچر کلچر کے معاملے میں زمین و آسمان کے اتصال یا خاک و افلاک کے امتزاج کا نظارہ پیش کرتاہے۔ وزیر آغا کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ کلچر میں تشکیل پذیری کا عمل جاری رہتا ہے اور اصولِ حرکت سے فروغ پاتاہے۔ آفاقی عناصر کی بوقلمونی کے بغیر اس میں گہرائی اور کشادگی پیدا نہیں ہو سکتی۔ وزیر آغا جنہیں آفاقی عناصر کہتے ہیں انہیں آرنلڈ ٹائن بی نے آسمانی شراروں کا نام دیا تھا۔ وزیر آغا اِن شراروں یا کلچر کی خلاقانہ سطحوں کو پوری طرح سمجھتے ہیں مگر وہ یہ بات بھی جانتے ہیں کہ کوئی چیز ہَوا میں معلق ہو کر پروان نہیں چڑھ سکتی۔ ان کے نزدیک کلچر کی بقا اس میں ہے کہ اس کے پاؤں زمین سے چمٹے رہیں اور وہ اس سے غذا حاصل کرتا رہے۔
کلچر کے موضوع پر اس کتاب میں شامل مضامین کسی تالیفی منصوبے کے تحت دوچار برسوں میں نہیں لکھے گئے۔ دراصل یہ مضامین وزیر آغا کی پچاس ساٹھ برسوں کی عملی اور ذہنی وفکری زندگی کا نچوڑ ہیں اور اس طویل دورانیے کے مختلف وقفوں میں قلمبند کیے گئے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان مضامین میں کہیں بھی کوئی تضاد نہیں، وجہ یہ ہے کہ ان مضامین کے خالق کو اپنے آغازِ فکر ہی میں کلچر کے پیٹرن سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور چونکہ کلچر کے پیٹرن میں کائناتی اور تخلیقی عمل کا پیٹرن بھی موجود ہوتا ہے، اس لیے انہیں ایک درست بنیاد فراہم ہو گئی تھی۔ ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ کا تو سارا تھیسس ہی کلچر اساس ہے، اسی طرح ’’آشوب آگہی‘‘ کے مضامین میں وہبی سو چ اور منطقی سوچ کے اتصال کی کہانی بیان ہوئی تھی اور یہ کہانی مذہب الارواح ، جادو اور اساطیر کے ادوار سے ہوتی ہوئی کلچر تک پہنچی تھی۔ بیچ میں کلچر ہیرو کا احوال اس سارے مطالعے کو مربوط کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کے مضامین آپ کو ایک لڑی میں آراستہ دکھائی دیں گے۔
(کلچر کے خدو خال از وزیر آغا، مجلس ترقی ادب، ۲۔ کلب روڈ،لاہور مئی ۲۰۰۹ءٌ)