ترقی پسند اور روشن خیال احتجاج کے موجودہ بیانیے سے وابستہ توقعات
مبارک حیدر
کیا پاکستان کی سیاسی صورت حال اتنی سادہ ہے جتنی کچھ تبصروں اور تجزیوں میں دکھائی دیتی ہے؟ فوج کے کردار پر پاؤں پٹخنے اور لال پیلا ہونے والوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ بعض اوقات اس احتجاج کی صداقت پر شک ہونے لگتا ہے۔ اگر میاں نواز شریف کے حامیوں کا یہ تجزیہ درست ہے کہ انھیں فوج نے نکالا ہے اور پاکستانی عوام میاں صاحب کے ساتھ ہیں تو پھر کوئی عوامی احتجاج کیوں دکھائی نہیں دیتا۔ اگر سیاسی جماعتوں نے مل کر میاں صاحب کو نکالا ہے تو کیا عوام کا لا تعلق ہونا فطری نہیں؟ کیا ایسا تو نہیں کہ جمہوریت کے دعویداروں نے بار بار ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر قیمتی وقت گنوا دیا ہے۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پر ہمارے چند شیردل دوست جی ایچ کیو اور اس کے اداروں پر اتنے تند و تیز تبصرے کر رہے ہیں کہ ہم جو ملک سے باہر بیٹھے ہیں ان کی بہادری پر رشک کرنے لگتے ہیں۔ اور یوں لگنے لگتا ہے کہ جرنیل صاحبان کا خاتمہ قریب آن پہنچا۔ ہمارے ایک سائنسدان نے پچھلے دو عشروں سے مذہبی تشدد اور فوج کے خلاف بہت کام کیا ہے، دوسری طرف انسانی حقوق کی علمبردار ایک خاتون نے فوج اور طالبان کی اتنی پٹائی کی ہے کہ اس کا عشر عشیر بھی بینظیر بھٹو نے نہیں کیا تھا۔ لیکن قوم کی خوش نصیبی ہے کہ ہمارے یہ رہنما ایجنسیوں اور طالبان کے ہاتھوں سے مکمل محفوظ رہے ہیں۔
اسی طرح گرچہ تند و تیز لکھنے والے دوستوں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے اور ان میں سے دو تین تو اونچے سرکاری عہدوں پر بھی فائز ہیں اور کھل کر بھارت دوستی کا پرچار کرتے ہیں۔ لیکن فوج کی کسی بھی ایجنسی نے انھیں کبھی ہراساں نہیں کیا۔ جبکہ ابھی کچھ ہفتے پہلے انسانی حقوق کی بات کرنے والے کئی افراد کو صرف احتجاج کرنے پر اٹھا لیا گیا تھا۔
طاقتور مراکز کے اس غیر معمولی رویہ کی دو ہی وجوہات نظر آتی ہیں: یا تو ہمارا یہ تند و تیز احتجاج انہیں غیر موثر اور مہمل لگتا ہے اور وہ ہمیں ہاتھ لگا کر ہماری اہمیت بڑھانا نہیں چاہتے یا پھر وہ اندر ہی اندر کچھ دانشوروں سے عقیدت رکھتے ہیں۔
بہر حال یہ حقیقت صاف نظر آ رہی ہے کہ احتجاج کے موجودہ بیانیے سے وہ تبدیلی پیدا نہیں ہو رہی جس کے ہم دعویدار ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم اپنی جس کارروائی کو فکری کام سمجھ رہے ہیں وہ در اصل محض خود لذتی ہے جو ہم پانچ دس لوگ ایک دوسرے کو دکھا دکھا کر کرتے ہیں اور نئی نسلیں پیدا ہونے کی امید کرتے ہیں۔
شاید ہمیں اپنے انداز پر نظر ثانی اور خود تنقیدی کی ضرورت ہے۔ شاید ہمارے استدلال میں اس دانائی اور رواداری کی کمی ہے جس کا ہم دوسروں سے مطالبہ کرتے کرتے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ جیسے مکمل سچائی صرف ہمارے گھر اگتی ہے۔