سیرل المیڈا کا وہ ناقابل فراموش ہفتہ
(سیرل المیڈا)
میرے ڈان اخبار میں ان صفحات کے نگران سینئرز نے آج مجھے کہا ہے کہ میں اپنے بارے ایک مضمون لکھوں۔ مجھے کہا گیا ہے میں اپنے گزرے پچھلے ہفتے کے متعلق کچھ لکھوں۔ یقین مانئےمیرے سینئرز نے مجھے ایسا مضمون لکھنے کا کہا ہے۔
اور جناب پھر سے واضح کروں کہ یہ صرف فرمائش پر لکھ رہا ہوں؛ میرا مطلب ہےمیرے گذشتہ ہفتے کے متعلق لکھنے پر کوئی ایسی پابندی تو کسی طور پر نہیں، پر سردست اس لئے لکھنے کا کہا گیا کہ بقول میرے سینئرز کے میری طرف سے اپنا نقطئہ نظر سامنے لاتی کسی تحریر میں قارئین کے لئے بڑی دلچسپی کا سامان ہوسکتا ہے۔
اب انہوں جب کہا ہے تو یہ بندہ نا نہیں کہہ سکا۔
اچھا تو چلئے سنیں پھر… جب خبر اس جمعرات کی صبح ہم تک پہنچی تو یوں سمجھئے کہ یہ طے ہی تھا کہ اس خبر کے کسی حصے کی، نا تو میں اور نا ہی ڈان اخبار، ترید کرے گا اور نا ہی کسے حصے کو واپس لے گا۔
اور بعد میں اس خبر پر جو رد عمل سامنے آیا اس میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو توقع کے برخلاف تھا؛ میں اور میرے ادارے نے متوقع رد عمل کے کسی بھی پہلو کی کسی بھی صورت کو خبر کے چھپنے کے عین موقع پر کسی اتفاقی واقعہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا تھا۔
اس اہم ترین میٹنگ کے ہونے کے چند ہی لمحوں بعد خبر ہم تک پہنچ گئی تھی۔ لیکن اسے شائع ہم جمعرات سے پہلے نا کر سکے۔ تو اس وقفے کے درمیانی وقت میں ہم نے کیا کیا؟ یہ وقفہ اس خبر کی متعدد ذرائع سے تصدیق در تصدیق، اور سرکاری ذرائع کے تبصرے کے حصول میں گزرا۔
اس سارے ڈرامائی مرحلے میں کسی چھوٹی سی بات کو بھی کسی بھی اتفاقی واقعہ کے ںذر نہیں ہونے دیا گیا تھا۔
،میرے لئے، اور میرے اخبار کے لئے بھی صرف اور صرف دو سوال ایسے تھے جو انتہائی اہم تھے: اول یہ کہ آیا وہ والی میٹنگ واقعتا ہوئی بھی تھی کہ نہیں؛ دوئم، کیا میں مختلف ذرائع سے اس منعقدہ میٹنگ میں ہونے والی باتوں کی تصدیق کرنے کے قابل ہوں کہ نہیں؟
جی آپ درست اندازہ کر رہے ہیں… دل کی دھڑکن بہت تیز ہو جاتی ہے، خاص کر ان وقتوں میں جب آپ عام اور روزمرہ کے کام سے کچھ مختلف انداز سے کام کرنے لگتے ہیں۔ جی بالکل، اپنی ذات اور جان کی فکر بھی یقینی طور پر لاحق ہوتی ہے۔
اس بپتا کا دوسرا حصہ جتنا سیدھا بظاہر دکھائی دیتا ہے اس سے زیادہ پیچدار ہے؛ لیکن بہر صورت یہ اس قدر مشکل بھی نہیں ہوتا جتنا اس کے مشکل ہونے کا گمان باور کرا دیا جاتا ہے۔ بس آپ کسی بھی جگہ اور موقع و محل سے ثابت قدمی سے جڑے رہیے۔ آپ کو اس موقع و محل کے چال چلن، اس کے کام کرنے کا طریقہ کار اور عمومی برتاوے کا اندازہ ہونا شروع ہوجائے گا؛ یہ عمل اکہرا نہیں ہوتا بلکہ دونوں طرف سے ہوتا ہے۔ اس موقع و محل سے جڑے لوگ بھی آپ کا اندازہ لگا لیں گے۔
آپ کو اپنے اس موقع و محل کے مختلف گروہوں کا حساب اور اندازہ لگنا شروع ہوجائے گا؛ آپ جان جائیں گے کہ وہاں کون کون سی تقسیمیں اور اختلافی ٹولیاں موجود ہیں۔ آپ کو یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ کون کس مال کا بیوپار کرنا چاہتا ہے؛ کون کیا چھپانا چاہتا ہے اور کیا اچھالنا چاہتا ہے۔ اس میں کوئی خاص تفریق نہیں، سویلین بھی ایسے ہی ہوتے ہیں اور ملٹری والوں کا خمیر بھی اسی خاک سےہی تو اٹھا ہے۔
اس طرح کی میٹنگ اور اس سے جڑی کسی خبر کے سراغ میں آپ آس پاس تاکا جھانکی کرتے ہیں۔ اس تاکا جھانکی میں آپ کے ہاتھ مختلف گروہوں کی چھلنیوں سے گزرتے گزرتے کچھ ایسے مختلف ذرائع سے ملنے والے مشترک حقائق لگ جاتے ہیں جن کے بظاہر مشترک ہونے کی کوئی منطق نہیں ہوتی۔
بعض اوقات تو نہایت اہم اقتباس اور حوالہ بھی تدوین کی بلی چڑھ جاتا ہے۔ لیکن یہ ڈان اخبار والے لوگ تدوین و ادارت کی جزویات پر گہری نظر رکھے ہوتے ہیں۔
تو جناب اس جمعرات کو ہماری گود میں جو آن گرا، میں اور میرا اخبار ڈان اس کے ضمنی اثرات کے متعلق پہلے ہی ذہنی طور پر تیار تھے۔
مطلب یہ کہ نا تو میں اور نا ہی میرا اخبار اس خبر کے کسی جزو کی تردید و استرداد کرے گا۔
البتہ میری جانب سے احوال و رد عمل کا اندازہ قائم کرنے میں تھوڑی سی کمی رہ گئی تھی۔ جب میں اس خبر کا متن تحریر کر رہا تھا تو یہ بات میرے شعور میں بالکل واضح تھی کہ خبروں کے گھن چکر میں، یہ بندہ ایک گرینیڈ پھینکنے جیسا کام کرنے لگا ہے؛ لیکن کچھ حیرانی ہوئی کہ یہ گرینیڈ تو جیسے سرجیکل سٹرائیک کا روپ دھار گیا ہو؛ نا صرف سرجیکل سٹرائیک بلکہ یہ تو کوئی نیوکلیئر حملہ بن کے سامنے آیا۔
ہممم، تو کیا ایسا کرنے پر مجھے کوئی افسوس ہے؟
نہیں، بالکل بھی نہیں؛ ایک رتی برابر بھی نہیں۔ میں نے اس ڈان اخبار میں دو مدیروں کے زیر سایہ کام کیا ہے؛ ان دونوں سے میں نے اپنے ملک کے خصوصی حالات کے تناظر میں خبروں اور تجزیات کے متعلق ایک بنیادی نوعیت کی چیز سیکھی ہے۔
عباس ناصر ان دونوں مدیروں میں سے یوں کہیے زیادہ بڑے خطروں کے کھلاڑی ہیں؛ ایک تو انہوں مجھے نوکری دے کر اپنی اس فطرت کا ثبوت دیا اور ساتھ ہی میرے اندر موجود جرات کو ابھارا۔ عباس ناصر نے ہی مجھے یہ باور کرایا کہ بھلے جو کام بھی کرنے لگو، یہ ذہن میں رکھنا کہ تم یہیں رہو گے، البتہ “وہ” جو کوئی بھی ہے ایک نہ ایک دن چلا جائے گا!
کتنے سارے وزیراعظم، چیف جسٹس، صدر اور آرمی چیف ایسے ہی جاتے دکھائی دیئے۔ عباس ناصر درست ثابت ہوئے۔
ہاں، دل کی دھڑکن معمول سے تیز ہوجاتی ہے۔ ایسا ہونا سادی اور بدیہی سی بات ہے۔ آپ آخر ایک غیر معمولی کام جو کرنے لگتے ہیں؛ جی بالکل، آپ کو اپنی ذات و سلامتی کے بارے بھی کچھ فکر لاحق ہوتی ہے؛ بندہ جس زمان و مکان کا باسی ہے، وہاں یہ فکر اگر نا ہو تو صرف بے وقوف ہی کہلا سکتا ہے۔
لیکن اگر آپ کو اس بات کا پختہ یقین ہو کہ اس نوکری والے عارضی ہیں؛ وہ چلے جائیں گے اور آپ یہیں کہیں موجود رہیں گے تو پل بھر میں جرات واپس عود آتی ہے۔
موجودہ ڈان کے مدیر نے (جس کی وہ اپنی ذات میں مثال بھی ہیں) رپورٹروں کو ایک بات باور کرادی ہوئی ہے؛ وہ یہ ہے کہ کوئی رپورٹر اپنے ذرائع کی کیفیت اور وزن کے ترازو پر ہی تلتا ہے۔
ہمارے جیسے ملک میں یہ ایک دو طرفہ گلی والا معاملہ ہے۔ اگر آپ اپنے ذرائع کی شناخت کا بھید نا کھولیں، تو آپ کے پاس اچھی خاصی معلومات کی رسائی آ جاتی ہے۔
آپ کے ذرائع غیر جانب دار نہیں ہیں؟ ہممم، کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ توقع رکھئے کہ آپ کو ملنے والی خبر کے گرد آپ کے ذرائع کے ذاتی تعصبات اور میلانات ہونگے؛ ان میلانات اور تعصبات کو حقائق سے پوری طرح چھاننا پھٹکنا ہمیشہ ممکن نہیں بھی رہتا؛ لیکن اس عارضے کا ایک طرح کا علاج بھی تو موجود ہے۔ آپ کو کچھ زیادہ کام کرنا پڑے گا۔ آپ کو زیادہ لوگوں سے روابط رکھنا پڑیں گے؛ ان روابط سے تصدیق کے قابل اور مختلف زاویاتی سچائی بہ وقت ضرورت سامنے آ ہی جاتی ہے۔
وہ اہم اور حقائق و امکانات سے لدا دن بھی اس ضرورت کا تقاضا کر رہا تھا۔
لیکن اکثر ایسے ہوجاتا ہے کہ بہترین منصوبہ بندی کا شاہکار کام بھی اتنے ہی بڑے تناسب سے اتھل پتھل کا شکار ہوتے ہیں۔ پیر کے دن تک مجھے یہ خدشہ لاحق ہوگیا کہ میری یہ خبر وقت کے جھکڑ کے سامنے اڑ جانے والی ہے اور خبروں کا نیا چکر گھومنے والا ہے۔
تو پھر ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں میرا نام ڈالنے کا مرحلہ آن پہنچا۔ اس موقع پر ذات کا تحفظ اور آزادی کے دفاع کے لئے ایک طرح کے خطرے کی گھنٹی بج چکی تھی۔ میرا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالے جانے سے پہلے پہلے تک میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا بھی کیا جائے گا۔
جب کچھ عادات و معمول اور توقعات سے ہٹ کر ہوجاتا ہے تو پرانے اصول ہوا ہو جاتے ہیں؛ اور یہ وہ موقع ہوتا ہے جہاں ایک حقیقی خطرے کی سر زمین شروع ہو جاتی ہے: اس وقت آپ کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ نیا کھیل کون سا ہے اور اس کے اصول و ضوابط کیا ہیں۔
میرا خیال ہے کہ دو چیزوں نے مجھے بچا لیا اور جلد ہی محفوظ جگہ پر پہنچا دیا۔ باہر کی چیزوں اور اور معاملات کی ہمہ گیر کوریج کے ساتھ ساتھ یہاں کا نظام مقامی خدشات و معاملہ کی طرف بھی فوری دھیان دیتا ہے۔ فوری طور پر ڈان اخبار متحرک ہوگیا اور پر زور انداز سے مصروف کار ہوگیا۔
اور دوسری بات، دیگر وسیع تر میڈیا ذرائع جو اگرچہ حالیہ سالوں میں آپس کی کئی تقسیموں کا شکار ہیں، متحد ہو کر سامنے آئے؛ ایسا شاید اپنے پیشے کے تحفظ کی خاطر زیادہ کیا گیا ہو، بہ نسبت اس کے کہ انہیں ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں میرا نام ڈلنے سے واقعتا کوئی شدید رنج ہوا ہوگا۔
میرے ادارے اور میرے ہم پیشہ لوگوں کو میرا مخلصانہ سلام و تشکر ارسال ہو۔
اچھا، تو اب آگے کے وقت کی بابت کیا ہو؟
ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام نکلنے پر کچھ تسلی ہوئی۔ لیکن وہ انکوائری جو اس معاملے کے متعلق ہونا ہے اس کے تناظر میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملے کا ابھی تصفیہ توکسی طور نہیں ہوا۔ ذاتی طور پر تو میں چاہوں گا کہ یہ معاملہ حتی الوسع اور امکانی طور پر جلد از جلد حل ہو۔
کسی کا خود خبر بن جانا شدید کوفت کا احساس ہوتا ہے۔
کیونکہ یہ آپ کو تابکار مادے جیسا بنا دیتا ہے؛ اور جتنے لمبے دورانیے تک میں خود ایک خبر بنے رہنے کی کیفیت میں ہوں یہ میرے پیشہ ورانہ مستقبل کے لئے مسائل پیدا کرتا جائے گا؛ یہ ایسے مسائل کا پیش خیمہ ہوگا کہ مختلف موقعوں پر میرے لئے حقائق میں سے تعصبات کی ملاوٹ اور کھوٹ نکالنا مشکل ہوجائے گا۔
ایک خاص ذہنی جھکاؤ رکھنے والے کے طور پر میری پہچان بن جائے گی: میرے بارے میں اندازے لگائے جانے لگیں گے کہ میں کس چیز کے خلاف ہوں اور کس چیز کی طرف پسندیدگی والا معاملہ رکھتا ہوں؛ کہنےکا مطلب یہ ہے کہ مجھ تک کچھ خاص طرح کی ملاوٹی اور کھوٹ سے بھرپور اطلاعات پہنچیں گی؛ سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ ملاوٹ کے بغیر حقائق تک میری رسائی ناممکن ہوتی جائے گی۔ بہت نقصان کی بات ہوگی۔
اور شاید اس لئے بھی اس نزاع کے شکار معاملے (یعنی ڈان لیکس) کے جلد تصفیے کا خواہش مند ہوں کہ میرے اخبار کے ان صفحات کے ذمہ داران میرے سینئرز مجھے پھر سے اپنے بارے لکھنے کو نا کہہ دیں۔
اگلے ہفتے سے معمول کا کام شروع کردوں گا۔ میرا وعدہ!
ڈان اخبار میں 16 اکتوبر 2016 کو انگریزی زبان میں شائع ہوا۔ ترجمہ ایک روزن
2 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.