داعش کا انہدام
از، حسین جاوید افروز
دنیا کی تاریخ میں ظلم و ستم اور بربریت کی جب بھی بات ہو، تو ہمارے اذہان خود بخود ہلاکو خان، ہنی بال، چنگیز خان اور سکندر اعظم کی بربریت کی جانب چلے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی سلطنتوں کی توسیع کے لیے سرو ں کے مینار بنائے ۔ لاکھوں انسانوں کو قتل اور ان گنت شہروں اور بستیوں کو تاراج کیا ۔اسی طرح دو نوں عالمی جنگوں کا ہی جائزہ لیں تو محض ٗ غلبے کی بے لگام خواہشات نے پانچ کروڑ سے زائد انسانوں کی جانیں لے لیں ۔ لیکن صرف جنگوں تک ہی کیوں محدود رہا جائے؟ جب بھی دنیا کی تاریخ میں انقلابات کی چاپ سنائی دی تو اس کے پس منظر اور اثرات میں بھی لاکھوں بے گناہ انسانوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا۔
فرانسیسی انقلاب سے روس کے کمیونسٹ انقلاب ، اور کمیونسٹ انقلاب سے چینی انقلاب کے اثرات کا جائزہ لیں تو انقلاب کے ثمرات سے زیادہ ہمیں خون کی بدیاں بکثرت مل جاتی ہیں ۔صد افسوس دنیا آج ا کیسویں صدی میں بھی ایسے ہی خون آشام عفریت کے شکنجے میں جکڑی رہی ہے جس نے انسانیت کو تار تار کر دیا ۔آج بھی انسان جدید زمانے کے تمام تر ثمرات سمیٹنے کے باوجود اس ڈیجیٹل عہد میں بھی زمانہ قدیم کے دور کی سفاکیوں کو بھی دھند لا رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ انسان نے مادی ترقی تو ضرور حاصل کی مگر آج بھی اس کو ظلم و ستم ،جبر اور موت کا ننگا ناچ دکھانے کے لیے محض ایک چنگاری ہی کافی ہے ۔کیونکہ جس طرح پچھلے چھ برس میں عراق اور شام میں ایک بنیاد پرست سوچ رکھنے والے خون آشام گروہ داعش نے انسانیت کو رسوا کیا اور انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی وہ انسایت کے منہ پر ایک بھرپور طمانچے سے کم نہیں ۔جی ہاں داعش
جو 2003 میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد القاعدہ عراق کے بطن سے پیدا ہوئی اور صدام کے بعد ایک منقسم عراقی سماج میں فرقہ ورانہ تفریق ،وسائل کی ناجائز تقسیم اور صدام دور کی بعثت پارٹی کے اراکین کے ساتھ ناروا سلوک کی بدولت تیزی سے جڑ پکڑ گئی ۔صدام دور کے خاتمے اور 2011 کے نام نہاد عرب بہار انقلاب کے اثرات نے سارے مشرق وسطیٰ کو تعصب ،نفرت اور فرقہ ورایت کے شعلوں سے سلگا کر رکھ دیا ۔داعش کی فکری ابتداء القاعدہ کے پلیٹ فارم سے شروع ہوئی جب نیم خواندہ مگر بنیاد پرست سوچ کے حامل نوجوانوں نے جو شر یعت کی انتہاپسندی سے تشریح کے داعی تھے عراق کے غیر سیاسی یقینی حالات میں جمع ہوئے۔ ان کے ارادوں کو اس وقت مہمیز ملی جب عراقی بعثت پارٹی کے ایک لاکھ سے زائد افراد کو اہم عہدوں سے برخاست کردیا گیا ۔یوں ان ناراض اراکین ،سنی ٹیکنو کریٹس اور سابق عراقی فوجیوں نے مل کر داعش کی بنیادیں رکھ دیں اور اس کے لیے خلافت کے قیام کو اپنا مقصد بنا لیا ۔یہ لوگ عراق کے سیاسی جغرافیائی اور حربی حالات سے باخبر تھے۔ اور ان کو سنی اکثریتی علاقوں سے سیاسی ،عسکری اور مالی حمایت بھی میسر آ گئی ۔ جبکہ مالکی دور میں بھی اس کی زہر آلود فرقہ ورانہ پالیسیوں سے فرقہ ورانہ تقسیم کے گھاؤ اور بھی گہرے ہو گئے۔
مالکی نے عراقی سنی علاقوں میں بجلی اور دوسری سہولیات کے فقدان پر بھی توجہ نہیں دی جس سے سنی آبادی مزید متنفر ہوگئی ۔اس خلیج نے داعش کو عراق میں اپنی سرگرمیوں کے لیے ایک سازگار موحول تراش دیا ۔اس کے سلیپر سیل اور نیٹ ورک نے تیزی سے جڑ پکڑ لی ۔ دوسری جانب داعش نے شام میں بھی مارچ 2011 سے بشار الاسد کے خلاف جاری شورش سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ داعش نے شروع میں جبات النصرہ سے ملکر اسد حکومت کے خلاف محاذ کھول دیا ۔النصرہ کو پچاس فیصد فنڈنگ داعش سے ملتی رہی۔ مگر بعد ازاں داعش نے القاعدہ سے راستے جدا کر لیے ۔ تاہم النصرہ نے داعش کی سرپرستی سے انکار کیا یوں دونوں میں آپسی چقلپش شروع ہوگئی۔
لیکن جلد ہی داعش نے شام میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ۔اور شام و عراق سے ملحقہ علاقوں بشمول اہم تیل کی فیلڈز پر قبضہ جمایا ۔جبکہ رقہ کا اہم شہر جنوری 2014 میں اس کے قبضے میں چلا گیا اور بعد ازاں جون 2014 میں خلافت کا اعلان بھی کردیا گیا ۔ اس طرح داعش نے عراق اور شام کے درمیان سرحد کو عملاٰ ختم کردیا ۔ جولائی 2014 میں شامی مشرقی صوبے دیرالزور پرقبضے کیا گیا ۔ جس کی بدولت تیل کی اہم سپلائی لائنوں پر تسلط نے داعش کی آمدنی کو روز افزوں کردیا ۔علاوہ ازیں اغواء برائے تاوان ،اہم نودارات کی چوری اور فروخت ،ٹیکس کا نفاذ ، جرمانے ،عطیات ،لوٹ مار اورتیل سمگلنگ سے بھی داعش نے خود کو معاشی طور پر مستحکم کرلیا ۔داعش کے خلیفہ ابو بکر البغدادی نے واضح اعلان کیا کہ ہماری خلافت کے قیام کے ساتھ تمام ریاستوں کی حیثیت ختم ہوتی ہے اور عوام کا فرض ہے کہ میری اطاعت کریں اور دولت اسلامیہ کی اطاعت کریں جو اب اپنی وسعتوں میں تیزی سے اضافہ کرتی ہی جائیگی۔
یوں داعش بیک وقت جہاں مالکی ،بشار الاسد حکومت کے لیے چیلنج بن کر ابھری وہاں اس نے امریکہ سعودیہ اور دیگر عرب ریاستوں کے بھی کان کھڑے کیے کہ بشار الاسد کم ازکم اس داعش سے بڑا فتنہ ہرگز نہیں ۔اس عفریت کو اولین بنیادوں پر کچلنا ہی خطے کو دائمی انارکی کے شعلوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔جبکہ دوسری طرف فری سیرین آرمی ،النصرہ اور شامی کردوں سے نڈھال بشار الاسد جس کے پاس محض ایک تہائی شام رہ گیا تھا ، کو بھی روس ،ایران اور حز ب اللہ کی چھتری میسر آ گئی ۔اور یوں بشار الاسد اور شامی افواج کو اس تازہ کمک سے نئی توانائی ملی اور ان تمام متحارب حریفوں کا مشترکہ دشمن داعش قرار پائی۔
دوسری جانب داعش نے عراق میں اگست 2014 میں سنجار میں یزیدی فرقے پر بدترین مظالم کا آغاز کیا ۔کئی یزیدی عورتوں کی عزت تار تار کی گئی ۔جبکہ موصل شہر بھی داعش کے قبضے میں چلا گیا یوں لاکھوں کی آبادی داعش کے ہاتھوں یر غمال بنی رہی ۔ اس کے ساتھ رقہ کے نیام چوک کو بھی داعش نے دہشت کی علامت بنا دیا جہاں محض میوزک سننے ،سگریٹ پینے پر سر قلم کیے جاتے ۔مخالفین کو سر عام نذر آتش کیا جاتا اور یہ ا ذیت ناک ویڈیوز سوشل میڈیا پر ڈال دی جاتی ۔جبکہ ستمبر 2014 میں شام کے تاریخی پالمیرا شہر کو بھی داعش نے قبضے میں لیا اور اس کی شاندار تاریخی ورثے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
اسی طرح عراق میں بھی داعش نے کئی گرجوں ،انبیا ء کرام کے مزارات ،تاریخی ورثے کی حامل عمارات، عجائب گھروں کو منہدم کیا ۔کیونکہ ان وحشیوں کے نزدیک تاریخ انسانی کی یہ عظیم علامات شرک کا سبب تھی ۔تاہم حیدر العبادی کے عراق کی باگ دوڑ سنبھالنے کے بعد عراق میں بھی تبدیلی رونماء ہوئی اور پہلی بار عراقی کرد پشمیگرا،عراقی افواج، ایرانی ملیشاؤں کی اعانت اور مغربی ممالک کی فضائی مدد کے سہارے داعش کو کئی محاذوں پر پسپا کرنے لگی ۔2016 میں عراقی فورسز نے رمادی شہر داعش سے چھین لیا ۔یہ داعش کا مضبوط گڑھ رہا۔جبکہ سترہ اکتوبر کو موصل کے لیے عراقی فورسز اور داعش میں فیصلہ کن جنگ شروع ہوگئی ۔جبکہ چھبیس نومبر کو عراقی پارلیمنٹ نے شعیہ جنگجوؤں کو پاپولر موبلائزیشن فورس کا درجہ دے کر ان کو قانونی کور فراہم کیا اور یوں داعش کے گرد گھیرا تنگ ہوگیا ۔دوسری جانب شام میں پانچ نومبر کو امریکی حمایت یافتہ شامی جمہوری فورسز نے بھی رقہ کے لیے محاذ کھول دیا۔جبکہ جنوری 2017 میں حیدر العبادی نے اعلان کیا کہ موصل کا مشرقی حصہ داعش کے چنگل سے آزاد کرایا گیا۔
لیکن ابھی بھی سات لاکھ افراد موصل کے مغربی حصے میں محصور تھے ۔ انیس فروری کوعراقی افواج نے مغربی موصل کی جانب پیش قدمی شروع کی ۔ جبکہ دوسری طرف شام میں بھی مارچ میں روسی مدد کے سہارے شامی افواج نے پالمیرا کا کنٹرول داعش سے چھین لیا ۔تاہم داعش کے مصائب اس وقت بڑھے جب اسی ماہ شامی جمہوری اور عرب جنگجوؤں نے امریکی مدد سے طابقہ کا شہر داعش سے چھین لیا ۔اب رقہ کے سوا داعش کے پاس مزید کوئی مرکزی شہر موجود نہیں رہا ۔جون 2017 میں موصل کی تاریخی نوری مسجد بھی تباہ ہوگئی جہاں ابوبکر البغدادی نے خلافت کا اعلان بہت طمطراق سے کیا تھا ۔آخر کار شدید لڑائی کے بعد دس جولائی کو موصل میں داعش کو فیصلہ کن شکست ہوگئی اور حیدر العبادی نے نو ماہ کی سخت جنگ کے بعد موصل میں کامل فتح کا اعلان کردیا۔
یوں عراق میں داعش کا تسلط اپنے انجام کو پہنچا ۔اب اس کے سامنے رقہ کا دفاع ز ندگی اور موت کا مسئلہ تھا ۔ آخر کار اکتوبر میں رقہ بھی داعش کے چنگل سے آزاد کرا لیا گیا ۔لیکن جاتے جاتے داعش نے اس شہر کو بارودی سرنگوں سے بھر دیا ۔اپنی دفاع کے لیے اس نے انسانی ڈھال کا شرمناک استعمال بھی کیا ۔سارا شہر کھنڈر بن چکا تھا ۔اس معرکہ میں ساڑھے تین ہزار لوگ لقمہ اجل بنے ۔یہی وہ شہر تھا جو داعش کے مضبوط مستقر کے طور پر جانا جاتا تھا جہاں پیرس اور بر سلزحملے کی پلاننگ بھی کی گئی ۔جہاں کا نیام چوک بربریت کی علامت بن چکا تھا۔ و ہی شہر اب شامی جمہوری فورسز کے استقبال میں مصروف تھا ۔ایک تہائی عراق اور ایک تہائی شام کا مالک ا لبغدادی تاحال لاپتا ہے ۔البتہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ وہ مارا جاچکا ہے ۔ چار ماہ کی دست بدست لڑائی کے بعد رقہ کی فتح جو داعش کے سقوط کا درجہ رکھتی ہے اس نے داعش کی نام نہاد خلافت کا بھی خاتمہ کردیا ہے۔
آج ہم داعش کے انہدام کے بعد عراق اور شام کے نقشے کا جائزہ لیں تو اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ اب داعش ایک منظم جنگی ڈھانچہ رکھنے والی طاقت نہیں رہی ۔ ایک وقت میں الیپو، رقہ ،دیر الزور سے موصل تک رہنے والی یہ غیر ریاستی عامل اب محض شام کے چند دیہات اور ریگزاروں تک ہی محدود ہوچکی ہے ۔اس کی بچی کچی تعداد لیبیا ،نائیجریا ،مالی، مصر ،صومالیہ اور افغانستان فرار ہوچکی ہے ۔ عراق میں ریاستی رٹ بحال ہوچکی جبکہ شمالی عراق میں عراقی کرد اہم عنصر ہیں۔
اس کے علاوہ شام میں بشار الاسد کی سرکاری افواج ملک کے بیشترعلاقے جیسے دمشق پالمیرا ،حمص اور حاما کے علاقے میں اپنی رٹ بحال کرچکی ہے ۔جبکہ شامی کرد فورسز رقہ ،مشرقی شام، کوبانی، تل آباد کے علاقوں پر قابض ہیں ۔جہاں تک شامی باغی گروپس کا سوال ہے تو وہ بھی ادلیب ،الیپو اور جنوب کے کچھ چھوٹے علاقوں پر اپنی موجودگی ثابت کر چکے ہیں ۔جبکہ ترک حمایتی باغی جارابلس اور ازاز میں اپنی مسلمہ برتری کے ساتھ موجود ہیں ۔اس سارے عرصے میں اگر عراق میں ہلاکتوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق 2014 سے اب تک 66 ہزار لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔جبکہ شام میں 2011 سے شروع خانہ جنگی میں اب تک 4 لاکھ 75 ہزار شامی اس خونی جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔
اگر امریکہ اور مغرب کی جانب سے شام اور عراق میں ہوائی حملوں سے ہونے والی اموات کا جائزہ لیا جائے تو یہ اعدادو شمار 26 ہزار کے لگ بھگ ہیں ۔داعش کے خلاف اس خونی یورش کے نتیجے میں ہمالیائی بنیادوں پر رفیوجی بحران کو بھی جنم دیا ہے جس کے نتیجے میں چھ سالوں میں ۹لاکھ شامی باشندوں نے یورپ میں سیاسی پناہ مانگی۔جبکہ تین ملین عراقی داعش کے مظالم سے تنگ آ کر فرار ہوئے ۔البغدادی کی خلافت کا سقوط ایک حقیقت ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ وقت بشار الاسد یا حیدر العبادی کے لیے فتح کا جشن منانے کا نہیں بلکہ داعش کے بعد خطے کو انارکی سے بچانے کے لیے موثرحکمت عملی وضع کرنے کا ہے ۔ اب حیدر العبادی کو سنی آبادی کو احساس شمولیت دلانا ہوگا تاکہ عراق میں فرقہ ورانہ کشیدگی کو لگام دی جائے ۔
اس وقت سنیوں کی غالب اکثریت حیدر العبادی کو حمایت دے رہی ہے۔ مستقبل میں کرد فیکٹر کو بھی گولی کے بجائے افہام و تفہیم سے حل کرنا ہوگا۔ دوسری جانب بشار الاسد کو بھی تباہ حال ملک کی تعمیر نو پر فوکس کرنا ہوگا اور سنی آبادی کو اعتماد فراہم کرنا ہوگا ۔شامی پناہ گزینوں کی واپسی اسد حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج رہے گا ۔صدر ٹرمپ ،یورپ اور سعودی عرب کو بھی بشار الاسد کو خطے میں امن کے لیے ایک موقع فراہم کرنا ہوگا کیونکہ داعش نے واضح کردیا کہ اسد کے بغیر یہ جنگ کئی دہائیوں پر پھیل سکتی تھی۔ تاہم اسد کے پیچھے ایران ،اور ولادی میر پیوٹن ،ٹرمپ کو معقولیت پر مبنی رویہ اپنانے پر مجبور کرتے رہیں گے ۔سب سے بڑھ یہ سوال کہ داعش کے خلاف صف آراء ایرانی ،کرد مسلح گروپس بشمول شامی جمہوری فورسز شامی باغیوں کو کیسے قومی دھارے میں واپس لایا جائے تاکہ مستقبل میں داعش جیسے خون آشام عفریت کی واپسی ممکن نہ ہوسکے۔