داعش بمقابلہ کون سا بیانیہ ؟
مطیع اللہ جان
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوجوان پاکستانیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں اور ان کے بیانیے کے جھانسے میں نہ آئیں۔ فوجی ترجمان آئی ایس پی آر کے دفتر میں نوجوانوں سے خطاب میں جنرل باجوہ نے کہا کہ نوجوان سوشل میڈیا پرمخالفانہ بیانیے سے بہت محتاط رہیں کیونکہ داعش اور اس کی ذیلی تنظیموں کا اصل ہدف تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔
آرمی چیف کے خطاب کی سرکاری طور پر جاری کردہ ویڈیو کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ داعش جیسی شدت پسند تنظیموں کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے نوجوان نسل کی ذہن سازی اس فوجی بیانیے سے کی جا رہی ہے جس میں آئین ، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی ترویج کی بجائے محض فوج کو قوم کا آخری سہارا بتایا جا رہا ہے۔
(جو کسی حد تک درست بھی ہے)۔ فوجی ترجمان کی پریس ریلیز کے مطابق تقریب میں شریک نوجوان آئی ایس پی آر کے سالانہ انٹر ن شپ (عارضی تربیتی پروگرام) کا حصہ تھے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایس پی آر نے بڑے تعلیمی اداروں خاص کر فوج کے زیر انتظام یونیورسٹیوں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کو سوشل میڈیا پر ایک خاص بیانیے کو فروغ دینے کے لیے تیار کیا ہے۔ اگر یہ خاص بیانیہ محض داعش اور اس قسم کی دیگر شدت پسند تنظیموں کے پراپیگینڈے کی نفی کے لیے ہوتا تو اور بات تھی مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں۔
آئی ایس پی آر کو چند سال پہلے ہی بظاہر حکومت کی باقاعدہ منظوری کے بغیر ایک کور کا درجہ دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یقینی طور پر بیانیے کی جنگ بھی اہمیت رکھتی ہے جس میں آئی ایس پی آر کی طرف سے سوشل میڈیا پر ان کے تربیت یافتہ نوجوانوں کی موجودگی اہم ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ایسے نوجوانوں کو بیانیے کے حوالے سے کیا سبق پڑھایاجا رہاہے اور ان نوجوانوں کی کس قسم کی ذہن سازی کی جا رہی ہے؟
بد قسمتی سے یہ تاثرعام ہے کہ یہ نوجوان سوشل میڈیا پر جنگجو شدت پسند تنظیموں کے بیانیے سے زیادہ جمہوریت پسند اور فوج کے سیاسی کردار کے مخالفین کواپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایک طرف داعش ہے جو مذہبی شدت پسندی کو فروغ دے رہی ہے تو دوسری طرف آئینی اور سیاسی اداروں ، سیاست دانوں اور جمہوریت پسند تجزیہ کاروں کے خلاف سیاسی شدت پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ایسی سرگرمی کا حتمی فائدہ داعش جیسی تنظیموں کے بیانیے کو ہی ہو گا۔زیادہ خطرناک بات یہ ہے اس تمام سرگرمی کے لیے عوام کے ٹیکس کا پیسہ اور دوسرے وسائل استعمال ہو رہے ہیں۔
داعش تو ہماری نوجوان نسل کے نا پختہ ذہنوں کو ہدف بنا رہی ہے مگر پھر ہمارے قومی سلامتی کے ادارے اس نوجوان نسل کے ناپختہ ذہنوں کو کس انداز میں پختہ بنا رہے ہیں؟کیا ہماری پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کی یہ آئینی ذمہ داری نہیں کہ وہ وزارت دفاع کے ذریعے فوج کے ترجمان سے ایسے عارضی تربیتی پروگراموں کے نصاب اور سوشل میڈیا پر ان کی سرگرمیوں کی تفصیلات طلب کرے ؟یہ معلومات و تفصیلات حکومت اور پارلیمنٹ سے قومی سلامتی کے نام پر اس لیے نہیں چھپائی جا سکتیں کہ جو سبق ہزاروں کی تعداد میں نوجوان بچوں اور بچیوں کو پڑھایا جا رہا ہے اور جو پیغامات جن جن سوشل میڈیا اکاو¿نٹوں سے ساری دنیا کو بھیجے جا رہے ہیں اس میں خفیہ راز والی کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ ویسے بھی سرکاری راز حکومتوں سے مخفی نہیں رکھے جاتے۔
قومی ایکشن پلان میں آپریشن ضرب عضب دہشت گردوں کے خلاف قومی جنگ کا ایک پہلو ہے۔ آپریشن رد الفساد بھی ایسی ہی عسکری حکمت عملی ہے جو پوری قوم ،معاشرے ،حکومت ،حکومتی داروں اور سول سوسائٹی کی مدد کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ایسے میں شدت پسند تنظیموں کے بیانیے کے مقابلے کے لیے عسکری اداروں کے ذریعے نوجوانوں کی ذہن سازی ایک نئی قسم کی شدت پسندی کو جنم دے سکتی ہے
جس میں دلیل سے زیادہ غلیل کا استعمال ہو گا۔ اصولی طور پر ان نا پختہ ذہنوں کو پورے ملک کے اعلی تعلیمی اداروں میں وہ تربیت ملنی چاہیے جس کے ذریعے ان میں داعش جیسی شدت پسند تنظیموں کی طرف جانے کا رجحان ہی پیدا نہ ہو۔دہشت گردی کے خلاف نوجوانوں کی ذہن سازی تب ہو گی جب انکو سیاسی نظریات کی بنیاد پر آزادی رائے کا حق ملے گا۔جنرل ضیا الحق کے دور میں طلباءتنظیموں اور یونینوں کے انتخاب پر پابندی لگا کر طلباءکی مذہبی تنظیموں کے ذریعے شدت پسندی کے جس بیانیے کو فرو غ دیا گیا تھا اس بیانیے کا مقابلہ آئی ایس پی آر کے تربیتی پروگراموں میں نہیں کیا جا سکتا۔
حکومت کو فوری طور پر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء یونین کی بحالی کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے اور یونین کی بحالی کو فوج کے زیر انتظام تعلیمی ا داروں میں بھی یقینی بنانا ہو گا جہاں پہلے ہی دہشت گردوں اور سیاستدانوں کے خلاف شعوری اور لا شعوری طور پر ایک نئے بیانیے کو ترتیب دیا جا چکا ہے۔
نوجوان نسل کی رہنمائی کا بہترین طریقہ حکومت اور حکومتی اداروں کی پالیسیاں اور خاص کر تعلیمی اداروں کے نصاب میں بہتری ہے۔ اگر آپ نورین لغاری جیسی نوجوان بچیوں کو داعش کا ساتھ دینے کے باوجود قانونی کاروائی کی بجائے سرکاری پروٹوکول میں گھر تک چھوڑ کر آئیں گے تو آئی ایس پی آر میں تربیتی پروگراموں کا مقصد فوت ہو جائے گا۔
اگر آپ احسان اللہ احسان جیسے طالبان کے ترجمانوں اور دہشت گردوں کو ٹی وی چینلوں پر بطور “خاص مہمان ” اور معصوم نوجوان کے پیش کریں گے تو پھر سالانہ انٹرن شپ پروگراموں میں نوجوانوں کے سامنے اس کا کیا جواز پیش کیا جائے گا؟ اگر آپ نوجوانوں کو آئین ، قانون ، جمہوریت اور دلیل کی طاقت کی بجائے عسکری قوت کو قومی سلامتی کا واحد ذریعہ ثابت کرنے کی تربیت دیں گے تو پھریہ از خود ہی ایک شدت پسندی کا بیانیہ ہے۔
اس حوالے سے نوجوان نسل کو ماضی کے فوجی آمروں فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحٰی، جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف کی سیاسی شدت پسندی اور آئین کے سے انحراف والے اقدامات سے آگاہ نہیں کیا جائے گا۔ تو پھر داعش کے بیانیے کا مقابلہ کیسے ہو گا؟ آخر دہشت گرد اور شدت پسند تنظیمیں بھی تو ملک کے آئین اور قانون کو نہیں مانتیں اور مخصوص علاقوں میں اپنی حکومتیں قائم کر کے ماورائے آئین عدالتیں لگا لیتی ہیں۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے۔
جس کا نوجوان نسل کے لیے جاننا ضروری ہے۔ ہمارے فوجی جوان اور افسران جو قربانیاں دیتے ہیں وہ اس ملک کے آئین اور قانون کی خاطر ہوتی ہیں نہ کہ جنرل ضیا اور جنرل مشرف جیسے فوجی آمروں کے لیے۔یہ وہ سبق ہے جو ہماری نوجوان نسل کو پڑھایا جانا ضروری ہے اور خاص کر پاک فوج کے اعلٰی ترین تربیتی ادارے کاکول اکیڈمی میں جب تک یہ تربیت نہیں دی جائے گی اس وقت تک ہماری قوم کے نا پختہ ذہن دہشت گردی کے بیانیے کے آسمان سے گر کر آمریت کے بیانیے کی کھجور میں اٹکتے رہیں گے۔
نقصان دونوں صورتوں میں ایک ہی جیسا ہے۔ حکومت کو اپنے آئینی اور قانونی اختیارات کا ادارک کرتے ہوئے ان دونوں قسم کے بیانیوں کا مقابلہ کرنا ہو گا وگرنہ بندوق تو بندوق ہوتی ہے جس کا بیانیہ صرف ایک ہی ہوتا ہے۔
بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت