سماجی تحریکیں معاشرتی مسائل پر عوامی رد عمل
(معصوم رضوی)
گزشتہ ہفتے پاکستان میں پھلوں کی مہنگی قیمتوں کے بارے میں سوشل میڈیا پر چلی مہم دوستوں کی توجہ کا مرکز رہی، حامی اور مخالفین کے درمیان مباحث بھی گاہے بگاہے دیکھنے میں آئیں۔ سماجی مہم کا مقصد رمضان میں پھلوں کی قیمتوں میں من مانے اضافے کے خلاف رد عمل دینا تھا، مہم درست تھی یا غلط، شرعی تھی کہ غیر شرعی، مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ اس مہم نے ایک بار پورے معاشرے میں دھیما ہی سہی مگر ارتعاش تو پیدا کیا، مجھے لگا کہ معاشرے میں اجتماعی حس ابھی پوری طرح کوما کا شکار نہیں ہوئی بلکہ زندگی کی کچھ رمق باقی ہے۔ خاموش اکثریت، جسے عمومی طور پر گونگا، بہرا اور اندھا سمجھا جاتا ہے جو ہر جبر خاموشی سے جھیل جاتی ہے، اس خاموش اکثریت کا یہ رد عمل خوشی کا باعث ہے، ایسے معاشرے جو رد عمل نہیں دیتے ان پر استحصالی اور طبقاتی قوتیں آسیبی پنجے گاڑھ لیتی ہیں۔
سوشل میڈیا بڑے کام کی چیز ہے مگر جدید ٹیکنالوجی سے ہمارا نفرت اور محبت کا کچھ عجیب سا رشتہ رہا ہے۔ ہر نئی ایجاد و ٹیکنالوجی سے بیک وقت بے تحاشا رغبت اور سرتوڑ مخالفت جاری رکھتے ہیں، یہ ہماری معاشرتی منافقت کی دیرینہ روایت ہے۔ ماضی میں کیوں جائیں کل کی بات ہے جب ڈش انٹینا اور کیبل آیا تو لگا طوفان آ گیا، مگر طوفان سے زیادہ تیزی کیساتھ ہر گھر کیبل سے ناطہ جوڑ چکا تھا۔ موبائل فون آیا تو پھر مخالفت کا زلزلہ آیا، خوب لتاڑا گیا سو آج موچی اور بھنگی بھی اس ٹیکنالوجی کے ماہر ہیں۔ سوشل میڈیا کی مخالفت کا زور ابھی ٹوٹا نہیں ہے، چوہدری نثار سے لیکر آپا نثار تک سوشل میڈیا کو صلواتیں سناتے ہیں مگر کیا کیا جائے کہ سوشل میڈیا اب زندگی کی ضرورت بن چکا ہے۔ خیر جناب کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کو روکنا کچھ ایسے ہی ہے جیسے سیلاب کے آگے چھلنی کا بند باندھا جائے۔ اب رہی بات استعمال کی تو حضور ٹیکنالوجی کا اچھا یا برا استعمال آپ کی صوابدید ہے، ویسے سوشل میڈیا تو ایک بہت بڑا ہائیڈ پارک ہے یا بھنڈار خانہ سمجھیں، مباحث، روابط، تخلیقات، تصاویر، معلومات یا پھر دل کے پھپھولیں پھوڑیں، نفرت، عداوت کا زہر، اس بھنڈار خانے میں سب کچھ دستیاب ہے۔ جدید ٹیکنالوجی چھری کیطرح ہوتی ہے، خواہ سبزی کاتیں یا قتل عام کریں، انحصار آپ پر ہے۔
بات کہیں اور نکل گئی، خیر سیاسی جماعتوں پر ہمارا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ عوامی مسائل پر توجہ نہیں دیتیں، بڑی حد تک یہ درست بھی ہے مگر جب کوئی سیاسی جماعت خالص عوامی مسائل پر تحریک چلائے تو عوام ساتھ نہیں دیتے۔ مسئلہ سیاسی ہو تو عوام بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، ڈھول، تاشے، گانے، میلے، ٹھیلے سب رنگ جماتے ہیں۔ اب دیکھیئے کراچی میں جماعت اسلامی نے کے الیکٹرک کی ناانصافی، نااہلی اور کرپشن کے خلاف عوامی تحریک شروع کر رکھی ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ ہر کراچی والے کا مسئلہ ہے، مگر مجال ہے کہ عوام اس تحریک میں شامل ہوئے ہوں۔ شاباش ہے جماعت اسلامی کے کارکنان اور امیر کراچی حافظ نعیم الرحمان پر کہ انہوں نے مشکل ترین حالات میں محدود وسائل اور کارکنان کیساتھ حق کی آواز بلند کی ہے۔ شہر قائد کے باسی سب سے زیادہ ذھین اور فہم و ادراک کے مالک ہیں تو یقینی طور پر یہ ضرور جانتے ہونگے کہ انقلاب سوشل میڈیا کے ذریعے نہیں آتے۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے میدان میں آنا پڑتا ہے۔ اتفاق سے دوسری مثال بھی کراچی سے تعلق رکھتی ہے، کچھ عرصہ پہلے پاکسان سرزمین پارٹی نے پورے 18 روز کراچی پریس کلب کے باہر شہر قائد کے 16 مسائل کیلئے دھرنا دیا، چند خبروں کے علاوہ کوئی اہمیت نہ دی گئی، مگر جب 14 مئی کو احتجاجی ریلی نکلی، ریڈ زون جانیکا اعلان ہو تو پوری انتظامیہ متحرک لو گئی، لاٹھی چارج، شیلنگ ہوئی مصطفیٰ کمال سمیت متعدد گرفتار ہوئے۔ تو بھیا ثابت یہ ہوا کہ حکومتیں بھی پرامن احتجاج کا نوٹس نہیں لیتیں، جب تک لاٹھی، شیلنگ، ہنگامہ برپا نہ ہو، حکومت اور شہری دونوں غافل رہتے ہیں۔
دنیا بھر میں سیاست کی نائو سماج کے دھاروں پر چلتی ہے مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ معاشرتی سوچ اتی کمزور ہے کہ اسکی جگہ استحصالی طبقے نے لے لی۔ سماجی ترقی کی عالمی فہرست کے مطابق الحمداللہ پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنگا اور بھارت سے کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ انڈیکش 2016 میں 133 ممالک کو شامل کیا گیا ہے جس میں پاکستان کا نمبر 113 ہے جبکہ نیپال 50، بنگلہ دیش 101، سری لنکا 83 اور بھارت 98 نمبر پر ہے۔ جیتے جاگتے معاشروں میں مسائل پر عوامی رد عمل اداروں کی پالیسیوں کا بیرو میٹر ہوتا ہے۔ پاکستان ان معاشروں میں سے ہے جہاں طبقاتی قوتوں نے سماجی تشخص کو طاقت کے زور پر کچل کر ہمیشہ عوام کا استحصال جاری رکھا۔ اپنی نا اہلی چھپانے کیلئے عوام کی جانب سے اپنا حق کا سوال بھی جرم بنا دیا، سو عام انسان خوف کی زندگی بسر کر رہا ہے کیونکہ نہ اسے قانون تحفظ مہیا کرتا ہے اور نہ ہی ریاست، پولیس اور سیکورٹی ادارے بھی اسحصالی قوتوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ معاشرے کے اصل پہچان کسان، مزدور اور غریب طبقے کی آواز دم توڑ چکی ہے، متوسط طبقہ مفلوج ہے، گویا سماج میں مزاحمتی قوتوں کا وجود باقی نہ رہا اور طبقہ اشرافیہ ذرائع پیداوار، قانون، معاشرتی سوچ اور بالاخر سماج پر قابض ہو گیا۔
سماجی تحریکیں معاشرتی مسائل پر عوامی رد عمل ہوتی ہیں، معاشرے میں زندگی کی عکاس، یہ تحاریک کامیاب ہوں یا ناکام، معاشرے پر بہرحال اثر انداز ضرور ہوتی ہیں۔ ہزارہ قتل عام کے خلاف ملک بھر میں پرامن دھرنوں حکومت کو جنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آمنہ جنجوعہ کی لاپتہ افراد کی بازیابی کے خلاف جدوجہد نے بالاخر حکومت کی نااہلی سامنے لانے میں کامیاب ہوئیں اور عدالت نے نوٹس لیا۔ ماما قدیر کے لانگ مارچ نے ملک بھر میں بلوچستان میں ہونیوالے ظلم و ستم کا پردہ چاک کیا۔ جہاں جہاں عوام نے آواز اٹھائی ہے حکومت کو سر جھکانا پڑا ہے مگر یہ تسلیم کرنا پڑیگا کہ ہمارا معاشرتی رد عمل عمومی طور پر جمود اور بے حسی سے دوچار ہے بس کبھی کبھی کوئی نعرہ مستانہ گونج اٹھتا ہے۔ ریاست عوام کو بنیادی وسائل مہیا کرنے میں ناکام ہو، تحفظ اور انصاف کی فراہمی ناپید ہو، پانی، تعلیم، صحت عنقا ہو تو پھر بھلا حکومت جمہوری ہو یا آمرانہ، ادارے سول ہو یا عسکری، انکا وجود ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ آج ایک عام شہری ریاست سے تو محبت کرتا ہے مگر حکومت اور اداروں سے صرف خوف و دہشت کا رشتہ ہے۔ معاشرہ رد عمل نہ دے، آواز نہ اٹھائے تو انتخابات میں بھی ایک استحصالی قوت کی جگہ دوسری استحصالی قوت لے لیتی ہے اور جمہوریت صرف دیکھنے کی چیز بن کر رہ جاتی ہے۔ اصل خرابی کا ذمہ دار کون ہے، یہ فیصلہ بہرحال آپ کو کرنا ہے، فیض صاحب تو بہت پہلے کہہ گئے
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتطار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں