دائرے کا سفر
ملک تنویر احمد
انسان نہ ختم ہونے والا گھن چکر ہے جس میں منزل مقصود تو کجا اس کی جانب ایک قدم بڑھانے کا خیال بھی ہوش و خرد کے تمام تر اجزاء سے عاری ہوتا ہے۔ خط مستقیم پر چلنے والے ہی کسی منزل کو پا سکتے ہیں۔ ہم اس خط مستقیم پر چلنے کی کئی بار سعی کر چکے ہیں لیکن کچھ ’’سرفروشان وطن‘‘ نے بار باراس میں کھنڈت ڈالی جب انہوں نے خط مستقیم پر چلنے کی بجائے ہمیں دائرے کے سفر میں دھکیلا۔ اس دائرے کے بے سمت سفر میں ہم کچھ ایسے نڈھال ہوئے کہ اس نے ہمارے وجود کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا تھا۔اس دائرے کے سفر میں کنٹرولڈ جمہوریت، فوجی آمریت،صدارتی نظام، انتخاب سے پہلے احتساب، ٹیکنو کریٹ حکومت ایسے تجربات کو ملک و قوم کے لیے نسخہ کیمیا کے طور پر آزمایا گیا کہ اس نسخے کے استعمال سے ہمارے قومی وجود میں پنپنے والے تمام عوارض و امراض پلک جھپکتے ہوئے دم توڑ دیں گے او ر قومی وجود کسی کڑیل جوان کی طرح آگے کی طرف دوڑ لائے گا۔
افسوس یہ سارے نسخے نیم حکیم کے بھونڈے طریقہ علاج کی طرح ’’مرض بڑھتا بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘کے مصداق ٹھہرے۔ 2008 میں جمہوری عمل کے ازسر نو احیاء کے بعد 2013 میں پر امن طریقے سے انتقال اقتدار ہماری جمہوری تاریخ کے غازہ و رخسار سنوار گیا۔ 2013 کے انتخابات کے بعد اب قوم 2018 میں نئے انتخابات کی جانب پیش قدمی کر رہی ہے۔ یہ پیش قدمی اس وقت خوفناک سیاسی طوفانوں کے بیچوں بیچ جاری ہے۔ ملک کے سیاسی منظرنامے پر اس وقت بھونچال کی کیفیت طاری ہے۔ نواز لیگ کی قیادت عدالتوں میں بدعنوانی کے الزامات کی جوابدہی کے لیے نیب ریفرنسز کے ذریعے پابجولاں کر دی گئی ہے۔
میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد نواز لیگ کی حکومت ہی مرکز میں برسر اقتدار ہے لیکن وہ موجودہ ہیجانی صورتحال میں اپنے آپ کو بے دست و پا محسوس کر رہی ہے۔ میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن الزامات کے فیصلے عدالتوں کو کرنے ہیں اور انہیں منطقی انجام تک پہنچنا بھی چاہیے کہ اگر اس ملک کے وسائل کو بیدردی سے لوٹا گیا تو ان حکمرانوں کا احتساب بلاشبہ ہونا چاہیے جو عرصہ دراز سے حکومتی عہدوں پر متمکن ہو کر اس ملک کی قسمت کے فیصلے کر رہے تھے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں کا احتساب بلاشبہ ہونا چاہیے اور ان ک لیے بہترین فورم ملک کی عدالتیں ہیں۔نواز لیگ کی قیادت کی جانب سے عوام کو بذریعہ انتخاب احتساب کا اختیار کے واویلا ایک ناگفتنی سے زیادہ کچھ نہیں کہ یہ احتساب پالیسیوں پر تو ہو سکتا ہے لیکن فوجداری مقدمات میں سنگین جرائم کا فیصلہ عوام کی عدالتوں میں نہیں بلکہ ججوں کے عدالتوں میں ہوتا ہے۔
شریف خاندان کے خلاف اس احتساب کو جاری رہنا چاہیے اور اسے منطقی انجام تک بلا تاخیر بھی پہنچنا چاہیے لیکن ملک میں انتخابات سے پہلے احتساب کی جو سرگوشیاں بڑھتے بڑھتے اب سیاسی نعروں کی صورت میں ڈھلتی جا رہی ہیں وہ نہایت ہی تشویشناک امر ہے۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب فرماتے ہیں کہ انتخاب سے پہلے احتساب مکمل کیا جائے۔ سراج الحق جس جماعت کی امارت کی کلغی اپنے سر پر سجائے ہوئے ہیں اس کی تاریخ اس نوع کی درفطنیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ماضی میں بھی جماعت اسلامی اس نوع کی پھلجڑیاں چھوڑ کر طاقت کے اصل مراکز کی نگاہو ں میں معتبر بننے کی سعی لاحاصل کر چکی ہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان کی انتخابی سیاست میں متحرک ہونے کے باوجود اس ملک میں اس نوع کے نظام کی حمایتی رہی ہے جس میں عوام کے حق انتخاب اور حق حکمرانی پر گہری ضرب لگا کر چوردروازوں سے اقتدار کے محل میں داخل ہونے کی کوشش کی جائے۔ حروں کے روحانی پیشوا اور پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا صاحب نے یہ چنوتی دی ہے کہ اگر اگلے برس انتخاب کرائے گئے تو گلی گلی خون خرابہ ہوگا۔ ان دو صاحبان کے علاوہ ٹیکنو کریٹ حکومت کو لانے کی بازگشت نے اس ملک کے در و بام کو یوں جھنجھوڑا کہ ملک کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو لب کشائی کرنی پڑی کہ ٹیکنو کریٹ حکومت مسائل کا حل نہیں۔
اس نوع کی گل افشانیوں سے ہماری پوری تاریخ بھری پڑی ہے۔ وہ عناصر جو ووٹ کی طاقت کے بل بوتے پر اقتدار میں آنے سے قاصر رہے ہیں وہ اس نوعیت کے فلسفوں سے قوم کی سمع خراشی کرتے رہے ہیں۔ یہ ہمیں اسی دائرے کے سفر میں دھکیلنے کی نئی کوشش ہے جو ماضی میں ہم بھگت چکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر صاحب کا انتخاب سے پہلے احتساب کے مطالبے سے ہماری اجتماعی عشروں سے آشنا ہے۔ کچھ دور نہ جائیے مدظلہ ڈاکٹر طاہر القادری کے پاکیزہ پیکر کو تصور میں لائیے تو 2013 کے انتخابات سے پہلے وہ بھی اس قسم کے مطالبات سے دھرتی کا دل دہلا رہے تھے لیکن موصوف کی ان انتخابات میں نشستیں فقط صفر ہی رہیں۔
پیر پگارا صاحب نے انتخابات کی صورت میں جن خوفناک حالات کی طرف نشاندہی کی ہے وہ انتخابات نہ ہونے کی صورت میں تو ملک کے کونے کونے میں برپا ہوسکتے ہیں لیکن ان کے وقت کے انعقاد کی صورت میں کوئی ایسی خطرناک صورت حال جنم لیتی نظر نہیں آتی۔ اس ملک کی گلیوں کو اس وقت خون کی ندیوں نے سیراب کیاجب اس ملک میں عوام کے حق حکمرانی کو پامال کر کے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ برقرار رکھا گیا۔ ڈھاکہ اور چٹاگانگ سے لیکر سندھ، کراچی، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ تک کی سرزمین خون انسانی سے اس وقت رنگین ہوئی تھی جب ملک عوامی قوتوں کی بجائے غاصبانہ قوتوں کے دام گرفت میں تھے۔
یہ وہ دائرے کا سفر تھا جس کی ہم نے ماضی میں بہت بھاری قیمت چکائی کہ اس ملک کو دو لخت کر بیٹھے۔اگر اس ملک کو خط مستقیم پر چلنے دیا جاتا یہاں آئین کی حکمرانی اور ووٹ کی طاقت کے ذریعے اقتدار کی منتقلی کا کلچر فروغ پا جاتا تو ہم بہت سے سانحات سے بچ سکتے تھے۔آج سے اگلا انتخاب کچھ ماہ کے فاصلے پر ہے ۔قوم اپنے حق حکمرانی کو استعمال کرکے اپنے اگلے حکمرانوں کے انتخاب کرنے کا انتظار کر رہی ہے ۔ملک کو اس خط مستقیم پرچلنے دیں اسے دائرے کے سفر میں دھکیلنے کی نابکار کوششیں کر کے ملک و قوم کی تقدیر سے کھلواڑ نہ کریں۔