دمشق کا رفیق شامی کراچی کا آصف فرخی اور آنول نال
آصف فرخی فرخی کی تہذیبی ’’آنول نال‘‘ جس دھرتی میں گڑی ہوئی ہے اس کی مہک اس کے لفظ لفظ میں ہے مگر وہ فکری حوالے سے بہت اوپر اٹھ آئے ہیں تبھی تو وہ کہتے ہیں: ’’… یہ میں ہوں، میری ناف سلامت ہے اور اسی ذریعے میں اپنی ماں دنیا سے جڑا ہوا ہوں۔ اس کے لہو سے دھڑکتا ہے میرا دل، میں ماخذ سے مربوط ہوں، میں بدن میں بدن ہوں، میں روح ہوں، اس کی ہستی میرے رگوں میں بہتی ہے، میں کل کائنات ہوں۔‘‘
از، محمد حمید شاہد
افسانہ نگار اور مترجم آصف فرخی جب بھی کراچی سے آتے ہیں ضرور یاد کرتے ہیں، ملاقات کی کوئی نہ کوئی صورت نکال لیتے ہیں، مگر اب کے آئے تو یوں کہ میں ٹیلی فون کے ادھر اور وہ ادھر’’ہیلو ہیلو‘‘کرتے رہ گئے۔
برسات کے موسم میں ٹیلی فون کا محکمہ اور کیا ’’تحفہ‘‘دے سکتا ہے۔
آصف فرخی سے ملاقات تونہ ہو سکی مگر ان کی دو کتابوں کا تحفہ موصول ہو گیا۔
ایک لکھنے پڑھنے والے کے لیے کتابوں سے بڑھ کر بھی کیا کوئی تحفہ ہو سکتا ہے۔
ان دو کتابوں میں ایک اس کے افسانوں کا تازہ مجموعہ ہے ’’میں شاخ سے کیوں ٹوٹا‘‘ اس میں ان کے سولہ افسانے ہیں۔ جب کہ دوسری کتاب ’’مٹھی بھر ستارے‘‘ رفیق شامی کا ناول ہے جسے آصف نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
رفیق شامی شام کے شہر دمشق میں ۱۹۴۶ء میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۶ء سے ۱۹۹۶ء تک وہ دمشق کے پرانے محلے میں ایک خفیہ اخبار نکالتے رہے۔ ۱۹۷۱ء میں جرمنی چلے گئے جہاں کیمسٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے مختلف اداروں سے بَہ طور کیمیا دان متعلق رہے۔ آج کل کل وقتی ادیب ہیں۔
یہ ناول انھوں نے جرمن زبان ہی میں لکھا تھا جو ۱۹۹۰ء میں انگریزی میں ترجمہ ہو کر آصف کے ہاتھ لگا تو انھوں نے ۱۹۹۷ء میں ہمارے لیے اردو میں منتقل کر دیا۔
میں نے اس ناول کو حرف بہ حرف پڑھا ہے اور اس الجھن سے نہیں نکل پایا ہوں کہ آصف نے آخر یہی ناول ترجمے کے لیے منتخب کیوں کیا ہے۔
بَہ قول مترجم اس ناول کو جرمنی میں دو عدد انعام بھی مل چکے ہیں اور اپنی اشاعت کے فوراً بعد یہ مقبول ہو گیا۔ کیا آصف کے لیے اتنا کافی رہا ہو گا کہ وہ اس ناول کو ترجمہ کرنے کا فیصلہ کریں۔ یقیناً وجہ کچھ اور ہے۔
میں اس زاویے سے اس لیے بھی سوچنے لگا ہوں کہ میں نے آصف کے افسانوں کا تازہ مجموعہ ’’میں شاخ سے کیوں ٹوٹا‘‘ کو اسی دورانیے میں پڑھ لیا ہے۔ ان کے افسانوں کے وہ دو مجموعے جو کراچی کے دگر گوں حالات کے پسِ منظر میں تخلیق ہوئے اور عمر ریوابیلا کا ناولREQUIEM FOR A WOMAN’S SOUL جو انھوں نے ’’ماتم ایک عورت کا‘‘ کے نام سے ترجمہ کر کے شائع کرایا تھا، بھی یاد داشت میں ابھی تازہ ہیں۔
’’ماتم ایک عورت کا‘‘ اور ’’مٹھی بھر ستارے‘‘ میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ دونوں ریاستی جبر کے موضوع پر لکھے گئے ہیں۔ عمرریوا بیلا کے ناول کا نصف آخر جب کہ رفیق شامی کا مکمل ناول روزنامچے کے اسلوب میں تحریر کیا گیا ہے جو اپنے اندر اس تحریر سے بَہ ہر حال کم کشش رکھتا ہے جو مربوط رواں اور مسلسل ہو۔ مگر پھر بھی آصف فرخی نے یہ دونوں ناول ترجمہ کر ڈالے ہیں تو یقیناً اس لیے نہیں کہ یہ شاہ کار ناول تھے بَل کہ اس لیے کہ یوں وہ ہمیں بتانا چاہتے ہیں کہ کراچی کے وہ شہری جو حالات سے بَہ راہِ راست متاثر ہو رہے ہیں وہ اس وقت کیا سوچ رہے ہیں۔
آصف فرخی ذہین افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے یہی بات اپنے افسانے کے مجموعے کا نام منتخب کرتے ہوئے بھی بتا دی ہے۔ ذرا کتاب کا نام میرے ساتھ پھر پڑھیے: ’’میں شاخ سے کیوں ٹوٹا؟‘‘
اس مجموعے کے آغاز میں ایک صفحے پر دو اشعار ہیں۔ پہلا شعر اقبال کا ہے:
تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اِک جذبہ پیدائی، اک لذت یکتائی
دوسرا شعر آصف کے والد اسلم فرخی کا ہے
اُڑتے ہوئے پتے نے عجب بات کہی ہے
جو شاخ سے ٹوٹے وہی گردن زنی ہے
کچھ اور وضاحت چاہیے؟
افسانہ ’’ناف‘‘ کی یہ سطریں پڑھ لیں:
’’اسپتال والے بھی زچہ کو بھرتی کر لیتے ہیں پھر فارغ کرنے کے بعد یوں ہی لوٹا دیتے ہیں آنول نال ساتھ نہیں کہ ماں باپ کے ہاتھ سے زمین میں گاڑ دی جائے۔ میں جانوں کسی کی نال ہی نہیں گڑتی جبھی تو آج کل کے لوگوں کے لیے مٹی میں مامتا نہیں ہوتی۔ ناف سے کٹے اہلے گلے پھرتے ہیں۔‘‘
(ناف/میں شاخ سے کیوں ٹوٹا)
آصف فرخی فرخی کی تہذیبی ’’آنول نال‘‘ جس دھرتی میں گڑی ہوئی ہے اس کی مہک اس کے لفظ لفظ میں ہے مگر وہ فکری حوالے سے بہت اوپر اٹھ آئے ہیں تبھی تو وہ کہتے ہیں۔
’’… یہ میں ہوں، میری ناف سلامت ہے اور اسی ذریعے میں اپنی ماں دنیا سے جڑا ہوا ہوں۔ اس کے لہو سے دھڑکتا ہے میرا دل، میں ماخذ سے مربوط ہوں، میں بدن میں بدن ہوں، میں روح ہوں، اس کی ہستی میرے رگوں میں بہتی ہے، میں کل کائنات ہوں۔‘‘
(ناف/میں شاخ سے کیوں ٹوٹا)
یہ قضیہ تو طول پکڑتا جا رہا ہے اور ایسے میں ’’مٹھی بھر ستارے‘‘ میں جو چند ستاروں جیسی سطریں ہیں وہ بھی حافظے سے نکلی جاتی ہیں حالاں کہ یہی سطریں اس ناول کا حاصل ہیں، آپ بھی ملاحظہ کریں اور حظ اُٹھائیں:
* ایک کتا بہت سے شیروں سے مفید ہے۔
* اگر شیر بھوک کے مارے ہڈی چچوڑنے لگے تو وہ کتا نہیں بن جاتا۔
* کہانیاں جادو کے چشمے ہیں جو کبھی خشک نہیں ہوتے۔
* موت ایک لمبی نیند ہے، نہیں موت آخری قدم ہے۔
*ایسا لگتا ہے اس ملک میں ایک اخبار (نکالنا) قتل سے بھی زیادہ خطر ناک معاملہ ہے۔
*مصیبت جس دن آتی ہے، بہت بڑی ہوتی ہے اس کے بعد کم ہوتی جاتی ہے۔
*جب لوگ برسوں بھوکے رہیں تو بھوک ان کی ہڈیوں میں اتر جاتی ہے۔
*اس ملک میں سب سے بہتر بات تو یہ ہے کہ پاگل ہو جاؤ۔
*جھوٹ تو سچ کا جڑواں بھائی ہے جوں ہی ایک آتا ہے دوسرا بھی نظر آنے لگتا ہے۔
*دوست بناؤ اور محدب شیشے کو ایک طرف رکھ دو اس کو ہر وقت ہاتھ میں لے کر تم ایک اور غلطی کرو گے، دوستوں کے بغیر رہ جاؤ گے۔
*سارے لوگ ایک جیسے پیدا ہوتے ہیں، ننگے اور بھوکے، مگر اس دنیا کی ہوا میں سانس لیتے ہی مختلف ہو جاتے ہیں۔
*جو بھی نا انصافی کو معاف کر دیتا ہے اسے نا انصافی ملتی ہے۔
*جب تم گھر واپس آؤ تو دروازے پر ہی رک جاؤ اپنی مشکلوں سے کہو ’’اترو میرے کندھوں سے‘‘ پھر اندر چلے جاؤ اور اگلی صبح واپس جانے لگو تو اسی جگہ کھڑے ہو کر کہو ’’مشکلو، میرے کندھوں پر واپس آ جاؤ‘‘ مگر انہیں دہلیز پر نہ چھوڑ دینا ورنہ وہ انتقام لیں گی۔
حمید شاہد صاحب کا تبصرہ پڑھ کر خوشی ہوئی۔ زیر بحث افسانے آنتول نال میں سےبمصداق محاورہ فارسی۔۔۔۔
نمونه مشتی از خروار است ۔۔کئی نثر پارے بھی پیش کئے ہیں ۔۔۔کچھ جملے مجھے سمجھ میں نہیں آسکے۔۔
“ایک کتا بہت سے شیروں سے مفید ہے۔”یسا لگتا ہے اس ملک میں ایک اخبار (نکالنا) قتل سے بھی زیادہ خطرناک معاملہ ہے۔
۔۔۔وغیرہ ایک کتا۔۔۔۔ایک اخبار۔۔۔۔؟؟؟
جملوں کے ضروری قرینے غائب ہیں ایسے جملے کیوں منتخب کئے گئے ہیں ۔۔۔اس کا جواب آسانی سے دیا جاسکتا ہے۔۔۔نمونہ تو نمونہ ہی ہوتا ہے۔۔