ڈیمز بنانے کا بہانہ
از، یونس خاں
“ڈیمز بنانا عدالت کا کام نہیں” یہ کہنا ہے جسٹس عمر عطا بندیال کا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ریاست اور انتظامیہ کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔ تو کیا یہ کھلا کھلا اعتراف نہیں ہے کہ یہ لوگ کھلم کھلا حکومتی اور ریاستی امور میں مداخلت کر رہے تھے؟
اس سے پہلے جسٹس صاحب جو فیصلے کر رہے تھے، کیا ان کی نوعیت سیاسی نہیں تھی؟
اصل سوال تو یہ ہے کہ کیا چیف جسٹس کو سیاسی فیصلے کرنا چاہییں؟
اگر چیف جسٹس صاحب کو سیاسی فیصلے کرنے کا اختیار ہے تو پھر وزیر اعظم کو بھی عدالتی فیصلے کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔
کبھی بادشاہ چیف جج بھی ہوا کرتا تھا، یہ جمہوریت ہے کہ جس نے عدالتی اور سیاسی معاملات کو الگ الگ ڈیل کرنے کا کہا۔ دونوں کی ڈومین الگ الگ مقرر کی۔ سیاسی فیصلوں اور پبلسٹی کا اختیار وزیراعظم کو دیا قانونی تصفیوں کا اختیار عدالتوں کے سپرد کیا۔ اس کے ساتھ ہی عدالتوں کو متنازع ہونے سے بچانے کے لیے ججوں پر تنقید کا اختیار چھین لیا۔ تنقید صرف اسی صورت روکی جا سکتی تھی کہ ان سے پبلسٹی کا اختیار ختم کر دیا جائے۔
جس طرح حکومت کو عدالتی فیصلے کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا، عین اسی طرح چیف جسٹس کو بھی سیاسی فیصلے کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔
جب چیف جسٹس صاحب ڈیم بنانے نکلے تھے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ واپڈا کی ڈیم کمیٹی کے سربراہ بننے کی ایک کوشش تھی کہ جس کے لیے یہ راہ ہموار کی جا رہی تھی؟ یہ ایک ایسی نوکری ہے کہ نہ ڈیم بنتا نہ نوکری ختم ہو تی۔ اگر با لفرضِ محال یہ ڈیم پوری تگ و دو کے بعد وقت پر بن بھی جائے کہ جس کی بظاہر نیلم۔جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی طرح وقت پر بننے کی کوئی امید نہیں ہے۔ پھر بھی کم از کم اس ڈیم کی تعمیر کے لیے آٹھ سے نو سال درکار ہوں گے تو کم از کم ان آٹھ نو سال کے لیے انجینئیر ثاقب نثار کی نوکری پکی تھی اورعدالتی فیصلے کے ذریعے وہ ایسا کر بھی سکتے تھے۔ جب کہ اس وقت تمام بڑے حکومتی اداروں کی سر براہی عدلیہ کے سابق ججز کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار چند مہینوں میں ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اپنی نوکری ختم ہونے کا خوف ان پر پہلے ہی طاری ہو چکا ہے جس کا وہ اظہار بھی کر چکے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ نا گزیر لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔ اب موصوف فرما رہے ہیں کہ عدالتی نظام میں بہتری بتدریج آتی ہے اور یہ ڈیم بنانا ان کا کام نہیں ہے۔ اس کایا کلپ کی وجہ کیا یہ ہے کہ لوگوں نے ان پر بھروسا نہ کرتے ہوئے اس فنڈ میں پیسے ہی نہیں دیے؟ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے زبر دستی تنخواہ کاٹ کر اس فنڈ میں پیسے جمع کروائے گئے، پھر بھی صرف چند کروڑ روپے اکٹھے ہوئے۔
مزید دیکھیے: جینا ہے کہ مرنا ہے اک بار ٹھہر جائے
اخلاقیات کی قبر پر تبدیلی کا کتبہ
اصل رقم کتنی اکٹھی ہوئی یہ ابھی بتایا نہیں گیا بہ ہرصورت یہ تمام رقم چند کروڑ سے زیادہ نہیں ہے۔ اب اگر عدالت یہ کہہ رہی ہے کہ یہ ان کا کام نہیں ہے۔ تو کیا ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا یہ کام انہیں زبر دستی منڈھا گیا تھا یا یہ کام کسی اور کی منشاء کے مطابق ہو رہے تھے؟
اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہمیں تو یہ ہی نہیں پتا کہ ڈیم کا ڈیزائن کیا ہو گا۔ اس کا ٹھیکہ کسے دینا ہے اور تو اور لوگوں نے الیکشن کی وجہ سے پیسے نہیں دیے۔ مزید یہ کہ ڈیم کی تعمیر کے لیے درکار رقم ہماری استطاعت سے زیادہ ہے۔
ایک اور پہلو سے بھی چیف صاحب کے اس تبدیل شدہ مؤقف کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ڈیم بنانے کی اس سر گرمی کا آغاز اس وقت شروع کیا گیا تھا جب ملک میں الیکشن ہونے جا رہے تھے اور اس وقت کی حکمران جماعت زیرِ عتاب تھی۔ اسی دوران ڈیم بنانے کے معاملے پر حکومتی تساہل کو جواز بنا کر چیف صاحب نے ڈیم بنانے کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا اور یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ حکومت نے عوام کی ضرورتوں کا خیال نہیں رکھا جس کی وجہ سے ملک پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔
اب جب کہ الیکشن کے فوری بعد انہوں اپنے اس فیصلے سے رجوع کر لیا ہے تو کیوں نہ یہ سمجھا جائے کہ یہ محض عوام کو گمراہ کرنے کی ایک سازش تھی؟
ایسا رویہ صرف ایک سیاست دان کا ہو سکتا ہے کسی جج کا نہیں۔ اگر ملک کی سب سے بڑی عدالت کا سربراہ اس رویے کا اظہار کرے گا، تو پھر ایک سیاست دان اور ایک جج کے رویے میں کیوں کر کوئی فرق رہ جائے گا؟
ڈیم بنانے کے اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایک بنک اکاؤنٹ کھلوایا گیا تا کہ فنڈز اکٹھا کیے جا سکیں، جب کہ لوگوں نے اسے عوامی بہبود کا ایک منصوبہ ہونے کے با وجود، اس کے با وجود کے سوشل میڈیا پر ڈیمز کے حق میں ایک لمبی چوڑی کمپیئن چلائی گئی، اس فنڈ میں بڑی تعداد میں پیسے جمع نہ کروا کر آپ کے فیصلے پر عدم اعتماد کا اعلان کیا۔
اب اس سادگی پہ کیوں کوئی مر نہ جائے کہ پہلے تو بڑا گھمنڈ تھا کہ ہم ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ اگر حکومت چاہیے تو اس فنڈ کوان کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ عمران خان کی سیاسی کمپیئن چلا رہے تھے کہ یہ فنڈ اب اس کی حکومت کے حوالے کرنے کا کہا جا رہا ہے جب کہ ابھی تو اس کی حکومت نے پرفارم کرنا شروع ہی نہیں کیا؟
مزید یہ کہ جب آپ نے رجوع کر ہی لیا ہے تو اس سوال کا جواب بھی چاہیے کہ آپ پنجاب کمپنیز کے چیف ایگزیکٹوز سے زیادہ تنخواہ لینے کے حوالے سے ان سے پیسے واپس طلب کر رہے ہیں کہ یہ قومی خزانے کا ضیاع ہے۔ تو اس ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے جو پبلسٹی پر خرچ آیا ہے اس کی ریکوری کیسے ہو گی؟ کیا یہ سرکاری پیسے کا ضیاع نہیں ہے؟
اب اس پیسے کے ضیاع پر آپ کس کو سزا دیں گے؟