دانہ جلا کر وقت دیکھتا ہوں
از، محمد علی پٹھان/ ننگر چنا
چہرہ کھڑکی سے باہر۔ سبز جھنڈی ہوا میں پھڑپھڑاتی نظر آرہی ہے۔’’کُو…. چھک چھک ….کُو…کُو…‘‘ ٹرین آہستہ آہستہ پلیٹ فارم چھوڑتی ہے۔ میں چہرہ اندر کرکے کھڑکی بند کردیتا ہوں۔ سردی کا احساس۔ مفلرکھینچ کرکانوں پرباندھ دیتاہوں۔ سگریٹ جلا کر دانہ کی روشنی میں کلائی میں بندھی گھڑی میں وقت دیکھتا ہوں۔ ڈیڑھ بجے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ صبح نو بجے کے قریب جام شورو پہنچتے ہی وہاں سے بس پکڑلوں گا ۔ کرا چی بارہ بجے سے پہلے پہنچ جاؤں گا۔ لنڈا بازار میں کوٹوں کی خریداری پر زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ گھنٹہ لگے گا۔ کوٹ پیک کروا کر، کسی ڈاٹسن میں لے جاکر ٹرک اڈے پر لوڈ کرواؤں گا اور پھر واپس آنے کے لیے سیدھا بلیو لائن آفس جاؤں گا۔
’’بلیو لائن‘‘ کے تلفظ کے ساتھ ہی کچھ دیر قبل کا منظر اس کے ذہن میں صاف ہونے لگتا ہے۔ سوا گیارہ بجے کی گاڑی۔ سیٹ نمبر پچیس۔ پوری گاڑی میں کچھ نشستیں خالی باقی تمام مسافروں سے بھری ہوئی۔ ٹکٹ چیک ہونے کا مرحلہ۔ اچانک ایک غیر متوقع بات کا پھیلاؤ۔ مسافروں میں افراتفری۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام مسافروں نے نیچے اترنا شروع کردیا ۔میں بھی ان میں شامل۔ تمام نظریں ڈیڑھ گھنٹہ قبل گئی اور لوٹ آئی بلیو لائن پر مرکوز۔
سامنے والے شیشہ پر دائیں اور بائیں گولیوں کے سوراخ۔ ڈرائیور سیٹ کے پیچھے بیٹھا ایک نوجوان تڑپتا اور چیختا چلاتا ہوا۔ اس کی بائیں ٹانگ سے بہتا ہوا لہو۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ڈاکوؤں نے راستہ بلاک کرکے گاڑی ٹھہرانے کا اشارہ کیا۔ نہ رکنے پر کلاشنکوف کا منہ کھول دیا اور بارش ہوگئی۔ نتیجہ یہ کہ اس نوجوان کے ساتھ چار آدمی زخمی ہوگئے۔ گاڑی پھر بھی نہیں رکی۔
ڈرائیور قریبی تھانہ پہنچا۔ لیٹر لے کر ، پولیس موبائلزساتھ لیے آگے جانے کے بجائے پیچھے لوٹ آیا۔ راستہ میں وہ شخص چل بسا جس کے سر میں گولی لگی تھی۔
’’ ارے بے عقل! گاڑی سیدھی ہسپتال کیوں نہیں لے گئے۔ ادھر آنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ بکنگ کلرک ڈرائیور پر برس پڑا۔
’’ تمہیں اطلاع کرنے اور ….‘‘ ڈرائیور کی بدحواسی اس کے لہجے سے عیاں تھی،’’ تم بھی ہسپتال چلو…. میرا دماغ کام نہیں کررہا۔‘‘
’’ اچھا چلتے ہیں۔‘‘ کلرک منہ بسورتے ہوئے ڈرائیور کی کیفیت کو سمجھ کر ٹھنڈا پڑگیا’’ گاڑی گھماؤ۔‘‘
کلرک گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی تین زخمیوں کی آہ و زاری اور ایک مردے کو اٹھا کر ہسپتال روانہ ہوگئی۔
’’ڈرائیور کو رکنا چاہیے تھا۔‘‘ کسی نے ہجوم میں سے کہا۔
’’ ایسی حالت جب نظر آرہی ہو کہ سامنے خنزیر کھڑے ہیں تو رسک نہیں لینا چاہیے۔‘‘
’’ہاں نا…. زیادہ سے زیادہ لوٹ لیتے نا…. زر اور زیور ، زندگی سے بڑھ کر تو نہیں ہیں نا؟‘‘
’’بس، رے بھیا! جب وقت پوراہوجاتا ہے تو پتہ ہی نہیں چلتا…. ڈرائیور بیچارے نے تو مسافروں کے بھلے کے لیے بریک نہیں لگائی…. لیکن تقدیر کا لکھا بھی کہاں ٹلتا ہے!‘‘
یوں یکے بعد دیگرے سب کی باتوں میں بیس منٹ گزرگئے۔ میں نے بھی جاکر سیٹ سنبھالی۔ نصف میں رکا ہوا ٹکٹ چیکنگ کا مرحلہ ازسرِنو شروع ہوا۔ دس منٹ اور بھی گزرگئے۔ ٹھیک بارہ بجے ڈرائیور نے ایکسیلریٹر پر پاؤں رکھا۔ گاڑی جب شہر کو چھوڑ کر تحصیل تھانہ کے موڑ پر پہنچی تو کانوائے کے انتظار میں ٹھہر گئی۔
پانچ منٹ بعد کراچی سے آئی بلیو لائن کوچ ہماری گاڑی کے سامنے ٹھہر گئی۔ سہمے اور پریشان چہروں والے مسافروں نے ہمیں گاڑی سے اترنے پر مجبور کیا۔ میں بھی اٹھا اور نیچے آکر لٹے ہوؤں کے درمیان میں کھڑا ہوگیا۔
’’ابا! میرے ساتھ قہر ہوگیا،‘‘ ایک ادھیڑ عمر عورت نے اپنے منہ اورگھٹنوں پر دو ہتھڑ رسید کرتے ہوئے کہا،’’ ظالم میری بیٹی کے جہیز والا بیگ سونے کے ساتھ اتار کر لے گئے۔‘‘
’’میرے پاس پانچ ہزار رُپے تھے نیفے میں چھپے ہوئے …. تلاشی لینے پر کہا، نکال باہر۔‘‘
’’میرے بازو سے گھڑی، انگوٹھی اور لاکٹ اتار کر لے گئے۔‘‘
’’ کانوائے نہیں تھا کیا؟‘‘
’’ تھا، لیکن پولیس نے پہلے دھماکوں پر موبائل کو چھوڑا اور رکھا پاؤں پر زور …. ایک تو کھیت میں ہی گھیر لیا گیا …. باقی بھاگ گئے …. پورے کا پورا برسٹ اس کی چھاتی میں اتاردیا، بچارہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔‘‘
’’ پھر؟‘‘
’’ بیس کے قریب گاڑیوں کو گھیر کر سب سے پہلے ہمیں لوٹا۔‘‘
’’ پرس میں رقم تو تھی نہیں، شناختی کارڈ تھا…. میں نے مانگا تو انہوں نے کہا کہ پوسٹ میں بھیج دیں گے۔‘‘
لُٹے ہوؤں کی روداد سن کر مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں لٹ چکا ہوں۔ جیسے جرابوں میں چھپائے ہوئے دس ہزار تلاشی کے دوران ایک ڈھاٹا بندھے ہوئے شخص کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔ میں ڈاکوؤں کو منتیں کررہا ہوں۔ انہیں کہہ رہا ہوں کہ ،’’ یہ رقم میں نے اپنا سب کچھ بیچ کر اکٹھی کی ہے۔ ڈاؤن سائزنگ کی تلوار کے سائے میں سرکاری کلرکی چھن جانے کے بعد میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں اپنی شریکِ حیات کے تولہ بھر سونے کے جھمکوں اور ماں کی بالیوں کو بیچ کر نیلامی (لنڈے) کے کوٹوں کے کاروبار سے اپنے چار بچوں اور لقوے کے مارے باپ کی زندگی کی گاڑی کھینچوں ….‘‘ لیکن میری منتوں اور فریادوں پر بندوقیں اور کلاشنکوفیں بلند ہوگئیں ہیں…. اس کے الفاظ کو گلے میں گھٹنے اور قید کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آرہا تھا۔
میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑچکے۔ خوف کا بھیانک سایہ میری سوچ پر حاوی پڑچکا تھا۔ میں لوٹ کر ڈرائیور کے آگے گڑگڑایا۔ ٹکٹ واپس لینے کی التجاکرتا رہا۔ بڑے ترلوں کے بعد پچیس فیصد کٹوتی کے بعد ملی ہوئی باقی رقم جیب میں رکھ کر رکشا والے کو سٹیشن چلنے کا کہا۔ رات کے ڈھائی بجے والی بولان میل میں جانے کا ارادہ۔
سٹیشن پہنچا تو پتہ چلا کہ کل والی ٹرین لیٹ ہونے پر ابھی پہنچنے والی ہے۔
میں نے ٹکٹ لے لیا تو گاڑی بھی کچھ دیر میں آپہنچی۔ میری خوش قسمتی کہ بغیر بکنگ کروائے سیکنڈ کلاس میں کھڑکی کے پاس ایک نشست خالی مل گئی۔
چلتی گاڑی کی رفتار سست پڑنے لگی تھی۔ آہستہ آہستہ بریک لگے۔ سامنے والی نشست پر بیٹھا عمر رسیدہ شخص پوچھتا ہے،’’کون سا سٹیشن ہے؟‘‘
’’ مشوری شریف۔‘‘
’’ اس بے گاہ وقت کون اترے گا اس غیر آباد سٹیشن پر۔ خواہ مخواہ وقت کا زیاں!‘‘
’’ شاید کوئی کراس وغیرہ ہوگا؟ اورنہ یہاں تو گاڑی کا کوئی سٹاپ ہی نہیں ہے۔‘‘
’’ کراس کے لیے بھی تو باقرانی اس سے بہتر تھا …. کم از کم آباد ی والا سٹیشن تو ہے۔‘‘
’’ہاں، کاکاجی! آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘‘ ہماری آوازوں میں ایک نوجوان کی آواز بھی شامل ہوجاتی ہے،’’ ڈاکو بھی ایسی ہی سٹیشنوں کی تاڑ میں رہتے ہیں …. قابو پانے میں بھی آسانی تو لوٹنے اور اغوا کرنے میں بھی ….‘‘
نوجوان کی اس بات پر مجھے یاد آتا ہے کچھ وقت پہلے کا واقعہ۔ پیارو گوٹھ سٹیشن۔ ڈاکوؤں کا گھیراؤ۔ ایک سو سے زیادہ لوگ یرغمال۔ فضا میں گولیوں کی آوازیں۔ لوگوں کی آہ و بکا۔ بچے کی چیخیں۔ کلاشنکوفوں کے بٹوں کا برسنا۔ لوگ بھیڑوں بکریوں کی طرح بے بس، اندھیرے میں گھسٹتے ہوئے۔
اخبارات نے لکھا،’’ جس وقت ٹرین ڈاکوؤں کے قبضہ میں آئی تو لوگوں نے چیخ چیخ کر ریلوے کے تین چار سپاہیوں، ایک حوالدار اور تھانہ دار کو مدد کے لیے پکارا، لیکن وہ اپنی ٹوپیاں ہاتھوں میں لے کر سیٹوں کے نیچے یہ کہتے ہوئے چھپ گئے کہ،’’ تم لوگوں کو وہ زیادہ سے زیادہ لوٹیں گے، ہمیں تو دیکھتے ہی ماردیں گے۔‘‘
اور پھر ہوا بھی کچھ اسی طرح۔ تمام سپاہ کو نشستوں سے نکال کر صف میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دیا گیا۔
میں ماچس کا دانہ جلا کر وقت دیکھتا ہوں۔ دوبجنے میں تین منٹ ہیں۔ کھڑکی کھول باہر دیکھتا ہوں۔ آنے والی ٹرین کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے۔
’’ دنیا چاند تک پہنچ گئی، لیکن ہمارا ریلوے کا نظام ابھی تک وہیں کا وہیں!!‘‘ پچھلی سیٹ سے کسی کی آواز آتی ہے۔
’’ پہلے اتنا تو ہوتا تھا کہ ڈبوں میں پانی شانی کی تکلیف نہیں ہوتی تھی …. آج کل لیٹرین میں جاؤ تو پانی کی بوند تک نہیں ہے۔‘‘ پہلی آواز کے تعاقب میں دوسری آواز آتی ہے۔
’’ آپ پانی کی بات کرتے ہیں…. یہاں تو جن سیٹوں پر بیٹھے ہیں، ان کی سلامتی کا بھی کوئی یقین نہیں ہے…. ہوسکتا ہے کہ ان کے نچے کا فر ش اتنا کمزور ہو کہ آپ چلتی ٹرین سے سیٹ کے ساتھ یوں غائب ہوجائیں جس طرح سال بھر پہلے ہم سے کچھ مرے تھے۔‘‘ تیسری آواز بھی شامل ہوگئی۔
’’چلتی ٹرین میں مرگئے تو جا پہنچے اپنے رب کو، لیکن شالا جلادوں کے ہتھے نہ لگیں۔‘‘
’’ ہاں، بابا! انسان انسان کے ہاتھوں لگ جائے تو …. توبہ!‘‘ سامنے والے عمر رسیدہ شخص کا جملہ گونجتا ہے۔
’’ بدامنی بھی چوٹ چڑھ گئی ہے، کیا کہیں؟ رات تو رات، دن کے وقت بھی کہیں لٹتے کٹتے ہیں تو پولیس کھڑی دیکھتی رہتی ہے، قریب نہیں آتی۔‘‘ عمر رسیدہ شخص کی آواز کے ساتھ ایک موٹی آواز بھی شامل ہو جاتی ہے۔
’’ اب تو ڈاکوؤں نے پلاسٹک کی فولڈنگ سیڑھیاں بھی لے لی ہیں… بغل میں داب کر راتوں کو گھروں کی دیواریں پھلانگ لیتے ہیں …. ٹی ٹی پسٹل تان کر گھر والوں کو بے بس کرکے، سامان کی تلاشی لیتے ہیں …. جو چیز انہیں پسند آتی ہے، گٹھڑیاں بنا کر لے جاتے ہیں…. یہ کام سوفیصد پولیس کے آشیرواد کے ساتھ ہوتا ہے…اگر وہ ان کے ساتھ ملی ہوئی نہ ہو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی کا بال بھی بیکا ہو۔‘‘
’’ہماری پولیس کوبھڑوت کھانے کی لت پڑ گئی ہے…. جرائم پر کنٹرول کرنے کے بجائے وہ خود مجرم بن کر ہمارے دکھ بڑھارہی ہے۔‘‘ایک نئی آواز بھی شامل ہوجاتی ہے۔
’’ اس سسٹم کے پیچھے خفیہ طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ وہ نہ صرف ہماری سیاست بلکہ بشمول تعلیمی نظام ہر شعبہ کو زیر و زبر کرکے ہمیں اس طرح نیست و نابود کر رہی ہیں کہ ہمارے اندر ایسی قوت ہی نہ پیدا ہو کہ حق کی آواز بلند کرسکیں۔‘‘ تقریرباز کی آواز ایک نیا پہلو اجاگر کرتی ہے۔
’’ یہ چنگاری ضیاء الحق کی جلائی ہوئی ہے…. ہیروئن اور کلاشنکوف کی مہربانیاں اس کی ہیں …. سکھر کی سنٹرل جیل بھی اسی کے زمانہ میں توڑی گئی …. خطرناک قیدیوں کو ڈاکے ڈالنے کی تربیت بھی اسی کا شاخسانہ تھا…. جانو آرائیں کے متعلق تو آپ سب نے سنا ہوگا۔‘‘ تقریرباز کے ساتھ وہی نئی آواز سننے میں آتی ہے۔
’’ سنو …. سب سنو…!! ہم وردی والوں کو بھی پہچانتے ہیں تو اپنے سیاستد انوں ، میروں، پیروں اور وڈیروں کو بھی…. سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں، جسے جہاں سے موقع ملتا ہے، وہیں سے لوٹتا ہے۔ کوئی بھی ترس نہیں کھاتا…. ڈاکوؤں کو پیدا کوئی کرتا ہے تو پال پوس کر لوگوں کو اغوا کوئی کراتا ہے اور مغویوں کو لوٹاتا کوئی اور ہے …. اب انہیں صرف کچے (دریائی جنگلی علاقہ) میں بغیر کسی کھٹکے کے ٹھکانے بنانے نہیں دیے جاتے بلکہ پکے (شہری) علاقے میں بھی ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جاتاہے …. یوں مجرموں کی ایک چین ہے جو روزبروز مضبوط ہوتی چلی جارہی ہے۔‘‘ ایک پینٹ شرٹ میں ملبوس ادھیڑ عمر کا شخص جو سامنے والی سیٹ پرخاموش تھا، اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔
اسی وقت ایک آدمی گاڑی میں اعلان کرتے ہوئے بتاتا ہے،’’ آنے والی ٹرین کا انجن باقرانی اور مشوری سٹیشنوں کے بیچ میں فیل ہوگیا ہے۔ اب جب تک لاڑکانہ سے کوئی خالی انجن آکر اس گاڑی کو یہاں تک نہیں پہنچاتا، تب تک ہماری گاڑی کا چلنا ممکن نہیں ہے۔‘‘
’’ ………..‘‘
ڈبے میں جلتے بلب کی مدھم روشنی آہستہ آہستہ کم ہو کر غائب ہوجاتی ہے۔
باہر سٹیشن کے ہر دو اطراف سے اچانک کلاشنکوفوں کی گولیاں چلنے کی آوازیں گونجتی چلی جاتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری ریل گاڑی یرغمال ہوجاتی ہے۔