(حُر ثقلین)
11 ستمبر کو امریکہ میں ہونے والے فضائی حملوں نے عالمی سیاست کا رخ اور انداز بدل دیا۔ امریکہ نے ان حملوں کے بعد عراق اور افغانستان کی سر زمین پر اپنے غیض و غضب کا بھر پور مظاہرہ کیا۔دہشت گردوں کی تلاش میں سول آبادیوں کوبھی کلسٹر بمبوں کا نشانہ بنایا۔افغانستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کی خبروں نے بھی امریکہ کو یہاں فوجی کاروائیوں کا جواز فراہم کیے رکھا۔اس وقت افغانستان میں ملا عمر کی قیادت میں طالبان کی حکومت تھی ۔وہ زیادہ دیر امریکہ کا مقابلہ نہ کر سکے اور تتر بتر ہوگئے۔اس عرصے میں بہت سے جنگجو پاکستانی علاقوں میں آگئے۔مشرف حکومت کو امریکہ کا اتحادی ہونے کی بدولت ان جنگجووں کے خلاف کاروائیاں کرناپڑی اور کچھ ایک کو امریکہ کے حوالے بھی کیا۔اس کے ردِ عمل کے طور پر ان جنگجووں نے بھی پاکستان کے اندر عسکری کاروائیاں شروع کر دی ۔طالبان یہاں بھی منظم ہوئے اور انہوں نے سوات تک کے علاقے پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔اس تمام تر صورتِ حال کے بعد ملک بھر میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافہ ہوا اور پاکستان پر خوف اور دہشت کے سائے گہرے ہوتے چلے گئے۔
پاکستانی ریاست ابتدا میں دہشت گردی کی وارداتوں کو بیرونی جارحیت ہی سمجھتی رہی اور اسے بیرونی ممالک کی جنگ قرار دیتی رہی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کی سوچ میں تبدیلی آتی گئی اور اس نے محسوس کیا کہ یہ جنگ اس کی اپنی جنگ ہے۔ اگرچہ کہ بیرونی مدد اور تعاون ضرور موجود ہے مگر یہ جنگ ملک کے اندر سے بھی لڑی جا رہی ہے۔2007 میں پہلی مرتبہ حکومت نے اپنی فوج کو سوات میں راہِ حق فوجی آپریشن کرنے کا کہا اور سوات کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کا حکم جاری کیا۔جب پاک آرمی نے ان دہشت گرد گرپوں کے خلاف مختلف آپریشن شروع کیے تب سے ہی ان دہشت گردوں کی کاروائیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ریاستِ پاکستان نے آخر ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے کا تہیہ کیا اور ملک بھر میں آپریشن ضربِ عضب شروع کیا گیا ۔ اس ضمن میں قانون سازی بھی کی گئی۔ نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی۔ پہلی بار دہشت گردوں کے سہولت کاروں پر بھی کاری ضرب لگائی گئی اور انہیں بھی دہشت گردوں کے برابر کا مجرم سمجھا گیا۔ دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے مثبت نتائج آناشروع ہوئے اور ملک میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔اس بات کا ذکر پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیزکی سالانہ رپورٹ برائے سال 2016میں بھی موجود ہے اس رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کی کاروائیوں میں2015کے مقابلے میں 28فیصد کمی دیکھنے کو ملی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق 2016میں پاکستان بھر کے 57اضلاع میں441دہشت گردی کے حملے ہوئے اور ان میں 908افراد جاں بحق ہوئے۔رپورٹ کے مطابق 50فیصد حملوں کا تعلق ٹارگٹ کلنگ یا شوٹنگ سے تھا۔دوسری طرف سیکورٹی فورسز نے بھی اپنی کاروائیاں منظم انداز میں جاری رکھیں اور ملک بھر میں 95آپریشنز میں 1418مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا۔رپورٹ میں تحریک طالبان ،جماعت الاحراراورلشکرِجھنگوی العالمی کو بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
یہ امر درست ہے کہ ملک میں مجموعی طور پر دہشت گردی کی کاروائیوں میں کمی دیکھنے کو ملی ہے مگر اب بھی صورتِ حال تسلی بخش نہیں ہے۔اس بات کی ضمانت تاحال نہیں دی جا سکتی کہ مستقبل قریب میں پاکستان دہشت گردی کی لعنت سے مکمل نجات حاصل کر سکے گا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے اب تک دہشت گردی کے اسباب کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکے ہیں۔ دہشت گردی کا براہِ راست تعلق انتہا پسندی سے ہے۔ملک میں اب انتہا پسندی زور پکڑتی جا رہی ہے۔ایک نظریے کے حامل لوگ دوسرے نظریے کے حامل لوگوں کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔نظریے،سوچ اور فکر کی بنیاد پر تشدد کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ ابتدا میں دہشت گرد کاروائیاں صرف قبائلی علاقوں اور ایک صوبے تک محدود تھیں اب ان کا دائرہ کار ملک بھر کے 57اضلاع تک پھیل چکا ہے ۔خود کش حملوں کی جگہ ٹارگٹ کلنگ نے لے لی ہے۔ریاست کی حاکمیت،قانون کی بالادستی اور ترقی کی بات کرنے والوں کو اب اغوا کرکے یا پھر براہِ راست نشانہ لے کر مار دیا جاتا ہے۔اگر ان کاروائیوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان میں اکثر لوگ اختلافِ رائے کی بنیاد پر ہی قتل ہو رہے ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں مکالمے کی روایت کو فروغ دیا جائے۔ ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھا جائے اور ان کا احترام کیا جائے۔ ہر سوچ کے فرد کو جینے کا پورا حق دیا جائے ۔اس سارے منظر نامے میں اہلِ قلم پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کی تربیت میں اپنا کردار ادا کریں ۔وزیر اعظم پاکستان نے اپنی ایک تقریر میں یہ درست کہا ہے کہ اب ملک کو ضربِ قلم کی اشد ضرورت ہے۔ اگر اہلِ قلم نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو ملک پر دہشت اور خوف کے سائے مزید گہرے ہوتے جائیں گے۔