دور نزدیک، اوپر نیچے اور درمیان کی عینک والے دانش کار مع کہانی دھوئیں کا بم
(فاروق احمد)
سوشل میڈیا پر بہت سوں کو دیکھا ہے کہ بڑے انسانی حقوق اور سچائی کے لال بھجکڑ بنتے/ بنتی ہیں اور سویلین سیاستدانوں اور حکمرانوں پر حلق پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہیں لیکن جہاں اصل حقیقی مسلح ڈی ایچ اے برانڈ مافیا کی بات آئے تو بھیگی بلی کی طرح کنی کترا کر نکل جاتے ہیں۔ حیف ہے ایسوں کی دانشوری اور گنی چنی، ناپی اور تولی سچ پرستی پر۔
گزارش ہے نوسیاستیوں، نوصحافتیوں اور دور نزدیک کی عینک لگائے لال بھجکڑ دانشوروں سے کہ دیکھیے جناب اگر آپ کو یہ گمان ہے کہ نواز شریف کے بہانے جمہوریت کے خلاف سازش نہیں ہو رہی تو آپ کی دور نزدیک، اوپر نیچے، درمیان اور دائیں بائیں کی دماغی نظر کمزور ہے۔ جمہوریت کے خلاف حاضر غائب عسکری خفیہ ادارے اور مائی باپ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی سازش تو اس قدر واضح ہے کہ مزید اب کیا ہو گی۔
لہٰذا گزارش ہے ایسے نوسیاستیوں، نوصحافتیوں اور دور نزدیک کی عینک لگائے لال بجھکڑ دانشوروں سے کہ اگر آپ یہ تسلیم نہیں کرتے تو پھر یہ بھی ماننا ہو گا کہ 1958، 1977، 1999 کے مارشل لاء کے پیچھے بھی فوجی جنرلوں اور حاضر غائب جاسوسوں کی طاقت موجود نہیں تھی۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ نواز شریف کو ہمیشہ کے لیے منظر سے غائب کر کے یہ ادارے بن باس تولے نہیں لیں گے بلکہ اس عبرت ناک انجام سے ڈرا کر آنے والوں کو بھی اپنا تابع رکھیں گے۔
لہٰذا گزارش ہے ایسے نوسیاستیوں، نوصحافتیوں اور دور نزدیک کی عینک لگائے لال بھجکڑ دانشوروں سے کہ جس جمہوریت نے آپ کو ہائیڈ پارک مارکہ چیخ پکار اور بے مہار بک بک کی آزادی دے رکھی ہے، اسی کے ہاتھوں جمہوریت کا خون مت کیجیے۔ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید مت کیجیے۔ یہ سازش جمہوریت پر فوجی تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے اور دوام بخشنے کے لیے ہے۔ احتساب اس وقت نتیجہ خیز ہوتا ہے جب سب کا مساوی احتساب ہو اور خاص طور پر ان کا ہو جن کا احتساب ممکن ہی نہ ہو۔
لہٰذا گزارش ہے ایسے نوسیاستیوں، نوصحافتیوں اور دور نزدیک کی عینک لگائے لال بھجکڑ دانشوروں سے کہ وزیراعظم اور سیاستدان مافیا نہیں بلکہ مافیا وہ ہیں جن کے خلاف آواز اٹھانے والے پرسن مسنگ ہو جاتے ہیں۔ مافیا وہ ہیں جو سیاستدان کو بلڈی سویلین کہتے ہیں اور خود کو بلڈی کہنے والوں کو ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت اٹھوا لیتے ہیں۔
لہٰذا گزارش ہے ایسے نوسیاستیوں، نوصحافتیوں اور دور نزدیک کی عینک لگائے لال بھجکڑ دانشوروں سے کہ آواز اٹھائیے تو اصل مافیا کے خلاف اٹھائیے۔ لیکن ہمارے سوشل میڈیا کے جگت باز دانشوروں اور دانشوراؤں کا مسئلہ یہ ہے کہ اصل مافیا، گاڈ فادرز اور مسلح وردی والے ٹٹؤوں سے چونکہ ٹھیک ٹھاک ’’ادھڑتی‘‘ ہے اس لیے اپنے پھکڑ پن کا مظاہرہ ان کے خلاف کر نہیں سکتے اور نہ ان کے احتساب کی کال دے سکتے ہیں نہ ہی ان کی دولت و لالچ و دھونس و دادا گیری و رسہ گیری و زمینوں پر قبضے کے خلاف شور ڈال سکتے ہیں۔
لہٰذا گزارش ہے ایسے نوسیاستیوں، نوصحافتیوں اور لال بھجکڑ دانشوروں سے کہ ایک بات اور سنتے جائیے۔ اگر آپ میں مسلح ریاستی مافیا کی لوٹ مار اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے اور طنز فرمانے کا حوصلہ نہیں ہے (جیسا کہ آپ سویلین سیاستدانوں کے حوالے سے چوبیس گھنٹے فرماتے رہتے ہیں) تو بہتر ہے کہ پھر آپ کو کسی کی کرپشن پر آواز اٹھانے کا حق نہیں پہنچتا۔ تنقید ہوگی تو سب پر ہوگی، نہیں تو کسی پر بھی نہیں۔ یہ گنا چنا اور تخصیصی احتساب اب نہیں چلے گا۔
سوشل میڈیا پر بہت سوں کو دیکھا ہے کہ بڑے انسانی حقوق اور سچائی کے لال بھجکڑ بنتے/بنتی ہیں اور سویلین سیاستدانوں اور حکمرانوں پر حلق پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہیں لیکن جہاں اصل حقیقی مسلح ڈی ایچ اے برانڈ مافیا کی بات آئے تو بھیگی بلی کی طرح کنی کترا کر نکل جاتے ہیں۔ حیف ہے ایسوں کی دانشوری اور گنی چنی، ناپی اور تولی سچ پرستی پر۔
چلو چھوڑو باقی باتیں نوزائیدہ سیاسی بچو، سنو اب کہانی ٹائم ہوگیا ہے۔ کہانی سنو اور دوسرے کان سے نکالنا مت بھولنا۔ بعد میں سونا ہے نا، کہیں ہوش دلانے والے خواب نا آ جائیں۔ یہ کہانی گمنام کراچوی نے سنائی ہیں۔ ابھی صرف گم نام ہے۔ نصیبوں والا ہے کہ لمبر ون کے ہاتھوں وسیع تر قومی مفاد میں غائب نہیں ہوا۔ چلو سنو اب کہانی:
’’دھوئیں کا بم‘‘
گمنام کراچوی
”وزیر اعظم کی بدعنوانیوں کی رپورٹیں حاضر ہیں سر۔“
میں نے فائل ڈی جی کے سامنے رکھ دی۔
ڈی جی نے رپورٹوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا
پھر ایک رپورٹ فائل سے علیحدہ کر کے بڑھائی:
”اسے پھاڑ دو … جلا دو۔ “
”لیکن یہ رقم یہاں سے پانامہ بھیجی گئی تھی …
بیٹے کے نام سے۔“ میں نے احتجاج کیا۔
”بھئی اس اکاؤنٹ سے رقم اسامہ کو دی گئی تھی ہماری
ہدایت پر … تفتیش ہوئی تو ہمارا نام بھی آئے گا۔“
پھر ڈی جی نے دوسری رپورٹ فائل سے نکالی:
”اسے بھی ہٹا دو … جلا دو۔“
”لیکن یہ تو اس پیسے کا ثبوت ہے جو ٹیکس ریٹرن
میں نہیں دکھایا گیا … اس پر تو نا اہلی سو فیصد پکی ہے سر!“
” لیکن یہ پیسہ ہم نے ہی اسے دیا تھا
عدم اعتماد کی تحریک کیلئے جب وہ اپوزیشن میں تھا …
تفتیش ہوئی تو ہمارا نام آئے گا۔“
میں کچھ نہ بولا۔ لیکن جب ڈی جی نے اسی طرح
دس گیارہ رپورٹیں مسترد کر دیں تو رہا نہ گیا:
” لیکن پھر ہم اسے عدالت سے نااہل کیسے کروائیں گے سر…
بقایا رپورٹوں کے تو مضبوط ثبوت نہیں ہیں … بنچ کے سامنے تو ہماری
رپورٹ کی دھجیاں اڑ جائیں گی …
ہم یہ جنگ ہار جائیں گے سر۔“
ڈی جی نے دھندلاچشمہ اتارا
صاف کیا پھر لگایا اور ہنکارا بھر کر کہا:
” جانتے ہو جب جنگ میں کسی محاذ پر
پسپائی ہونے لگے توکیا کرنا چاہیئے…
دھوئیں کا بم پھینک کر نکل جانا چاہیئے …
منظر دھندلا کر دینا چاہیئے۔“
(83) تراسی ویں کہاںی ان گنے لفظوں کی