ایک متناقضاتی شہر

فلم و عمرانیات

ایک متناقضاتی شہر

ایک متناقضاتی شہر

از، فرحت اللہ

فلم  ڈارک سٹی Dark City اُنیس سو اٹھانوے کی فلم ہے۔ تقریباً یکساں مناظر کے ساتھ یہ فلم دی میٹرکس (۱۹۹۹) کی پیش رَو ٹھہرتی ہے۔ کہانی سنتے ہیں فلم کی…

جان مرڈوک کی آنکھ ہوٹل کے باتھ ٹب میں کُھلتی ہے تو اُسے اپنی یاد داشت کے حوالے سے کچھ عجیب مَحسوس ہوتا ہے۔ اِس دوران فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ وُصول کرنے پر دوسری طرف ڈاکٹر شرائبر جان مرڈوک کو بتاتے ہیں کہ وہ ہوٹل سے جلد از جلد نکلیں کیوں کہ کچھ لوگ انہیں پکڑنے آ رہے ہیں۔ دریں اثنا جان مرڈوک ہوٹل میں ایک عورت کی لاش اور خون آلود چُھری بھی دریافت کر لیتا ہے۔ جان ہوٹل سے بھاگ جاتا ہے۔

یاد داشت کے مسئلے سے پیچھا چُھڑاتے ہوئے جان مرڈوک جلد ہی اپنا نام جان جاتا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی ’ایما‘ نام کی ایک بیوی بھی ہے۔ جان کے پیچھے ایک تَفتِیش کار یا سُراغ رساں بھی لگا ہوتا ہے جو سیریل کِلنگ کے سِلسِلے میں جان کو ملزم سمجھتا ہے۔

کہانی کے دوران جان مرڈوک شہر کو ایک غیر فِطری ماحول کا حامِل پاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ شَہر پر ہَمہ وقت اندھیرا یا رات چھائی رہتی ہے۔ رات بارہ بجے  کے بعد پھر سے رات کا آغاز ہو جاتا ہے اور سورج کا تو نام و نشان ہی نہیں ملتا۔ وہ یہ نوٹ کر لیتا ہے کہ لوگ صبح ہونا، دن گزارنا، اپنی پسند کی جگہوں پر شامیں گزارنا بُھول چکے ہیں۔ اسے حادِثاتی طَور سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ سب کیسے ہوتا ہے؟

رات بارہ بجے ہوتے ہی سب لوگ ’جہاں ہیں، جیسے ہیں‘ کی بنیاد پر سو جاتے ہیں۔  اور ٹھیک اس وقت کچھ عجیب سے لوگ (جنہیں فلم میں ’اجنبی’ کے نام سے جانا جاتا ہے) آ جاتے ہیں۔ جو شَہر کی تمام گھڑیوں کو پھر سے سیٹ کر دیتے ہیں۔ شہر کے گھروں، عمارتوں، گلیوں، مَحلّوں اور شاہ راہوں کا مَحلِ وُقُوع بدل ڈالتے ہیں۔ تمام لوگوں کی شناخت، یادیں اور حافِظے کو دوسرے لوگوں کے حافِظے اور یادوں کے ساتھ بدل ڈال دیتے ہیں۔ (یاد رہے لاشُعور میں، بُھول جانے والی ہر یاد،  ہر بات ایک دوسرے سے مل کر ایک تیسری صورت اختیار کر لیتی ہے۔) یعنی اُن لوگوں کی شناخت اور حافِظے بدل دیے جاتے ہیں۔ پھر یہ اجنبی چلے جاتے ہیں اور لوگ اُٹھ کر اپنی نئی یاد داشت کے مطابِق اپنا اپنا کِردار ادا کرنے لگتے ہیں۔

البتہ جان مرڈوک کو یاد آتا ہے کہ وہ ’شیل بیچ‘ سے آیا ہے۔ وہ یہ بھی تَجربہ کر جاتا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں شیل بیچ کے بارے میں معلوم ہے۔ مگر اس طرف جانے کا کہا جائے تو اُنھیں راستہ ہی نہیں ملتا۔ وہ راستے بُھول چکے ہوتے ہیں۔ (یاد داشت اور شَہر کے مَحل وُقُوع کی تبدیلی بھی فیکٹر ہو سکتا ہے!)

جان مرڈوک جان جاتا ہے کہ اُس غیر ارضی مخلوق کے پاس ما ورائی طاقت ہے۔ جس کا کسی حد تک جان خود بھی حامِل ہوتا ہے۔

ایک دن جان مرڈوک انسپکٹر کے ہاتھوں لگ جاتا ہے تو اسے جلد ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ بےقُصُور ہے اور وہ دونوں ڈاکٹر شرائبر کے ساتھ شیل بیچ ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں۔ شیل بیچ ہوتا ہے مگر ویسا نہیں، جس طرح وہ جان مرڈوک کے حافِظے میں ہوتا ہے۔ یہ ایک پینا فلیکس یا پوسٹر کی شکل صورت میں دیوار پہ آویزاں نظر آتا ہے۔  غُصّے میں آکر جان اور انسپکٹر دیوار توڑ ڈالتے ہیں۔ دیوار توڑتے ہی باہر ایک وسیع اور لا متناہی خلا نظر آنے لگتا ہے۔ اس دوران اجنبی آ جاتے ہیں جِنھوں نے ’ایما‘ کو یرغمال بنایا ہوتا ہے۔ لڑائی شروع ہو جاتی ہے تو انسپکٹر اور ایک اجنی خلا کی پہنائیوں میں گر کر گُم ہوتے چلے جاتے ہیں۔

اجنبی جان مرڈوک کو پکڑ کر شَہر کے نیچے اپنے گھر لے آتے ہیں۔ اور ڈاکٹر شرائبر سے کہتے ہیں کہ وہ جان میں اُن کی (اجنبیوں کی) میموری فیڈ کر دے۔ اجنبی سمجھ رہے تھے کہ اُن کو جان کی صورت میں اپنی بقا کا راستہ مل گیا ہے۔ ڈاکٹر شرائبر اجنبیوں کے ساتھ دھوکا کر جاتے ہیں اور جان میں اُن کی بچپن کی یادیں، شیل بیچ اور ما ورائی طاقتوں کے حامِل اجنبیوں کے بارے میں مکمل معلومات فیڈ کر دیتے ہیں۔ جان جاگ کر اجنبیوں کے ساتھ بِھڑ جاتا ہے۔ اور اُن کے لیڈر مسٹر بُک کے ساتھ شہر کے اوپر لڑائی میں شِکست دے دیتا ہے۔

اپنی ما ورائی قوتوں کے ذریعے جان شیل بیچ اور سَمُندر کو تخلیق کر دیتا ہے۔ اور شہر کو پہلی بار طلوعِ آفتاب کا منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔

اب آتے ہیں فلم کے عَلامَتی مزاج کی کھوج لگانے…

۱: اس فلم کا مزاج بھی اپنے اپنے اندر ‘تَحدید اور مُعاشرتی تفویضات کا بوجھ لیے ہوئے ہیں۔ جان مرڈوک ایک ایسے عمل سے آشنائی حاصِل کر لیتا ہے جس میں مُعاشرے کی اِکائیوں کو کِردار تَفویض کیے/ سونپے جاتے ہیں۔ روز مرہ کی بنیاد پر کیے گئے اعمال کی بنیاد پر اگلے روز تک نئے کردار تفویض کیے جاتے ہیں، جنہیں بِلا چُوں چَرا کیے اپنا لیا جاتا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جب آپ کا واسطہ ‘اَقدار کی صُورتوں میں غیر ارضی یا ماورائی قوتوں’ سے ہو۔ جِنہیں آپ دیکھ نہیں پاتے اور جن کے تَحرُّک کے بغیر معاشرہ آگے نہیں بڑھ پاتا۔ یہاں اس شہرِ تاریک میں سِیاہ قدروں کی موجودگی ‘شُعُور کے سورج’ کو مَعدوم کرتا ہے اور زندگی کی روانی (سَمُندر) کو نظروں سے اوجھل اور یاد سے محو کر دیتا ہے۔ جہاں ‘جاننے کا یقین مگر یقین کا یقین ممکن نہیں‘ ہو پاتا۔

۲:  ہیرو کے گھر کے ٹب میں موجود پانی ’مُتَنوّع پانیوں یعنی سَمُندر کی یاد‘ بن کر سامنے آتی ہے۔ اس حقیقت کا لا شُعوری اظہار کہ زندگی تَحرُّک و روانی کا نام ہے۔ یہ ’فردیت کے عمل کےلیے ضروری مواد‘  کی عَلَامَت ہے۔

۳: عوامی حَمّام کا تالاب ‘مشترک عناصر کی تَحدید’ بن کر سامنے آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حَمّام سماجی زندگی کے مشترک عناصر کا اِستِعارہ ہے۔

۴: ‘جہاں چاہ، وہاں راہ’ کے مَماثِل ہیرو اپنی قوتِ اِرادی اور سچّائی جاننے کی نا قابلِ شکست خواہش کے بَل بُوتے پر دیوار (سماجی تَحدِیدی رکاوٹ) میں دروازہ یعنی راہ نکال لیتا ہے۔

۵: ایک سابقہ پولیس تَفتیش کار ’ایڈی‘ طوائفوں کے قتل (اگر عورت کو نظریہ مانا جائے تو طوائف ایک مُکمّل کُھلا ڈُلا نَظریہ بن کے ظاہر ہوتی ہے، جن کی کسی بھی بند سَماج میں کوئی جگہ نہیں ہوتی، سمجھیے کہ روا داری کی بند سَماج میں گنجائش نہیں ہوتی۔) کے مسئلے پر تَفتِیش کر کر کے آخرِ کار اس نَوکری سے یہ کہہ کر ہاتھ اُٹھا لیتا ہے کہ یہاں کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ یہاں آپ محض گول گول گھوم سکتے ہیں اور بس! یہ کیس سماج کے رَوایتی حُدود کی تنگ نظری کو سامنے لاتا ہے اور منطِق کی زبان میں ‘مُغالَطۂِ جامع حدِّ اکبر’ کی عَلامَت بن جاتا ہے۔ (یہ لفظ علمِ منطق سے تعلق رکھتا ہے۔ انٹر نیٹ پہ تفصیل چیک کیجیے۔)

۶: جب تاریکی کا نمائندہ پوچھتا ہے کہ مرڈوک کا رَویّہ نارمل کیوں نہیں؟ تو ڈاکٹر ‘شرائبر’ بتاتے ہیں۔ ”کیا پتا، وہ زیادہ ایڈوانسڈ ہو!  گاڈ کا بنایا ہو ایک غیر عُمومی شخص ہو اور سروائیو کرنا سیکھ رہا ہو!“

یہاں دیکھا جائے تو ہمیں بابائے نفسیات سِگمنڈ فرائڈ کے مُنھ بولے بیٹے اور شاگِرد اٹو رینک کا نظریۂ فن کار یا تھیوری آف آرٹسٹ یاد آ جاتا ہے۔ جس کا ما حَصَل یہ ہے کہ کچھ لوگ پَیدا ہی آرٹسٹ ہوتے ہیں۔ وہ موجود سے مُطمئِن نہیں ہوتے۔ حاضِر کے بجائے غیر حاضر کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جوابات پر سوال اُٹھاتے ہیں۔ مُترادِفات کے فرق ڈھونڈتے ہیں۔ یکسانیت کے جگہ تَنَوُّع کے دِل دادہ یہ لوگ خُود کو سَرحدوں کے پابند نہیں سمجھتے۔ ’ہے‘ کو نا کافی سمجھتے ہوئے ’چاہیے‘ کی طرف دُھول اُڑاتے ملتے ہیں۔  یہاں کے بجائے وہاں کی بات کرتے ہیں۔

وہاں کوئی نہیں تو خوامخواہ اب

وہاں کے دِید کی لَت لگ گئی ہے!

در اصل جان مرڈوک ایک آرٹسٹ ہی ہے۔ ایک آرٹسٹ جو مِس فِٹ بھی ہو سکتا ہے، دانِش ور بھی، آؤٹ سائیڈر بھی اور باغی بھی۔ ہیرو بھی آرٹسٹ ہی ہوتے ہے جو سماج کو  عُمومیت سے عَینِیّت (آئیڈیئلِزم) کی طرف لے جانے والا فیکٹر ہوتا ہے۔ یہ ٹائپ ہمیشہ اپنے اندر ایک گُھٹن پالے رکھتی ہے، جیسا کہ ایک بار جان مرڈوک سے کہا جاتا ہے:

”لگتا ہے کہ تم اپنے unpleasant nature کے بارے میں سب کچھ جان چکے ہو!“

۷: ہیرو کی چیزوں اور ماحول میں بدلاؤ لانے کی خوبی کو ڈاکٹر شرائبر ‘creation’ بتاتا ہے جو creativity کی نسبت سے ’آرٹسٹ یا غیر عُمومی شخصیت‘ کی پہچان ٹھہرتی ہے۔ تخلیق کا عمل تشبیہ، اِستِعارے، عَلامَت یا پھر دیو مالا  کے تَوَسُّط سے سامنے آتا ہے۔

شَہر کی عمارتوں کو گول، چکّر دار بُھول بُھلیّوں کی شکل میں تَرتیب دیا جاتا ہے۔ یہ ہمیں فلم اِنسپشن  Inception کی بھی یاد دِلاتی ہے جس میں مفعول (فِںشر) کے لیے خوابوں کا ڈیزائن بھی گول، چکّر دار بنایا جاتا ہے تا کہ وہ گول گول گھومتا رہے۔ یعنی حقائِق سے دور رکھنے کے لیے  دائرہ ہی بہترین شکل ہے۔ بندہ گول گول گھومتا رہے اور سفر ختم ہونے کا نام نا لے۔ سو ایک نہ ایک دن بندہ ہار مان کر ہی رہ جائے گا۔


یہ بھی ملاحظہ کیجیے:  لطف اندوزی کے ذرائع اور انسان  از، منزہ احتشام گوندل


اِس فلم میں کئی بار بتایا جاتا ہے کہ شَہر سے کوئی بھی نہیں نکل پا رہا۔ آخر کے مناظر میں دِکھایا جاتا ہے کہ شَہر بُھول بُھلیّوں کی صورت بنایا گیا ہوتا ہے۔ یہ کِسی بھی سماج کے ڈھانچے جیسا ہوتا ہے، جِس سے آپ با آسانی نہیں نکل سکتے۔ یہ در اصل دائروی یا گول حرکت کی بھی عَلامَت ہے۔ مطلب یہ کہ آپ جسمانی/فِزیکلی نکل بھی جائیں تو بھی سَماج آپ کی عادات کی شکل میں آپ پہ حاوی ہی رہتا ہے۔ سَماج  رسم و رواج اور مَعمُولات کی صُورت میں آپ کو ایک خاص طرح کے سانچے میں ڈَھالتا ہے۔ یہ عمل مذہب میں بھی عبادات و رسوم کی صورت میں جاری ساری رہتا ہے۔

گول حرکت اور خطِ مستقیم میں حرکت کے بارے میں اوّلین بار ہم مذہب میں پڑھتے، سنتے ہیں۔ الہامی مذاہب کے مطابق وقت خطِ مستقیم میں حرکت کرتا ہے۔  وقت کا آغاز و انجام ہے۔ لہٰذا حیات بعد الموت کے نظریات اخلاقی رَوایت کی بِناء ڈالنے اور کمزوروں کو نفسی سہارا دینے کے لیے سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح کائنات کے دائمی اور قدیم  (فلسفیانہ زبان میں کہیں تو آغاز سے ما ورا) ہونے پر اتفاق کرنے والے وقت کے دائروی حرکت پہ یقین رکھتے ہیں۔ اس طرح حیات بعد الموت کے بجائے ایک زندگی بار بار مختلف صورتوں میں سامنے آتی ہے۔ یوں آواگون یا تَناسُخ کا نظریہ جڑ پکڑ لیتا ہے۔

یہاں چکّر دار شَہرِ تاریک سے نکل بھاگنے کی کوششوں کو تقدیر کے خلاف جنگ، مادیت کے جبر سے فرار کی کوشش بھی ٹھہرائی جا سکتی ہے۔

۸: بعض اوقات تاریکی کے نُمائندے یا اجنبی ’لا شعور اور جِبِلّتوں‘ unconscious and instincts  کا اِستِعارہ بن کے سامنے آتے ہیں جب وہ بتاتے ہیں۔

”اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس شہر کی میموریز، مُختلِف اَدوار اور مُختلِف ماضیوں کو چُرا کر حاصل کی گئیں ہیں اور بعد میں سب کو ایک کر دیا گیا ہے اور اس پر اپنا hold کر لیا گیا ہے۔ ہر رات ہم اسے تبدیل کرتے ہیں، اسے کیریکٹرائزڈ کرتے ہیں کچھ سیکھنے کے لیے… تمہارے اورتمہارے ساتھ رہنے والوں کے بارے میں… وہ کیا چیز ہے جو تم لوگوں کو ‘انسان’ بناتی ہے؟“

یہ عمل جسے اجنبی لوگ ٹیونِنگ کہتے ہیں، اصل میں اجنبیوں کے تجربات ہیں انسانوں پر کہ وہ کس طرح مختلف طرح کے حالات اور مواقع پر اپنا وجود برقرار رکھتے ہیں؟

۹: جب ہیرو محض ہاتھ لگاتے ہی شیشہ توڑ دیتا ہے تو ہمیں فلم ڈائیورجنٹ  Divergent کا ایک مکالمہ یاد آجاتا ہے۔ ”ڈونٹ لیس اس طرح شیشہ نہیں توڑتے۔“

ہم جانتے ہیں کہ شیشہ/آئینہ ’مِعیار‘  کا اِسِتعارہ ہے۔ پَشتو کے لا شُعوری عناصر کے وُفور کے حامِل ایک شان دار شاعر  سیّد شاہ سعود کے ایک شعر کا مفہوم کُچھ یوں ہے کہ آئینے میری بنتی بِگڑتی تصویر دیکھ کر حیران ہیں۔

نئے مِعیارات کی تخلیق اور پرانی رَوایات میں ترمِیم کی یہ قوت ’غیر عمومِیّت‘ کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ تاریکی کے نمائندوں (لا شُعوری قوتیں/پیراسائیکالوجی کے سبجیکٹ) میں بھی یہ خوبی ہوتی ہے مگر وہ سمجھنے سے قاصِر رہتے ہیں کہ ان قوتوں میں انسانی خوبیاں کب دَر آتی ہیں؟

۱۰: ڈاکٹر شرائبر بتاتے ہیں..

”..در اصل ‘وہ’ پانی کو بر داشت نہیں کر سکتے، یوں کہہ لو کہ وہ پانی سے ڈرتے ہیں۔“

یہاں ہم جان جاتے ہیں کہ پانی کو اگر زندگی کی علامت، سمُندر کو غیر مُعَیّنہ، لا مَحدود اور بے تَناظُر زندگی کی عَلامَت مان لیں تو یہاں اس فلم میں، تاریکی کے نمائندے بیک وقت لا شُعور، جِبِلّتوں اور سَماج کے غَیر مُتحرّک اَقدار کی تَجسیم کو نِبھا رہے ہیں۔ یعنی اَقدار کی پرسونیفیکیشن ہو جاتی ہے۔

۱۱: ڈاکٹر شرائبر، مرڈوک اور ایک تَفتِیش کار، ایک کَشتی میں بیٹھ کر تاریکی کے مرکز کی طرف جاتے ہیں۔ غور کیجیے ایک نفسی معالج، ایک تَفتیش کار اور ایک آرٹسٹ ایک کَشتی (جنہیں ہم persona کہہ سکتے ہیں) میں اکھٹے گہرائیوں کی کھوج میں نکلتے ہیں۔ کیا یہ تینوں کردار ایک ہی کردار تو نہیں؟  بالکل ’دَ گِیوَر‘ کے جوناس اور اَشَر کی طرح… بلا شُبہ یہ تینوں ایک ہی کردار ہے۔ ڈاکٹر ایک فرد کی وہ صورتِ حال ہے جس کی مدد سے وہ فرد ماحول کے بیماری (سماج کے تحدِیدی مسائل) کے ساتھ مُفاہمت یا مخالفت کا رَویّہ اختیار کرتا ہے۔ تَفتِیش کار ایک فرد کا تَجسُّس ہے جو کبھی کبھار تھک ہار جاتا ہے اور ’کوئی راستہ نہیں ہے‘ کا اعلان کر دیتا ہے۔ ہیرو (جان مرڈوک) وہ ہے جو آخرِ کار اپنے فن کارانہ مزاج کے طفیل نئے پن کو تخلیق کرتا ہے۔

۱۲: راستے میں وہ شَہر کے آخر میں واقع ایک دیوار تک پہُنچ جاتے ہیں۔ جس پر سَمُندر کی تصویر (ہیرو کے سَماج کی زندگی کی فرضی وُسعت) لگی ہوتی ہے، ایسی تصویر ہر سَماج کے گلی مَحلے،  کونےکھدروں میں لگائی جاتی ہے تاکہ بہلاوے کا سامان پیدا کیا جا سکے۔ دیوار، جس کو گرایا جاتا ہے اور جسے پھاڑ کر، دیوار میں سوراخ کر کے لا مَحدودیَّت کا سامنا کیا جاتا ہے۔ اور جس میں تَفتِیش کار گُم ہو جاتا ہے۔ یہ شَہر بھی، جب پہلی دفعہ یہ باہر سے دکھائی دے جاتا ہے تو، گول چکّر دار بھول بھلیوں پر مُشتمل اور چار دیواری میں مَحصور ہوتا ہے۔ یہاں ہمیں فلم The Truman Show  کے گنبد میں مَحصور شَہر اور ‘ڈائیورجنٹ’ میں شَہر کے گرد گول چار دیواری سے باہر نکلنے کا منظر یاد آ جاتا ہے۔

اس کے ساتھ فلم ’دَ گِیوَر‘ کے سوسائٹی کے باہر کے حُدود کی بھی یاد آ جاتی ہے۔ اسی طرح یہ ‘گیارڈانو برونو’ کا ‘لُوکریشیئس’ کی مَمنُوعہ کتاب کے زیرِ اثر ایک مشہور خواب کی یاد دِلاتا ہے، جس میں وہ دیکھتا ہے کہ دنیا ایک چَھتری نما پردہ ہے، جس پر چاند، سورج اور تارے بنے ہوتے ہیں۔ اور جِس کے نیچے وہ بیٹھا ہوا ہوتا ہے۔  وہ ہاتھ بڑھا کر چھتّر کے کپڑے کو انگلیوں سے مَحسوس کر کے اوپر اٹھا دیتا ہے تو وہ لا مَحدود کائنات کا سامنا کرتا ہے۔

۱۳:  آخرکار جب تاریکی کی نمائندہ قوتوں پر فتح پائی جاتی ہے تو شہر کے نئے نقشے اور مَحلِ وُقُوع میں ایک وسیع اور  تا حدِّ نظر سَمُندر بھی شامِل ہو جاتا ہے۔ در اصل یہ لا شُعوری اعمال و افعال سے نکل کر شُعور کی سطح پر زندگی کے دو پہلو دیکھنا ہے:

(۱) سماج کی لگی بَندھی زندگی

(۲) سماج کی لگی بَندھی زندگی کےلیے سَمُندر کے تقابُل اور موازنے سے معنویت حاصل کرنا۔

یوں ‘شَہرِ تاریک’ کو بھی زندگی کے حقیقی معنی کا اِدراک اور شُعور کا سورج دیکھنا نصیب ہو جاتا ہے۔

۱۴:  نیپچون کنگڈم: نیپچون نامی سیارہ نظامِ شمسی کے سیارگان میں آٹھویں نمبر پر آتا ہے۔ یہ نام اُس رومن دیوتا کا تھا جو سَمُندر اور پانیوں کا دیوتا تھا۔ جو عَیّاری، نَحُوست، خواب کی دنیا، غیرحقیقی پن اور تحت شُعور کی عَلامت ہے۔ اس سے بھی یہ علم ہوتا ہے کہ فلم میں اجنبی کے نام سے سامنے آنے والی مخلوق تحتِ شُعور ہی کے خیالات یا پابندیوں کا اِستِعارہ ہے۔ آٹھ نمبر بذاتِ خود عِلمُ الاعداد کے مطابق دوام یا دائرے کی نمائندگی کرتا ہے۔ سو نیپچون کی سلطنت (تحت شُعور اور لا شُعور کی تاریک دنیا) سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ اس لیے نہیں مل رہا تھا کہ یہ شَہر دائروی ساخت رکھتا تھا اور جو گمراہ کن اور غیر حقیقی بھی تھا۔

آخر میں کہہ سکتے ہیں کہ پورا شَہر ایک دماغ یا ذہن تھا۔ جان مرڈوک، ڈاکٹر اور تفتِیش کار (تین قوتوں پہ مشتمل ایک خیال)  اِس دماغ یا ذہن سے باہر نکلنے اور اسے تبدیل کر دینے والا خیال تھا۔ پانیوں کے منحوس دیوتا کی اقلیم سے ہی سَمُندر جاری و ساری ہو جاتا ہے۔