(شازیہ نیئر)
قندیل بلوچ کو قتل کر دیا گیا۔ عین اس وقت جب پاکستان کا پورا میڈیا ترکی کی صورتحال پر خصوصی نیوز بلیٹن چلا رہےتھا۔ اچانک ایکسپریس نیوز پر بریکنگ کارڈ بدلا اور محسوس ہوا کہ شاید میری آنکھوں کو دھوکہ ہوا ہے۔ لہذا اپنے ساتھ بیٹھے کولیگ سے کہا دیکھو ایکسپریس کیا چلا رہاہے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اور پھر جب ملتان کے نمائندے نے خبر کی تصدیق کی تو نا جانے کیوں دل کہیں ڈوبتا سا محسوس ہوا ۔ لیکن وجہ قندیل بلوچ نہیں تھی ۔
وجہ معاشرے کی یہ سوچ تھی کہ آخر غیرت صرف عورتوں پر ہی کیوں لاگو ہوتی ہے۔ پاکستان میں آج تک غیرت کے نام پر صرف عورت ہی کیوں قتل ہوتی رہی ہے؟ قندیل بلوچ کے گھر اسی باغیرت بھائی کے پیسے مانگنے پر دو روز قبل جھگڑا بھی ہوا تھا، جب قندیل بلوچ نے اسکی منہ مانگی رقم دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اسوقت اس با غیرت بھائی کی غیرت کہاں تھی۔
آج تک جب یہ بقول اس کے بھائی کے بے غیرت بہن ضرورتیں پوری کرتی رہی تب غیرت کہاں سو رہی تھی۔ ہمارے ملک میں کتنی اور قندیلیں اس نام نہاد غیرت کے نام پر بجھا دی جائیں گی؟ ہم کب تک اس خوف میں زندگی گزاریں گے کہ پتا نہیں کب شوہر، بھائی اور باپ کی غیرت جاگ جائے اور وہ ہم سے زندہ رہنے کا حق ہی چھین لیں۔ آج تک کیوں غیرت کے نام پرکسی مرد کو قتل نہیں کیا جا سکا۔ کیوں اس غیرت کو صرف عورتوں تک محدود کر دیا گیا ہے یا غیرت مردوں کے لئےنہیں ہے۔
کتنی خواتین ہر روز اس با غیرت معاشرے میں باہر نکلتے ہوئے خوف کا شکار رہتی ہیں۔ کیا آپ نے کسی مارکیٹ میں، کسی چوراہےپر، یا کسی کالج، یونیورسٹی کے باہر کسی عورت کو کسی مرد پر آوازیں کستے ہوئےدیکھا ہے؟ کیا کبھی کسی عورت نے مارکیٹ میں راہ چلتے مرد کو چٹکی کاٹی یا آنکھ دبائی ؟کیا کبھی کوئی عورت کسی مرد کے پاس سےگزرتے ہوئے ماشاءاللہ بول سکی؟ کیا کبھی کسی عورت نے کالج سے لےکر گھر تک کسی مرد کا پیچھا کیا اور سیٹیاں بجائی؟
اگر نہیں تو پھر پاکستان میں غیرت کے نام پر آج تک صرف عورت کیوں؟ اپنے حق کے لئے وہ نہتی لڑتی رہی۔ راستہ غلط تھا تو اس میں بھی کوئی تو قصور وار تھا۔ قندیل کا اپنا قصور تو نہین تھا۔ یہی معاشرہ، جسے ہم فخر سے اسلامی اور پاکستانی کہتے ہیں اسی معاشرے کی بے حسی ، بے توجہی، اور سرد مہری نے قندیل کو اس راستے پر ڈالا۔ اپنا مطلب پورا ہونے کے بعد کیوں غیرت جاگتی ہے۔ یہ غیرت اس وقت کیوں نہیں جاگتی جب کوئی باعزت طریقے سے زندگی جینا چاہتا ہےاور اس کے لئے راستے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ یہ غیرت اس وقت کیوں نہیں جاگتی جب کوئی اپنا جائز حق مانگے تو اسے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہم ذمے دار ہیں قندیل کے قتل کے۔ جب وہ کام کے لئے ٹھوکریں کھاتی رہی تو کسی نے اسے کام دینے کی حامی نہیں بھری۔ سوشل میڈیا پر اگر اس نے سہارا لیا تو بھی اس کے لئے زندگی تنگ کی جاتی رہی۔ ہم جج بن چکے ہیں۔ کوئی کس مجبوری میں زندگی گزار رہا ہےاس بات سے قطع نظر ہمیں صرف وہ دکھائی دیتا ہےجسے ہم خود ٹھیک سمجھتے ہیں۔ ہم صرف اس نظر سے دوسرے کو دیکھتے ہیں جس نظر سے ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ کبھی سچ جاننے کی کوشش تک نہیں کرتے۔
دعا ہے اللہ قندیل کا اگلا سفر آسان کرے۔ اور پاکستان میں کسی اور فوزیہ عظیم کو قندیل نہ بننا پڑے اور نہ ہی اس طرح کسی کی غیرت جاگے کہ کوئی اور قندیل بجھ جائے۔
میں صرف یہ کہوں گا کہ میرے نزدیک غیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ جس شخص کو زیادہ غیرت آتی ہے وہ خود اپنے آپ کی جان لے لے نا کہ دوسرے کی۔۔۔۔