بیٹی
از، منزہ احتشام گوندل
ہم نے ہمیشہ بر صغیری سماج کے اندر بیٹی کے معاملے میں رونے پیٹنے کی باتیں ہی کی اور سنی ہیں۔ اس طرف بہت کم دھیان دیا ہے کہ آخر اس رویے کی وجہ کیا ہے۔ یقیناً ہر رسم اور رویے کے پیچھے ایک وجہ ہوتی ہے۔ کیا وہ واقعی بیٹی کو بوجھ سمجھتے تھے اور اب تک سمجھتے آ رہے ہیں یا بیٹی کے ساتھ ان کی جذباتی قربت زیادہ نازک اور حساس ہے کہ کسی ایک بیٹی یا بہن کی زندگی کا برا تجربہ انہیں یہ گریز کا رویہ اپنانے پر مجبور کرتا رہا ہے اس طرف بہت کم ہمارا دھیان گیا ہے۔
ہم چار بہنیں ہیں اور ہمیں اپنے دو بھائیوں کے مقابلے میں والد صاحب سے ہمیشہ زیادہ محبت اور شفقت ملی۔ ہمارے ابو جی سے پہلے ہمارے دادا جی اور نانا ابا کا تعلق اپنی بیٹیوں کے ساتھ اتنا قریبی نہ تھا۔
والدہ اور پھپھیوں کے بقول ان کے والد بیٹیوں سے قدرے فاصلہ بنا کے رکھتے تھے۔ اس فاصلے کے پیچھے ایک جذبہ تھا کہ یہ “پرایا مال” ہے۔ کسی دوسرے گھر کی امانت ہے۔ جسے ہمیشہ اپنے پاس نہیں رکھنا، ایک نہ ایک دن اچانک کسی کو تھما دینا ہے۔ اس ہستی کے ساتھ کیا دل لگانا جس نے کسی اور کے در و دیوار کی رونقیں بڑھانی ہیں، جب امانت دار کو امانت سونپنے کا مرحلہ آئے گا تو آ سان ہو جائے گا۔
یہ گریز کا یا سرد مہری کا رویہ اختیاری ہوتا تھا، اس دور کے باپوں نے شاید ہی کبھی اپنی لختِ جگر کو نظر بھر کے دیکھا ہو، یا ان کے ساتھ بیٹھ کے گفتگو کی ہو، لیکن جب وہ بیٹیاں بیاہی جاتیں اور مقدر کے لکھے ان کے ساتھ کوئی انہونی بیت جاتی تو یہ باپ تھے جو جڑ سے اکھڑ کر گرتے درخت کی طرح ڈھہہ جاتے اور سنبھل نہ پاتے۔ حالاں کہ زندگی کے بہاؤ میں بیٹوں کے لیے زیادہ گرداب ہیں۔ لیکن بیٹے کے متعلق شعوری طور پر اس کلیے کو تسلیم کیا جا چکا ہے کہ وہ پیدا ہی حالات کا اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہوا ہے۔ لیکن بیٹی کے لیے ایسا کوئی نہیں سوچتا۔
بیٹی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوتی بَل کہ وہ تو جھونپڑی والے کے گھر میں بھی شہزادی بن کے اترتی ہے جس کے مستقبل کے ساتھ ماں باپ کے بڑے سہانے خواب جڑے ہوتے ہیں اور جب یہ خواب بھیانک واہموں اور خدشوں میں بدلتے ہیں تو بیٹی کا ہونا ایک دکھ بنتا چلا جاتا ہے۔
یہ ریپ بھی ہو سکتی ہے؟
اگر اسے طلاق ہو گئی تو؟
یہ بیوہ ہو گئی تو؟
اسے برا سسرال ملا تو؟
شوہر اسے مارنے پیٹنے والا ہوا تو؟
ایسے اور کتنے ہی بھیانک خدشات ہیں جو نہ جانے ہر باپ کے ذہن میں کبھی نہ کبھی آتے ہوں گے اور وہ کانپ اٹھتا ہو گا۔ اسی کارن ہمارے پنجابی باپ جب گھر میں بیٹی پیدا ہوتی تھی تو برے کام کرنا چھوڑ دیتے تھے۔ اس کے پیچھے یہی سوچ ہوتی تھی کہ اپنے کیے کی سزا کل کلاں بیٹی کو نہ ملے۔
آج کے زمانے میں جب کہ معاشرہ لڑکی کی کوشش کو تسلیم کر رہا ہے تو یہ خوف کسی قدر کم ہونا شروع ہو گیا ہے۔ جب سے بیٹوں کی طرح زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے بیٹیوں کی جد و جہد کو بھی شعوری قبولیت ملی ہے باپوں کے دل بیٹی کے معاملے میں اتنے ڈرے سہمے ہوئے نہیں رہے کہ انہیں ساری عمر ریا کاری اور ادا کاری میں گزارنی پڑے۔ وہ اپنی بیٹیوں کو وقت دیتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں آ نکھیں ڈال کے بات کرتے ہیں۔ ان کے بہترین دوست ہیں۔ اور اگر بیٹی کسی چیلنج سے گزرتی ہے تو ایسے تیورا کر نہیں گرتے۔
یہ والے باپ بہت خوب صورت ہیں۔
لیکن وہ والے بھی کچھ کم خوب صورت نہیں تھے۔