بیٹی بوجھ کیوں بن جاتی ہے
(سفیراللہ خان)
بیٹیوں کے بارے میں دو باتیں ہر کسی کی زبان پر ہوتی ہیں: ‘بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں، جتنی جلدی اتر جائے اچھا ہے’ اور ‘ بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں’۔
ہم اپنے بزرگوں کے ان اقوال پر ایمان لائے ہوئے ہیں اور ہم نے کبھی بھی ان خیالات کو پرکھنے کی کوشش نہیں کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بیٹے اور بیٹی دونوں کی جسمانی و ذہنی صلاحیتیں کم و بیش ایک جیسی ہوتی ہیں تو پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بیٹا تو سہارا بن جاتا ہے مگر بیٹی ہم پر بوجھ بن جاتی ہے اور ایسا کیوں ہے کہ برصغیر میں تو بیٹی بوجھ ہوتی ہے مگر مغربی ممالک میں بیٹی بھی اتنا ہی سہارا ہوتی ہے جتنا کہ بیٹا؟
اگر ہم تھوڑا سا غور اس بات پر کریں کہ ہم بیٹے اور بیٹی کی پرورش میں کیا فرق روا رکھتے ہیں تو ہمیں خود ہی یہ بات سمجھ آجائے گی کہ بیٹیوں کو ہم خود بوجھ بنا دیتے ہیں۔ اگر ہم بیٹے کی پرورش بھی ویسے ہی کریں جیسے بیٹی کی کرتے ہیں تو وہ بھی ہم پر بوجھ بن جائے گا۔
ہم بیٹی کو گھر سے نکلنے نہیں دیتے؛ اپنی مرضی سے کچھ بھی کرنے نہیں دیتے تو اس میں خود اعتمادی، اپنے ماحول سے آگاہی اور قوت فیصلہ کیسے پیدا ہوگی۔ چنانچہ نہ تو وہ خود سے ہسپتال جا سکے گی، نہ سکول، حتیٰ کہ وہ اس قابل بھی نہیں ہوتی کہ بینک جا کر بجلی کا بل ہی جمع کرا آئے۔
بیٹے کی ہم حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ یہ سارے کام کرے کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اس کے کرنے کے کام ہیں۔ چنانچہ بیٹا باہر کے سارے کام تو کر سکتا ہے مگر اپنے لئے ایک انڈا نہیں تل سکتا۔ بیٹا اگر گھر میں بیٹھے تو ہم اس کو ڈانٹ دیں گے۔ زبردستی گھر سے باہر بھیجیں گے۔
بیٹی گھر سے باہر جانا چاہے تو ہم اسے نہیں جانے دیں گے۔ بلکہ اسے ڈانٹ ڈپٹ کر گھر بٹھا دیں گے۔ حد یہ ہے کہ ہم یہ سب اس کی حفاظت کے نام پر کرتے ہیں حالانکہ گھر سے باہر کی دنیا میں خطرات ایک لڑکے کے لئے بھی اتنے ہی ہیں جتنے لڑکی کے لئے۔ آپ کے بیٹے کے ساتھ بھی باہر کئی طرح کا ظلم ہو سکتا ہے حتیٰ کہ جنسی تشدد بھی۔ لیکن بیٹے کی جنسی زندگی کے ساتھ خاندان کی عزت اور غیرت وابستہ نہیں ہوتی چنانچہ بیٹے کے معاملے میں یہ چیزیں برداشت کی جا سکتی ہیں شاید۔
بیٹی کی جنسی زندگی کے ساتھ ہم نے اپنی عزت جوڑ لی ہے لہٰذا اس کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ مگر اس حفاظت کے نام پر ہم اپنی بیٹی کو کمزور بناتے چلے جاتے ہیں کیوں کہ ہم اسے اس قابل نہیں بناتے کہ وہ اپنی حفاظت خود کر سکے بلکہ ہم اس کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے سر لے لیتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم ہمیشہ (ساری زندگی) اس کے ساتھ اس کی حفاظت کے لئے نہیں رہ سکتے۔ اگر ہم اسے اپنی حفاظت کےقابل بنا دیں تو وہ زیادہ محفوظ ہو جائے گی۔
اس کی ایک اور وجہ غیرت کا ایک نامعقول تصور بھی ہے۔ مرد سے معاشرہ یہ توقع کرتا ہے کہ وہ غیرت مند ہوگا اور اپنی بہن/بیوی/بیٹی کی طرف اٹھنے والی آنکھ نکال کر رکھ دے گا۔ غیرت کا یہ معیار بہت سخت ہے اور زیادہ تر مرد یہ کام نہیں کر سکتے (کیونکہ آنکھ نکالنے کی صورت میں اس کا ردعمل بھی آئے گا۔ ہمارے قبائلی سماج میں نسل در نسل جنگیں اسی لئے چلتی تھیں)۔
چونکہ میں اتنا ‘دلیر’ نہیں ہوں کہ کسی کی آنکھ نکال سکوں، لہٰذا ایسی کسی ممکنہ صورت سے بچنے کا ایک محفوظ طریقہ یہی ہے کہ میری بہن، بیوی، بیٹی گھر سے باہر ہی نہ نکلے۔ نہ وہ گھر سے نکلیں گی، نہ کوئی انہیں تنگ کرے گا اور نہ مجھے کسی کی آنکھ نکالنی یا ہاتھ توڑنا پڑے گا۔ میرے مرنے کے بعد اگر انہیں نکلنا پڑا تو میں سماج کا طعنہ سننے کے لئے موجود نہیں ہوں گا۔
اس ساری صورت حال کا حل یہ ہے کہ ہم تھوڑے سے بے غیرت ہوجائیں۔ اپنے گھر کی خواتین کی حفاظت ضرور کریں مگر اس کا بہتر طریقہ ہے کہ ان کے ساتھ کھڑے ہوں (ان کے آگے نہیں)۔ انہیں خود سے سب کچھ کرنے کا موقع دیں۔ انہیں پتہ ہو کہ ریل کا ٹکٹ کیسے بُک کرانا ہے، بینک میں اکاؤنٹ کیسے کھلوانا ہے، ہسپتال میں ڈاکٹر سے ملاقات کا وقت کیسے لینا ہے وغیرہ۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر کوئی مرد انہیں تنگ کرے تو وہ فوری طور پر ہمیں (اپنے باپ، بھائی، شوہر کو) بتائیں۔ ہماری طرف سے ہماری عورتوں کو یہ تسلی* ہونی چاہئے کہ اگر باہر ان کے ساتھ کوئی گڑ بڑ ہوتی ہے تو ہم انہیں گھر نہیں بٹھا دیں گے۔ دوسری طرف ہم تنگ کرنے والے مرد کی آنکھیں نہیں نکالیں گے، ہاتھ نہیں توڑیں گے مگر اس کو مہذب انداز میں یہ پیغام ضرور پہنچا دیں گے کہ ہم اپنی بہن/بیوی/بیٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ اکیلی نہیں ہے۔
* میرے مشاہدے میں کئی ایسے کیس آئے ہیں جن میں لڑکیاں اپنی کسی چھوٹی سے غلطی کی وجہ سے بلیک میل ہوتی رہتی ہیں اور بڑی بڑی خطائیں کر بیٹھتی ہیں۔ مگر وہ اپنے بھائی/باپ/شوہر کو نہیں بتاتیں کیوں کہ وہ ان سے بھی ڈرتی ہیں۔ میرا خیال ہے ہماری خواتین کے بلیک میل ہونے کے ذمہ دار ان کے بھائی/باپ/شوہر ہوتے ہیں، وہ خود اتنی نہیں ہوتیں۔