ڈان لیکس کی حشرسامانیاں
(ملک تنویر احمد)
ڈان لیکس کا قضیہ اپنی تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ ملک کے سیاسی منظر نامے پر حاوی ہے۔ڈان لیکس کے مسئلے نے حکومت اور فوج کے درمیان روز اول سے نزاعی صورت حال کو ہوا دی جو بڑھتے بڑھتے اب سول ملٹری تناؤ کے خوفناک دیوتا کی طرح ملکی منظر نامے پر سایہ فگن ہے۔اس نازک اور سنگین صورت حال نے اس وقت مزید شعلے پکڑے جب فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے نے وزیر اعظم کے ایگزیکٹو آرڈر کو ایک ٹویٹ کے ذریعے مسترد کر دیا۔ میاں نواز شریف کے طرز حکمرانی سے لاکھ اختلاف کیا جا سکتا ہے اور ان کے انداز حکمرانی کو ہدف تنقید بنایا جانا چاہئے لیکن فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے نے جس طرح ایک منتخب حکومت کے اعلیٰ ترین عہدے کے حکم نامے کو ایک ٹویٹ کے ذریعے روندا اس نے اس ملک کی سیہ بخت تاریخ میں مزید اضافہ کر ڈالا۔
افواج پاکستان ملک کا مقدم اور قابل احترام ادارہ ہے۔ ملک کی سلامتی کے لئے اس کی قربانیوں سے کوئی فاتر العقل ہی صرف نظر کر سکتا ہے۔ افواج پاکستان کی ملک کے لئے خدمات سر آنکھوں پر لیکن سوشل میڈیا جیسے ہیجان انگیز فورم کے ذریعے نازک قومی امور پر تبصرہ ایک صحت مندانہ روش نہیں ہے۔ ڈان لیکس کے معاملے پر اگر حکومت وقت نے تساہل سے کام لیا اورکچھ پر دہ نشینوں کے نام ظاہر کرنے سے کترا رہی ہے تو یہ بھی قابل گرفت ٹھہرنا چاہئے لیکن اس کے لئے ادارہ جاتی میکنزم کو بروئے کار لایا جانا چاہئے جو ان نزاعی امور کو فریقین کی باہمی گفت و شنید کے ذریعے حل کر سکے۔
بلا شبہ ڈان لیکس کے معاملے پر حکومت وقت کے کچھ مہم جو عناصر نے ایک ایسی حرکت کی جس کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی۔ دہشت گرد اور انتہا پسند عناصر کو نکیل ڈالنے کے لئے اگر سویلین حکومت نے افواج پاکستان کی قیادت کے سامنے کچھ تجاویز پیش کی بھی تھیں تو یہ درون خانہ تک ہی محدود ہی رہتا تو کچھ مضائقہ نہ تھا۔ ایک خفیہ اجلاس کی خبر افشاء کر کے اگر سیاسی حکومت کے کچھ عزائم کو تقویت ملتی تو یہ قابل فہم معاملہ لگتا لیکن اس خبر کے افشاء کرنے کے انہیں ایک ایسے بالادست اور طاقت ور ادارے کی مخالفت مول لینی پڑی جو آمریت کے ادوار کے بعد بھی جمہوری حکومتوں میں تمام معاملات پر مکمل طور پر حاوی ہے۔
افواج پاکستان اس خبر کے افشاء ہونے سے بجا طور پر متاثر ہوئیں لیکن ان کا رد عمل یکسر ناقابل فہم جو ٹویٹ کے ذریعے اس اہم اور نازک قومی مسئلے پر سامنے آیا ہے۔سیاسی حکومت سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور لوگ کھلے بندوں اس سے مختلف امور پر اختلاف کرتے ہیں لیکن یہ اختلاف سیاسی مخالفین، اہل دانش، اہل قلم اور اہل علم کھلے بندوں کرتے ہیں۔ ریاست کے ستون اور حکومت کے ماتحت ادارے اس نوع کی مہم جوئی سے پرہیز کرتے ہوئے بند کمروں میں باہمی گفت شنید اور صلاح مشوروں سے ایسی نزاعی صورت حال کو کسی بڑے سانحے میں ڈھلنے سے پہلے حل کر لیتے ہیں۔پاکستان ہیجان شدہ معاشرہ بن چکا ہے جہاں عام فرد اگر اس ہیجان کا شکار ہو تو یہ قابل فہم ہے لیکن اگر حکومتی ادارے اگر اس ہیجان کا شکار ہو کر اس نوع کی حرکتیں کریں تو یہ کسی روشن و تابناک مستقبل کی طر ح نشاندہی نہیں کرتا۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت کو بھی اس نازک اور سنگین صورتحال کا ادراک ہو نا چاہئے کہ وہ اس وقت ایک تنی ہوئی رسی پر محو سفر ہے۔ پانامہ لیکس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے نواز لیگی حکومت کو بہت کمزور وکٹ پر لاکھڑا کیا ہے جہاں پر وہ فی الوقت دفاعی پوزیشن ہی اختیار کرنے پر مجبور ہے۔ کوئی جارحانہ عمل اس کے لئے مہلک ثابت ہو سکتا ہے تو اس وقت کے ساتھ ساتھ جمہوریت پر بد شگونی کے تازیانے بر سا سکتا ہے۔ڈان لیکس کے قضیے میں میاں نواز شریف کو اگر یہ احساس اور ادارک ہوا ہو کہ سویلین حکومتیں کس طرح بے دست و پا ہوتی ہیں تو انہیں لازماً اپنے اس فعل پر ندامت اور خجالت کا اظہار کرنا چاہئے جب وہ گزشتہ پی پی پی دور میں کالا کوٹ پہن کر اس وقت کی حکومت کے خلاف میمو گیٹ اسیکنڈل میں عدالت عظمیٰ جا پہنچے۔زرداری و گیلانی حکومت کو عدالت میں گھسیٹ کر انہوں نے گزشتہ حکومت کی حب الوطنی پر شک کیا تھا۔
گردش دوراں نے انہیں آج اسی سطح پر لاکھڑا کیا ہے جب ایک مخصوص طبقہ ان کی حب الوطنی پر بر ملا شک و شبے کا اظہار کر رہا ہے۔سیاسی طبقہ محدود سیاسی مفادات کے لئے جب آلہ کار بن کر سیاسی حریفوں کی ملک سے وفاداری پر شک کرنے لگتا ہے تو در اصل وہ اپنے لئے وہ پھندہ تیار کر رہا ہوتا ہے ۔ آج میاں نواز شریف اس کا بین ثبوت ہیں کہ کس طرح ان کی ملک سے وفاداری اور حب الوطنی کو شک و شبے کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔میاں نواز شریف اور ان کا خاندان اقتدار و اختیار کے گنگا میں اشنان کر کے ناجائز طریقے سے دولت تو اکٹھی کر سکتا ہے لیکن ان کی حب الوطنی پر ہر گز شک نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وہ سیاسی مفادات کے لئے قومی مفاد پر کوئی سمجھوتہ کر لیں۔
یہی بات زرداری، عمران خان اور دوسرے سیاسی قائدین کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے سوائے انکے جنہوں نے بر سر عام پاکستان کو برا بھلا کہا ہو ۔اگر آج عمران خان نواز شریف کو ڈان لیکس کے معاملے پر آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں تو یہ سیاسی عزائم کی آبیاری کے لئے تو ایک نادر موقع ہو سکتا ہے لیکن یہ کسی صحت مند سیاسی کلچر کی غمازی نہیں کرتا۔ زرداری و گیلانی تو خود ایسی صورت حال سے گزر چکے ہیں اور ان زخموں کو شاید ابھی تک چاٹ رہے ہوں جو میمو گیٹ کی صورت میں انہیں سہنا پڑے اس لئے شاید آج میاں صاحب اس صورت حال کا شکار ہو کر اس کرب کا احساس کر سکتے ہیں جب کسی کی ملک سے وفادار ی پر بھری عدالت میں سوال اٹھایا جائے۔
میاں نوازشریف کو اپنی حکومت کے آخری برس ان مہم جویانہ عناصر کو بھی گرفت میں رکھنا ہوگا جو اپنی افتا د طبع کا اسیر ہوکر کچھ ایسی مہم جوئی کر بیٹھتے ہیں جو ملکی اداروں کے درمیا ن تناؤ کو جنم دیتی ہے۔حکومت کے آخری برس نواز شریف ایک کمزور وزیر اعظم کی صورت میں ابھرے ہیں۔یہ ہماری بدقسمتی ٹھہری کہ ایسے کمزور وزیر اعظم موم کی ناک بن جاتے ہیں جنہیں بالادست قوتیں اپنے مرضی و منشاء سے موڑنے پر قادر ہوتی ہیں اور ایک مضبوط و پائیدار جمہوریت کا حصول تشنہ آرزو رہتی ہے۔