ڈان لیکس ، صرف چھاتہ بردار اینکر ہارے ، آئین اور ملک جیتا
(اسد علی طور)
ڈان کی خبر میں مبینہ قومی سلامتی لیکس کا معاملہ انجام کو پہنچ چکا ہے۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ایک نیا باب بھی رقم ہوگیا جب نہتی منتخب حکومت کی ثابت قدمی کے سامنے بندوق بردار بوٹوں والوں نے ہتھیار ڈال دئیے۔ اس سب میں فاتح کون ہوا یہ ایک قابل بحث موضوع ہے لیکن پہلے ہمیں جماعتی تفریق سے بالاتر ہو کر اپنی سیاسی قیادت کے ردِعمل کا جائزہ لینا ہوگا۔ بے شک کل جمہوریت اور آئین کی فتح ہوئی۔ سیاسی قیادت جو جمہوری نظام کی بنیاد پر ہم سے ووٹ لے کر منتخب ہو کر ہمارے ہی دئیے ہوئے ٹیکس سے تنخواہ اور مراعات حاصل کرتی ہے اُس کو بھی اس فتح کو جمہوریت کی فتح اور آئین کی بالادستی کی نظر سے ہی دیکھنا چاہیے ناں کے وہ اِس کو وزیراعظم نوازشریف یا ن لیگ کی جماعتی فتح قرار دے کر اِن پُرمسرت لمحات کا مزا کِرکرا کردیں۔
سیاسی جماعتوں کا نام نہاد نیوز لیکس کے دوران ردِعمل انتہائی پریشان کن رہا۔ ایک طرف ہماری سیاسی جماعتیں جمہوریت کی چیمیئن اور آزادی اظہارِ رائے، فریڈم آف پریس کی محافظ ہونے کی دعوے دار ہیں دوسری طرف ڈان اخبار کی اسٹوری میں ہونے والے مبینہ قومی سلامتی کی بریچ پر یہ جی ایچ کیو کی ہمکلام نظر آئیں۔ سیدھی سی بات تھی اس اسٹوری کی بنیاد پر کوئی قومی سلامتی داؤ پر نہیں لگی تھی نہ کسی قسم کے قومی سلامتی سے جڑے راز افشا ہوئے تھے۔ پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہرے کردار اور اچھے برے عسکریت پسندوں کی تفریق کے الزامات پچھلی ایک دہائی سے بین الاقوامی میڈیا میں عالمی رہنماوں اور امریکی اور نیٹو جرنیلوں کی طرف سے لگائے جارہے ہیں۔
ہمارے اپنے سابق آرمی چیف جنرل مشرف افغانستان میں بھارت کے خلاف افغان طالبان کو استعمال کرنے اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل اسد درانی دنیا کو سب سے مطلوب دہشت گرد کو ایبٹ آباد میں پاکستانی عسکری خفیہ اداروں کی طرف سے چھپانے کا الزام اپنے ملک پر لگا چکے تو پھر اِس اسٹوری میں ایسی نئی کونسی بات تھی؟ بقول ہمارے ریٹائرڈ جرنیلوں کے (جو خود کو جی ایچ کیو کا سُدھایا ہوا ان آفیشل ترجمان بتاتے ہیں، جس کی آئی ایس پی آر نے کبھی تردید کرنا مناسب نہیں سمجھی) ڈان کی خبر سے ملک پر پابندیاں لگنے کا خدشہ تھا تو حضور پہلے تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ اپنے سابق آرمی چیف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی پر لگائیں۔
بات سیاسی جماعتوں سے شروع کی تھی مُجھے تو حیرت پیپلز پارٹی پر ہوئی ہے جس کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو شہید نے جمہوریت کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ “طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔” بُھٹو صاحب کی ہی بیٹی شہید رانی بینظیر بھٹو نے دو بار آمروں کے شکنجے سے سیاسی جدوجہد کے ذریعے جمہوریت آزاد کروائی اور اپنے تجربہ کی بنیاد پر قرار دیا کہ “جمہوریت بہترین انتقام ہے۔” جس پیپلز پارٹی کو اس بات کا کریڈٹ لینا چاہیے کہ اِس ملک کے بےکس عوام کو ووٹ کی طاقت دے کر اقتدار میں حصہ دار اُس کے قائدِ عوام نے بنایا اور 1973 کے متفقہ آئین کا تحفہ دے کر پاکستان کی جمہوری تاریخ میں جو لازوال ورثہ چھوڑا۔ وہ آج میمو گیٹ اور زرداری صاحب کے اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے بیان پر میاں صاحب کی شرمناک غیر جمہوری حرکتوں کا بدلہ لینے میں لگی ہوئی ہے۔ زرداری صاحب کم از کم آپ جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی خاطر اپنے اسکور سیٹل کرنے سے گریز کریں۔ پاکستانی پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جس کی مرکزی قیادت سے لے کر عام کارکن تک نے جمہوریت کے لیے جانوں کی قربانی دی۔ براہ مہربانی اب قلیل مدتی فوائد کی خاطر پانچ دہائیوں پر مشتمل قابلِ فخر تاریخ کو راولپنڈی کے تالاب میں غرق مت کرے۔
پیپلزپارٹی کو ایک بات بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ میاں نوازشریف اور پاکستان کی اسکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا حلقہ “انتخاب” جی ٹی روڈ ہی ہے۔ اس لیے یہ کبھی بھی ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف ایک حد سے زیادہ نہیں جاتے۔ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار کوئی پنجابی وزیراعظم ہی ختم کرسکتا ہے، نان پنجابی وزیراعظم کے بس کی یہ بات نہیں۔ سیاسی دماغ استعمال کرتے ہوئے میاں صاحب کو استعمال کریں پھر آنے والے کل میں سندھی وزیراعظم بلاول بھٹو بھی وہ اختیارات انجوائے کرے جن کی تمنا دل میں لیے اُس کی والدہ بینظیر بھٹو شہید اور نانا ذوالفقار علی بھٹو شہید محلاتی سازشوں کی نظر ہوگئے۔
پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کی سیاسی جدوجہد تو دو دہائیوں پر مشتمل ہے لیکن ان کی جماعت کا “مُنہ متھہ” ابھی چھ سال پہلے 30 اکتوبر 2011 کو مینارِ پاکستان کے تاریخی جلسہ سے بنا۔ خان صاحب کی مقبولیت کا گراف ناسا کے راکٹ سے بھی زیادہ تیزی سے بلندی کی طرف گیا جس کی وجہ سے جہاں نئے لیکن بے لوث لوگ پارٹی کے ساتھ منسلک ہو کر پاکستانی سیاست میں وارد ہوئے وہیں آمروں کی بیساکھیاں بننے والے فصلی بٹیروں کی بھی تحریک انصاف میں بڑی تعداد میں آمد ہوئی۔ ان آزمودہ سیاستدانوں نے جن کے پاس بےشمار غیر آڈٹ شدہ دولت ہے اپنے پیسہ کے سر پر خان صاحب کو اپنی مُٹھی میں لے لیا جبکہ نووارد “ینگ لاٹ” سیاسی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے خان صاحب کو کوئی صائب مشورہ نہیں دے پارہی۔ ایسے میں خان صاحب تجربہ کار مگر بدکردار سیاسی اشرافیہ کے ٹولے میں گِھرے ہوئے ہیں جو اُن سے ایسے فیصلے کرواتے ہیں جن کا فائدہ بالواسطہ طور پر غیر جمہوری قوتوں کو ہوتا ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف کو سمجھنا ہوگا کل وہ بھی وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ کل پیپلز پارٹی میمو گیٹ میں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ٹریپ ہوئی تھی اور آج ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کے کھودے ہوئے ڈان لیکس کے گڑھے میں گری ہوئی ہے تو آنے والے کل اگر خان صاحب وزیراعظم بن گئے تو ایسی سازشیں گھڑنے میں ہمارے عسکری دماغ اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ برائے مہربانی آج اگر جمہوریت طاقتور اور آئین کی بالادستی کا راستہ کھل رہا ہے تو اس کو کھولنے میں ہاتھ بٹائیں تاکہ اگر آپ اقتدار میں آئیں تو آپ کو اپنے اختیارات میں کسی غیر منتخب ادارے کو شریک نہ بنانا پڑے اور آپ یکسوئی سے اپنے ووٹروں کو ڈلیور کرسکیں۔
میڈیا میں یہ جو بھانت بھانت کے چھاتہ بردار اینکروں کی فوج نازل ہوچکی ہے اُن کی بھی صحافیانہ تربیت کی سخت ضرورت ہے۔ صحافی نے ہر حال میں آئین اور قانون کے ساتھ کھڑا ہونا ہوتا ہے کیونکہ یہ آئین ہی شہریوں کو اُن کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے جس کی فراہمی کے لیے صحافی نے آواز بننا ہوتا ہے اور عدم فراہمی کی صورت میں حکمرانوں کو اِس بددیانتی پر آئینہ دکھا کر آئین اور قانون کے کا پابند بنانا ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہی صحافی اپنی مالی وابستگیوں کی بنیاد پر کسی ادارے یا سیاسی جماعت کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے عام شہریوں کو اس کے حقوق سے آگاہ کرنے کی بجائے اس کو قانون کی بالادستی کے خلاف گمراہ کرنے لگ جائے تو وہ اپنے پیشہ اور اپنے قاری سے بدترین بدیانتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ نام نہاد اینکر اور دفاعی تجزیہ کاروں نامی اس مخلوق کا ماتم کل دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا اور یوں محسوس ہورہا تھا کہ شاعر ظفر اقبال صاحب سے معذرت کے ساتھ وہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو یہ کہنا چاہ رہے تھے۔
ٹویٹ کیا ہے تو اُس پر قائم بھی رہو جنرل غفور
آرمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاستدانوں، ریاستی اداروں کے سربراہوں اور عوام کی اکثریت کو آئین کی اصل اہمیت اور بنیادی روح کا علم ہی نہیں۔ آئین دراصل ریاست اور اُس کے شہریوں کے درمیان معاہدہ کی وہ دستاویز ہے جس میں جہاں شہری کو اس بات کا پابند بنایا جاتا ہے کہ کِن قانونی حدود میں رہ کر اُس کو ریاست کی رِٹ یقینی بنانی ہوگی وہیں ریاست یہ ضمانت بھی دیتی ہے کہ وصول کردہ ٹیکس اور قانون کی پاسداری کے بدلے میں شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق، صحت، تعلیم اور جان و مال کا تحفظ مذہبی و لسانی تفریق سے بالاتر ہو کر یقینی بنائے گی۔ اگر ریاست یا عوام میں سے کوئی ایک فریق بھی اس معاہدہ کو توڑتا ہے تو وہ دراصل ملک کی جغرافیائی حدود کے خلاف بھی جرم کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ آئین اور قانون کے غیر فعال ہونے پر تو پھر صرف افراتفری اور خانہ جنگی ہی ہوگی۔
کل جو کچھ ہوا ہم سب کو اِس کو اِسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کسی ایک فریق کی فتح یا شکست نہیں۔ یہ آئین اور جمہوریت کی فتح ہے۔ ڈان لیکس میں اپنی جائز آئینی بالادستی منوانے والا وزیراعظم آنے والے مہینوں میں پانامہ لیکس میں بازی ہار سکتا ہے اور یہ شکست قانون کے عین مطابق ہوگی۔ پانامہ لیکس کا خنجر وزیراعظم نوازشریف کے سیاسی جسم میں روز بروز مزید اندر گھستا جارہا ہے اور ایک سال سے زائد مسلسل خون بہنے کی وجہ سے وہ پہلے ہی کافی نقاہت محسوس کررہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ گھاؤ مزید گہرا ہوگا اور میاں صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کی قانونی موت نہ بھی ہوئی تب بھی اُن کے شفاف حکمرانی کے تشخص کو وہ کاری ضرب لگی ہے کہ اپوزیشن ایک اچھی پروپیگنڈہ مہم سے ن لیگ کی عوامی مقبولیت کی کشتی کو کنارے لگنے سے پہلے ڈبو سکتی ہے۔
مجھ جیسے جمہوریت پسندوں کے لیے کل کا دن بہت اہم ہے۔ فیض صاحب کی شہرہ آفاق نظم “ہم دیکھیں گے” اقبال بانو کی آواز میں سُن کر جہاں خون جوش مارتا تھا وہیں اب تو آنکھیں بھی نم ہونے لگی تھیں کہ شاید ہم یہ دن اپنی زندگی میں نہیں دیکھیں گے لیکن اب کچھ امید بندھی ہے۔ جمہوریت سے انسیت و الفت رکھنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔
بہت زیادہ پُر امید ہونے کی ضرورت نہیں خود کو متحرک رکھیں تاکہ منزل کی طرف سفر جاری رہے۔ آنکھیں ذرا سی دیر کے لیے بند کیں تو منزل دوبارہ کھو سکتے ہیں۔ آئیے سب مل کر آئین کے تقدس کے شعور کو اپنی دھرتی کے ماتھے کا جھومر بنائیں۔