ڈیڈ لیٹرز ہاؤس میں ایک مردہ خط
کہانی از، محمد عاطف علیم
تم نے یہ جھنکار سنی؟
یہ میرے پاؤں میں پڑی زنجیر کی آواز ہے۔
اماوس کے دنوں میں یہ زنجیر نیم مردہ سانپ سی پڑی اونگھا کرتی ہے۔ لاکھ پٹکو کوئی صدا نہیں، پر جونہی پورے چاند کی پہلی کرن دریچے کی سلاخوں کی راہ اسے سہلاتی ہے، اس میں یکا یک مقناطیسی لہریں دوڑنے لگتی ہیں۔ تب یہ انگڑائی لے کر آنکھیں کھولتی ہے اور مجھے دیکھ کر سیاہ مسکان مسکرا دیتی ہے۔
مجھے اس کی جھنکار بہت بھاتی ہے کہ اس میں میرے لیے کئی بھید چھپے ہیں۔ میں یہ بھید پانے کے لیے پورے چاند کے دنوں میں اکثر اپنے پاؤں زمین پر تھپتھپایا کرتا ہوں۔ اس جھنکار کی کیفیات پاؤں کی تھاپ کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ کبھی یہ جھنکار چوڑیوں کی کھنک بن جاتی ہے تو کبھی یہ نبض تیز کرنے والی کسمساہٹ کے ساتھ تاریک کمرے سے نکلتی ہوئی دبی دبی شریر ہنسی میں بدل جاتی ہے۔ اور پاؤں جو کبھی بے تالا پڑجائے تو یہ جھنکار غصیلی گھرکی بن کر مجھے دہلا دیا کرتی ہے۔ یا یوں ہو کہ جب کبھی میرے پاؤں کی تھرک آہنگ میں آئے تو یہ زنجیر بھی تال کے ساتھ لہر میں آجاتی ہے۔ تب یہ گنگنایا کرتی ہے، یہاں تک کہ یہ گنگناہٹ سرگوشیوں میں بدل جاتی ہے جو نشے کی لہر بن کر دھیرے دھیرے میری روح میں گھلنے لگتی ہیں۔ ان سرگوشیوں میں چھپے بھید جب مجھ پر کھلنے لگتے ہیں تو میں بے خود ہوکر ناچنے لگتا ہوں، تاتا تھیا۔۔۔تا۔۔تا۔۔تھیا۔۔۔تا تھیا۔۔۔تھیا تھیا۔۔۔تاتا تھیا۔۔۔تاتا تھیا۔
اور جب میں وجد میں آتا ہوں تو میرے ساتھ کی ہر چیز ناچنے لگتی ہے، گول گول تیز تیز۔ میرے گول گول ناچنے سے ایک طوفانی چکر جنم لیتا۔ تب کائنات کی ہر شے اپنے مرکز سے ٹوٹ کر اس چکر کی جانب کھنچی آتی ہے اور یہ وحشی چکر ایک گرد باد میں بدل جاتا ہے جو تمام اجسام کو لیے لا انہتا خلاؤں کی جانب بلند ہونے لگتا ہے۔ یہ پاگل گرد باد رفتار کی ایک خاص حد کو چھوتا ہے تو خلائے بیکراں میں بھٹکتی لاکھوں بے چین روحیں اس میں نفوذ کرجاتی ہیں۔ اس عظیم گرد باد کے درمیانی خلا میں سمٹنے پر ان روحوں کی دہشت ناک چیخیں مل کر امر موت کا نغمہ تخلیق کرتی ہیں۔ میں اس نغمے کے نشے میں مست و بے خود جونہی اس میں اپنی چنگھاڑ شامل کرتا ہوں دفعتاً ایک تیز ڈانٹ سارے طلسم کو بکھیر کر رکھ دیتی ہے۔
ڈانٹے والا یہاں کے محافظوں میں سے کوئی ہوتاہے جو مجھے محو رقص دیکھتے ہی ڈنڈا لہراتا میری جانب لپکتا ہے۔ یہاں ایسے اور بھی بہت ہیں،کالی وردیاں پہنے اور ہاتھوں میں موٹے موٹے ڈنڈے اٹھائے دن بھر گھومتے رہتے ہیں۔
ڈانٹ کو سنتے ہیں میرے قدم جہاں تہاں تھم جاتے ہیں اور میں پتھر ہوجاتا ہوں اور پھر ڈر سے شرابور کئی کئی روز تک (شاید کئی کئی ماہ تک یا شاید کئی کئی برس تک۔۔۔ یہاں جہاں میں ہوں وقت کا ٹھیک سے اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔) پتھر سا ایک جا جما رہتا ہوں یہاں تک کہ سارے میں اماوس چھا جاتی ہے۔
یہ میں ہوں، اس کائنات کا کارِ نا تمام۔ میں جو اپنے ہونے پر خندہ زن ہوں یہاں ایک سفاک کوٹھڑی میں ایک کھونٹے سے بندھا کھڑا ہوں۔ میرے پس منظر میں چلتے کروما پر تم جو دیکھ اور سن رہی ہو یہ زندگی کا بلیک جوک ہے، کسی خود ساز تقدس کو بکھیر دینے والا جنون خیز قہقہہ۔
یہ پاغل خانہ ہے اور یہاں زندگی اپنی تباہ شدہ میکانیت کے ساتھ بیٹھی بال کھجلارہی ہے۔کرنے والوں نے یہ کیا ہے کہ اپنے بھاویں جنون کے پلیگ کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اس جگہ کو کوارنٹین سا قرار دے کراس کے گرد چڑیا گھر کی طرح اونچی اونچی دیواریں کھینچ دی ہیں اور خود سے مطمئن ہوگئے ہیں حالانکہ وہ احمق نہیں جانتے کہ اب تمام دیواریں بے معنی ہوچکی ہیں کیونکہ ان کے پار بھی زندگی کی میکانیت تباہ ہوچکی ہے۔
اس کروما میں یہ لوگ جو تمہیں ایسی حالتوں میں موجود دکھلائی پڑ رہے ہیں کہ تم وضع داری کے باوصف اپنی ہنسی ضبط نہ کرسکو، وہ ہیں جنہیں اپنے وجود سے کاٹ کر اس کوارنٹین میں لا ڈالا گیا ہے۔ یہ لوگ جو بے رشتہ اور بے چہرہ ہیں، ہر پہچان سے ماورا خود میں گم ہیں۔
عالم یہ ہے کہ جس چیز کو ماضی، حال اور مستقبل کے صیغوں میں بانٹا جائے کہ زمانے کی چلت پھرت کا تعین ہو، ان بیچاروں کی ہتھیلیوں پر اس کے پھسلنے کا نشان تک نہیں ہے۔ غور سے دیکھو تو تمہیں دکھائی دے گا کہ ان لوگوں کی آنکھوں میں ریت بھری ہے اور ان کی ہتھیلیاں اپنے ہی لہو سے تر ہیں۔ یہ لوگ جن کے ناخنوں میں اپنے ہی گوشت کے ریزے پھنسے ہیں سفاکانہ طور پر مضحک صُورتِ حال میں کبھی اپنے آپ میں مگن تو کبھی دل خراش قہقہوں کی بھیڑ میں گم ہیں۔
یہاں جہاں میں پابہ زنجیر موجود ہوں، وقت پتھر ہے اور میں اسی لوکیل کے بیچوں بیچ ایک پتھرائے ہوئے لمحے میں تم سے مخاطب ہوں۔
محمد عاطف علیم کی ایک روزن پر شائع شدہ دیگر تحریریں
تم دیکھ رہی ہو کہ میرے پیچھے کروما پر چلتے منظر میں سیاہ آسمان سے نزول کرتی سیاہ دھند سیاہی کے ایک دریا میں اتر رہی ہے۔ میں جو کروما کے اندر بھی ہوں اور باہر بھی کسی نامعلوم نسبت سے اس قرن ہا میل لمبے دریا کے ساتھ جڑا ہوا ہوں۔ یہ دریائے اسود اماوس کی راتوں میں نہایت بھلا مانس سا نمہی نمہی گنگناہٹ کے ساتھ نامعلوم سمندروں کی طرف بہتا رہتا ہے۔ اس کی جان کا دشمن چاند جب تاریکیوں کے بطن سے ظہور کرتا ہے تو اپنے بڑھنے کی ہر رات یہ کالا اور کاہل دریا پاگل ہو اٹھتا ہے۔ تب چاندنی کی مقناطیسیت سے اس کی جنون میں بولائی لہریں ایک قیامت برپا کردیتی ہیں۔ اس سمے جونہی کوئی مست لہر چاند کو چھونے کے لیے لپکتی ہے تو کوئی اور بیاکل لہر اٹھتی ہے اور اس کی چھاتی کو پھاڑتے ہوئے کسی اور لہر کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہے۔
میں دریا کنارے کھڑا یہ لرزہ خیز تماشا دیکھ رہا ہوتا ہوں کہ اچانک قیامت کے اس معرکے میں کوئی دیو آسا بھنور مُنھ کھولے سیاہ پانی کی تہوں سے اٹھتا ہے اور مجھے لپیٹ میں لے کر دریا میں پٹخ دیتا ہے۔ میں جو لہروں کی ضربیں کھاتا میلوں تک ڈوبتا ابھرتا چلاجاتا ہوں اپنی ٹوٹتی ہڈیوں کے ساتھ دیکھتا ہوں کہ ایک کے بعد ایک بھنور اٹھتا ہے اور دریا میں چھپے بھید میرے سامنے ایک ایک کرکے اگلتا چلا جاتا ہے۔
پورن ماشی کی ہر شب سجنے والے قیامت کے اس تماشے میں میں دیکھتا ہوں کہ دریا کی سیاہ تہوں سے دو بوڑھے کمزور ہاتھ ابھرتے ہیں۔ ان کے سوکھے ہوئے ہڈیالے بازوؤں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ کسی ایسی نحیف بڑھیا کے بازو ہیں جو موت کی دہلیز پر مُصلا بچھائے وقت دعا میں ہے۔ مجھے شک سا ہے کہ شاید یہ میری ماں ہو لیکن کیا پتا، مجھے کب کچھ ایسا پکا یاد ہے کہ میں جان سکوں کہ میری کوئی ماں تھی بھی یا نہیں۔
مزید دیکھیے: میں راستی نہیں، راست فاطمہ ہوں از، منزہ احتشام گوندل
تو میں دیکھتا ہوں کہ وقت کے کسی کرب ناک لمحے میں دعا کے لیے اٹھے ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر اس نامعلوم بڑھیا کے آنسوؤں سے ننھے سے تالاب بنے ہوئے ہیں۔ میری درخواست پر پورنماں جب اپنے دودھیا اجالے سے ان تالابوں کو کلوز شاٹ میں فوکس کرتا ہے تو میں ان میں موجود اپنا عکس واضح طور پر پہچان سکتا ہوں (میں جو فی الواقع پہچان سے کٹ چکا ہوں، محض گمان کی بنا پر اس عکس کو اپنا بتا رہا ہوں ورنہ یہ عین ممکن ہے کہ اس undated تصویر کے اندر میں نہیں کوئی اور ہو۔) اس تصویر میں میں خود کو، یا وہ جو کوئی بھی ہے ایک سراسیمگی کے عالم میں بھاگتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ میرے سر پر سینکڑوں خوں آشام چمگادڑیں منڈلا رہی ہیں جن کے حملوں سے بچنے کے لیے میں خوف اور مایوسی کے عالم میں دیوانہ وار اپنے ہاتھ چلا رہا ہوں۔ اس کے بعد یوں ہوتا ہے کہ بھاگتے بھاگتے میں کسی اندھی دیوار کے ساتھ ٹکرا کر گر پڑتا ہوں اور میرا گرا ہوا وجود ویمپائر کے لجلجے وجود میں چھپ جاتا ہے۔
یوں ہونے پر پگھلے ہوئے سونے کے تھال جیسا پورنماں میری طرف دیکھ کر خباثت سے مسکراتا ہے اور از راہِ تحقیر ونک کرتے ہوئے میری طرف ہوائی بوسہ اچھال دیتا ہے۔ تب کالا بھجنگ دریا ایک اور منظر میری طرف لڑھکا دیتا ہے۔ اس منظر میں ایک تنگ اور طویل گلی دکھائی دیتی ہے۔ کہیں آگے چل کر اس نیم تاریک گلی کے دوسرے سرے پر پتھر کی ایک فصیل چن دی گئی ہے۔ اس گلی کے دونوں اطراف کی دیواریں ایک بوجھل اور ڈرا دینے والی آواز کے ساتھ سانس لیتے ہوئے مسلسل وقفوں میں پھیل اور پچک رہی ہیں۔
میں دیکھتا ہوں کہ اس پر اسرار بند گلی میں ایک پچھل پیری پہلے والے منظر میں موجود شخص (جو میں یا کوئی اور بھی ہوسکتا ہے) کی جانب آہستہ قدموں بڑھ رہی ہے۔ وہ اپنے آگے چلتے اس شخص کو متوجہ کرنے کے لیے اپنی چوڑیاں اور پا زیب چھنکاتی ہے تو وہ پلٹ کر اسے دیکھتا ہے۔ اسے متوجہ پاکر پچھل پیری جو اپنے حسن میں تمام و کمال ہے، اپنی شہوت سے لِتھڑی نظریں اس کے بدن میں گاڑتی ہے اور ایک کافر ادا کے ساتھ خود کو بے لباس کر دیتی ہے۔
تصویر میں موجود شخص اس کے گداز جسم سے ٹپکتے نشے میں بے خود ہوکر چاہتا ہے کہ بڑھ کر اس سے ملاپ کرے کہ دفعتاً اس کی نگاہ اس کے پاؤں پر پڑتی ہے۔ وہ اچانک سراسیمہ ہوکر پلٹتا ہے اور اندھا دھند بھاگ اٹھتا ہے مگر کہاں تک بھاگے کہ وہ بند گلی کی قید میں ہے اور پیچھے پچھل پیری جو اپنے شکار کو بے بس دیکھ کر نوکیلے دانت نکالے جنسی خواہش میں بھیگی بوجھل آواز میں ہنس ہنس کر دہری ہورہی ہے۔
وہ شخص راہ نہ پا کر بے بسی سے اپنی آنکھیں بند کرنے سے پہلے دیکھتا ہے کہ اس پر جھپٹنے کے لیے تیار پچھل پیری کے سارے جسم پر زہر بھرے لمبے لمبے کانٹے اگ آئے ہیں۔
کالا خبیث دریا مجھے اپنی لہروں پر بے دم بہتے دیکھتا ہے تو اس جیسے بہت سے ایسے منظر مجھ پر اچھال دیتا ہے جن سے میں کٹ چکا ہوں مگر جن کی کرچیاں روز میرے خوابوں میں سیر بین کی طرح پیٹرن بدل بدل کر مجھے ڈراتی رہتی ہیں۔
ان میں ایک اس کالی رات کا ڈراؤنا منظر بھی ہے جس میں میں اپنے ساتھ سوئی اس برہنہ عورت کو ذبح کرتا ہوں جس کے ساتھ میں منظر کی تفصیلات کے مطابق ہر رات ہم بستر ہوا کرتا تھا۔ سیاہی مائل نیلے رنگ کے گرم خون میں لتھڑے ہوئے اس منظر کی میرے ساتھ نسبت کسی قدر قرین قیاس ہے کیونکہ یہاں تواتر کے ساتھ میرے لیے جنونی قاتل جیسے القاب استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہاں جو مجھے زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا ہے وہ بھی شاید مجھے قاتل باورکرانے کے لیے ہی ہو۔ خیر، کہا جاتا ہے کہ یہی وہ واقعہ تھا جس کے بعد زمین نے مجھے اپنی قید سے آزاد کر کے چاند کے سپرد کر دیا تھا۔
تم جانتی ہو کہ اس آخری منظر کی ایک ایک تفصیل اس قدر لرزا دینے والی ہے کہ میرا رگوں کو کاٹتا کرب جب اپنی شدت میں میری آنکھوں کو لہو سے بھر دیتا ہے تو میں اس سے رہائی پانے کے لیے بے اختیار ایڑھیوں سے زمین کو کوٹنے لگتا ہوں (میں جو کروما کے اندر بھی ہوں اور باہر بھی)۔ ایسا ہوتے ہی میرے پاؤں میں پڑی زنجیر میں جھنکار بیدار ہوجاتی ہے۔ اسے سن کر جونہی میں تال میں آتاہوں یہ بھی لہرا اٹھتی ہے۔ تب چوڑیاں کھنکتی ہیں، سرگوشیاں گنگناتی ہیں اور میرے اندر قطرہ قطرہ برستے لہو سے کشید ہوتی نشے کی پاگل لہر دھیرے دھیرے میری روح میں گھلنے لگتی ہے۔
جب ایک سماں سا بندھ چکتا ہے تو میں بے خود سا ناچنے لگتا ہوں، تاتا تھیا۔۔۔ تا۔۔تا ۔۔ تھیا۔۔۔تا تھیا۔۔۔تا تھیا۔۔۔تاتا تھیا۔۔۔تاتا تھیا ۔اور پھر میرے ساتھ کی ہر چیز ناچنے لگتی ہے، گول گول، تیز تیز۔ پھر سب کچھ ایک طوفانی چکر کی لپیٹ میں آ جاتا ہے اور ہر ترتیب بکھر جاتی ہے۔ تب ایک وحشی گرد باد لا انتہا خلاؤں کی طرف بلند ہوتا ہے اور پھر روحیں، خلائے بیکراں میں بھٹکتی لاکھوں بے چین روحیں اس گرد باد کے اندرونی خلا میں سمٹ آتی ہیں۔ وہاں ان کی دہشت ناک چیخیں مل کر امر موت کا نغمہ تخلیق کرتی ہیں اور میں سر مست و بے خود اس کی لے میں اپنی چنگھاڑ شامل کرتا ہوں کہ اس نغمے کی کمپوزیشن مکمل ہوجائے (لیکن تمہارے بغیر ایسا کیوں کر ممکن ہوپائے گا؟)
اور پھر اچانک۔۔۔ میں ڈانٹ کھانے کے بعد یہاں پتھر پنڈلیوں پر کھڑا اماوس کی اس تاریک اور خاموش رات سوچ رہا ہوں کہ امر موت کے نغمے کی کمپوزیشن ادھوری کیوں رہے؟ میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ جانوں تو سہی گرد باد کا اگلا پڑاؤ کہاں ہے؟ کیا پتا اس کی راہ سے کسی روز میں چاند نگر جا پہنچوں جہاں کی کسی نامعلوم گلی میں تمہارا بھی قیام ہے۔
میں نے اب کے بالکل پکا سوچ لیا ہے کہ اگلی بار سے پہلے پہلے میں اس ڈانٹ کو قتل کردوں گا۔ پھر میں اپنی چنگھاڑ الاپتا تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا۔ تم، جسے میں نے اپنی آنکھوں سے رستے خون سے اور اپنے اعصاب کے ٹوٹے پھوٹے ریشوں سے اور اپنے جنون سے تخلیق کیا ہے اور تم جو چاند کی کسی نامعلوم گلی میں مقیم ہو (خدا کرے میرا یہ خط کسی طرح تم تک پہنچ جائے۔)
جب اگلی بار چندرماں اپنے جوبن پر آئے تو میرا انتظار کرنا۔ میرا ناتواں جسم اب جنون کی مار سہنے جوگا نہیں رہا۔ اب میں کروما کے اندر اور باہر سے اپنا وجود سمیٹ لینا چاہتاہوں اور دریائے اسود کے دہشت ناک منظروں اور اپنے کالے خوابوں سے رہائی چاہتا ہوں۔ تم وہاں، چاند نگر میں مجھے ملنا، ہم دونوں چاندنی کے بچھونے پر نئے سرے سے اپنے خواب کاڑھیں گے۔
(ڈیڈ لیٹرز ہاؤس میں ایک مردہ خط، محمد عاطف علیم کے کہانیوں کے اولین مجموعے ’شمشان گھاٹ‘میں شامل ہے۔)
* * * *