جانی جون ایلیا
از، وارث رضا
آج کل ہمارا ملک ان افراد کے انکشافات پر لگا دیا گیا ہے جنھوں نے تمام ذرائع اور اختیارات استعمال کر کے اس وطن کو لوٹا۔ مگر آج بھی طاقت اور مفادات کے سہارے ملک کے منصب دار اور مالک بنے عوام کی لا چاری پر ہنس رہے ہیں اور اپنے اقتداری سانجھے داروں کو بچانے کی کوششوں میں عوام کو گم راہ کرنے کے ایک نئے بیانیے کی جانب چل پڑے ہیں تا کہ ان کی غلط کاریوں کے عدالتی محافظوں کو نہ صرف بچایا جائے بل کہ ان کو عدل کا منبع بنا کر انصاف کی اعلیٰ صفات کے منصب پر فائز کیا جائے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اس شکست خوردہ بیانیے کو کس حد تک محفوظ بنا سکتے ہیں۔ بادیُ النَّظر میں اقتدار پر براجمان قوتوں کی چُولیں ہلتی دکھائی دے رہی ہیں، مگر مفادات کا اکھنڈ کیا گُل کھلاتا ہے، وہ ہم پتلی تماشے مانند دیکھنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ سو چلیں یونھی سہی۔
یہ ملک اور نومبر کے مہینے کی سیاسی و سماجی تاریخ رہی ہے کہ انکشاف کے بعد نہ گواہی آتی ہے اور نہ مدعی اپنی بات پر قائم رہتا ہے، یا کم از کم سچ کا سامنا کرنے سے گریز کرتا ہے۔
فیض احمد فیض اور پروین شاکر سے لے کر جون ایلیا تک کی فروزاں شاعری سیاست کی دبیز تہوں میں دبا دی جاتی ہے تا کہ سماج کی نئی نسلوں کے تازہ ذہنی سوچ کے سَوتوں کو شعور و عقل سے پرے رکھ کر علم و فکر سے دور کیا جائے اور اپنے سیاسی مفادات کے درمیان “جمالیات و فکر” کو تہہِ تیغ کر کے برسی و پیدائش کے خانوں تک محدود کر دیا جائے۔
اسی نومبر کے ایک افسوس ناک دن ہمارے جانی جون ایلیا سے متعلق ان کی صاحب زادی کی ایک “تحریر” آج کل کے سیاسی و عدالتی انکشاف کی طرح خاصی موضوعِ بحث رہی۔ میری نظروں سے بھی وہ تحریر گزری، مگر میں نے اس تحریر کو ایک شائستہ شکوے سے زیادہ نہ جانا کہ میرے جون ایلیا سے تعلقات اور دیرینہ معاملات سے لواحقین کے علاوہ واقفانِ حال جانتے ہیں۔
میں بہت سے رازوں کے امین طور “لب بند” رکھنے ہی کو ترجیح دیتا، مگر مجھ سے جون ایلیا کی خاص قربت کے سبب میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جون گھر کے رویوں سے نہ کبھی شاکی رہے، اور نہ وہ اپنی زبان پر حرفِ شکایت لائے۔
البتہ نجی محافل میں وہ دل کی باتوں میں اپنی تنہائی کے وہ دکھ ضرور اشارے کنائیوں میں بتا جاتے تھے جو احساس مند کے لیے دکھ کا باعث ہوا کرتے؛ اور شاید گھر میں سامِع کے گم ہونے ہی کو وہ اپنا بنیادی دکھ سمجھتے تھے لہٰذا وہ انتقاماً دنیا و ما فیھا سے بے خبر ہونے کو ترجیح دیتے تھے۔
اب آپ سوچیے کہ جو بلا کا ذہین، حسّاس اور عالمانہ صلاحیتوں کا فرد ہو وہ کس طرح بے گانہ ہو سکتا ہے کسی فریقِ ثانی یا اولاد کی جانب سے…؟
اسی دکھ کی جانب ہمارے لاہور کے ترقی پسند فکر کے شاعر دوست عابد حسین عابد نے بھی جواب کی صورت میں توجہ دلائی ہے، جو مِن و عَن “جانی جون ایلیا” کے متعلق کچھ یوں ہے:
“جون ایلیا کی بیٹی کی تحریری پوسٹ کے درج ذیل جملوں نے سیدھا دل پر وار کیا۔
1۔ “جون ایلیا لوگوں کے لیے ان کے پسندیدہ شاعر ہیں، مگر میرے تو وہ باپ ہیں۔ میں زندگی کو ان کے مصرعے میں تلاش نہیں کر سکتی۔”
2۔ “ہمیں شاعر جون ایلیا نہیں ہمارا باپ جون ایلیا چاہیے، جو کہیں کھو گیا تھا۔”
یہ ایسے کسی بھی بچے کے بہت تکلیف دِہ جملے ہیں جس کے والدین میں علیحدگی ہو گئی ہو اور وہ بغیر باپ یا ماں کی شفقت کے پلا بڑھا ہو۔ سب اہلِ دل یہ دکھ سمجھ سکتے ہیں۔
بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھی۔ لیکن ان کی بیٹی نے برسوں بعد خاموشی توڑی بھی تو اس بد احوالی کا سارا ملبہ اپنے والد پر ڈال دیا۔
عام لوگوں میں شاعروں اور ادیبوں کے بارے جو منفی سوچ پائی جاتی ہے کہ وہ کوئی کام کاج نہیں کرتے، شرابی ہوتے ہیں، خیالی دنیا میں رہتے ہیں، گھریلو ذمے داریوں سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ، مذکورہ تحریر سے اسی بیانیے کو تقویت ملی۔ بد احوالی سے ہمارے ٹی وی ڈرامہ نگاروں نے بھی شاعر کو اسی طرح ایک مجہول کردار بنا کر پیش کیا ہے۔
اسی لیے عام لوگوں کے ہاں بھی صرف ساغر صدیقی یا سارا شگفتہ کے شاعر شوہر جیسے کردار ہی بَہ طور حوالہ بنتے ہیں۔
اس سے یہ تأثر مزید گہرا ہوتا ہے کہ سب شاعر، ادیب ایسے ہی ہوتے ہیں۔ حالاں کہ ایسا ہر گز نہیں سوائے ایک دو مثالوں کے دنیا بھر کے شاعروں، ادیبوں نے بھر پُور خانگی زندگی گزاری۔
شعر و ادب کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کے لیے بڑی محنت سے روزی روٹی کا بندو بست کیا۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو با قاعدہ روز شراب پیتے تھے اور وہ بھی جو نہیں پیتے تھے۔ مگر انھوں نے کام یاب گھریلو زندگی بسر کی۔
ایسے بہت سے افراد کو بھی ہم جانتے ہیں جو روز شراب کا شغل کرتے ہیں، وہ شاعر اور ادیب بھی نہیں ہیں مگر ان کی گھریلو زندگی بہت کام یاب گزری۔
دیکھنا یہ ہے کہ مسئلہ ہے کہاں جو ایک خاندان کے لیے ایسے بد قماش اور تکلیف دِہ انجام کا باعث بنتا ہے۔
جون ایلیا کے والدین تو ان کی شادی سے بہت پہلے وفات پا چکے تھے۔ شاید وہ پاکستان آئے بھی نہیں۔ سو یہ کہنا کہ وہ جون ایلیا کے طرزِ زندگی سے دکھی رہتے تھے، سمجھ سے باہر ہے۔ ان کی بیٹی کو یہ بات کس نے بتائی؟ جون ایلیا کا مزاج کیسا تھا، انھوں نے شراب نوشی کب شروع کی، یہ ان کے سب ملنے ملانے والوں کو معلوم تھا۔
وہ شادی سے پہلے بھی یہ شغل کرتے تھے… یہ باتیں تو شادی کرتے وقت دیکھنے والی ہوتی ہیں کہ کیا ایسے بندے سے آپ کا نِبھاہ ہو بھی سکتا ہے کہ نہیں؟ بندہ بھی وہ جسے فریقِ ثانی اچھے سے جانتا ہو اور ایک ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا ہو۔
مختلف علاقائی نسبت، زبان اور عقیدے کے اختلاف کے با وُجود ہم نے ایسے کئی میاں بیوی دیکھے ہیں جنھوں نے بہترین ازدوادجی زندگی گزاری اور کئی گزار رہے ہیں۔
ایک مثال فیض احمد فیض اور بیگم ایلِس فیض کی بھی دی جا سکتی ہے۔ فیض شاعر تھے اور مے نوشی بھی کرتے تھے۔ ان کی بیوی ان کے خاندان سے نہ تھیں، بل کہ جرمنی کی رہنے والی تھیں۔ ان کے درمیان تو مذہب اور زبان کا بھی واضح فرق موجود تھا۔ فیض صاحب چار برس تک جیل میں رہے، لیکن ایلِس فیض دو چھوٹی بچیوں کو لے کر بڑی ہمت سے تنہا وقت گزارتی رہیں۔ وہ بڑی آسانی سے بچیوں کو لے کر جرمنی جا سکتی تھیں، مگر کوئی شکوہ نہ کیا۔
ایک بار میں نے ان سے انٹرویو کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ آپ نے کیسے اپنے وطن سے دور اجنبی ماحول میں فیض صاحب کے ساتھ زندگی بِتا دی…تو وہ کہنے لگیں فیض صاحب بہت اچھے تھے۔ جب وہ جیل میں تھے تو وہ مشکل وقت تھا میرے لیے مگر میں نے حوصلے سے گزارا۔
یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں دو مختلف کلچر اور قومیت کے حامل افراد ساتھ رہ سکتے ہیں، لیکن دو مختلف مائینڈز کے افراد کا زیادہ دیر نِبھاہ مشکل ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
ایسی صورت میں ہمارے ہاں بچے عموماً ماں کے ساتھ ہی رہتے ہیں اور انھیں سارا قصور ان کے باپ کا ہی بتایا جاتا ہے۔
ان کے قریبی لوگ جانتے ہیں کہ جون ایلیا کی خواہش پر ان کی فیملی کے ایک فرد اور کچھ دوستوں نے صلح صفائی کی کوشش کی تھی جو نا کام رہی۔
بیگم سے علیحدگی کے بعد تقریبآ سات سال وہ علامہ علی کرار نقوی کے گھر مقیم رہے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔
علامہ صاحب کے قریبی ذرائع کے مطابق جون ایلیا کا گھر بکنے کے بعد ان کے حصے کی رقم علامہ صاحب نے جون ایلیا کی وصیت کے مطابق ان کے تینوں بچوں کو وصول کرا دی تھی، جو ان کا حق تھا۔
یہ رقم انیس سال پہلے کئی لاکھ بنتی تھی۔ یہ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ یہ تأثر دور ہو سکے کہ جون ایلیا کے بچوں کو ان سے کچھ نہیں ملا، یا وہ بچوں کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔
میاں بیوی کبھی بھی خوشی سے علیحدہ نہیں ہوتے، کہیں کوئی ذہنی یا سماجی تضاد موجود ہوتا ہے جو شادی سے پہلے جذباتی رو میں دونوں فریق نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں۔
شادی کے بعد تضاد سامنے آ جانے پر جب ایک فریق بَہ ضد ہو جائے کہ اسے ساتھ نہیں رہنا، تو ان کی ضد اور انا کا نقصان صرف ان کے بچے اٹھاتے ہیں۔
بچے جس فریق کے ساتھ رہیں یا جس کے زیرِ اثر ہوں وہ مظلوم قرار پاتا ہے اور دوسرا ان کی نظر میں قصور وار ٹھہرتا ہے۔ حالاں کہ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔
کاش جون ایلیا کی بیٹی صرف اس دکھ کا اظہار کرتیں جو انھیں والدین کی علیحدگی کی صورت میں اٹھانا پڑا لیکن والد کے شاعر ہونے کو اس کا سبب قرار دینا سرا سر زیادتی ہے۔یہ متعدد تضادات اور چغلی کھاتی ایک ایسی تحریر ہے جس پر صرف کفِ افسوس ہی ملا جا سکتا ہے۔”
جانی جون کے متعلق مذکورہ تحریر ان کے مداحوں میں ان کی تخلیقی صلاحیت کی بجا آوری کے علاوہ کچھ ثابت نہ کر سکی ہے کہ شہرت کی دین جون کے علم و فکر کی وہ پہچان ہے جو جون کی تخلیقات کی روشنی میں مزید جون ایلیا کو معتبر ہی کرے گی جب کہ فریقِ ثانی شاید خالی ہاتھ ہی رہیں…