موت کی کہانی

Khizer Hayat
خضرحیات

موت کی کہانی

از، خضر حیات

اور جب بہت سارے محبوب چہرے، زرخیز ذہن، معتبر وجود ایک ایک کرکے خاک تلے دفن ہو گئے تو انسانوں کو احساس ہونے لگا کہ موت ان کی سب سے بڑی دشمن ہے جو ایک ایک کرکے سبھی کو ابدی نیند سُلاتی جاتی ہے۔ مرنے والوں میں بہت سے ایسے بھی تھے جو کچھ ہی عرصہ مزید زندہ رہتے تو دنیا ان کی سوچ کی رہنمائی میں اپنا راستہ تلاش کرتی کئی قدم آگے بڑھ چکی ہوتی۔ جو دنیا کی انگلی تھام کے اسے کئی مزید زینے عبور کرا جاتے۔

جب موت کے بارے میں بدگمانی بڑھی تو ایک دن تمام انسانوں نے اکٹھے ہو کر اسے قید کر لیا۔ اب یہ خطرہ تھم گیا تھا کہ کوئی رات کو اچھا بھلا سوئے گا مگر کیا خبر صبح اسے جا کر مٹی میں دفن کرنا پڑے۔ انسان نے موت پر قابو پا لیا تھا اور لوگوں نے موت سے بے خوف ہوکر جینا شروع کر دیا تھا مگر ابھی بھی ایک چیز تھی جو انہیں ہراساں کیے ہوئے تھی۔ یہ وقت تھا جو ابھی تک آزاد پھر رہا تھا اور چپکے سے اپنا کام کرتا جاتا تھا۔ وقت اپنی فطرت کے مطابق کسی ان دیکھے طفیلیے کی مانند جوان اور صحت مند جسموں سے دھیرے دھیرے توانائی نچوڑتا رہتا اور انہیں بدستور بوڑھا کرتا رہتا۔ یہ دراصل وقت اور موت کے بیچ میں طے پانے والا ایک خاموش معاہدہ تھا جس کے تحت وقت صحت مند جسموں کو ایک خاص لمحاتی چکر سے گزار کر موت کے حوالے کرتا جاتا تھا۔ اب جب موت کو قید کر لیا گیا اور وقت نے اپنا کام بغیر کسی روک ٹوک کے جاری رکھا تو وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے انسانوں کی ایک پوری نسل وقت کے ستم سہتے سہتے بڑھاپے میں مبتلا ہو کر نحیف و نزار ہوتی گئی اور جب ہڈیاں اتنی پرانی ہو گئیں کہ جسموں کے بوجھ کو سہارنے سے بھی عاجز آنے لگیں تو لوگوں کو موت کی غیر موجودگی عذاب لگنے لگی۔ اب وہ وقت آیا جب اپنے اور دھرتی دونوں کے سینے پر یہ سوکھے سڑے وجود بوجھ جاپنے لگے اور بے بسی اور تحقیر کے منوں بوجھ تلے دبے یہ ڈھانچے عذاب بن چکی زندگی سے عاجز آنے لگے۔

منصوبہ یہ بنا کہ اگر وقت کو بھی کسی طرح قائل کر لیا جائے کہ وہ جوان جسموں کو گھاس پھونس میں بدلنے کا عمل روک دے یا آہستہ کر دے تو لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تندرست و توانا اور جوان رہ سکیں گے۔ لوگ اب وقت کو لگام ڈالنے کی تجویزیں سوچنے لگے۔ سوچ بچار کے لاتعداد گھوڑے دوڑائے گئے مگر سبھی خالی لوٹ آئے۔ وقت کو قید کرنے کی کوئی بھی صورت کسی کی سمجھ میں نہ آئی۔ بالآخر نسلِ انسانی کے چند سیانوں نے وقت کے ساتھ مصالحت اور معاہدہ کرنے کے بارے میں سوچا۔ چنانچہ موجودہ وقت کو بلایا گیا اور اسے اس کے پُرکھوں یعنی پرانے وقتوں کے قصے سنائے گئے۔ اسے یاد کرایا گیا کہ ایک وقت تھا جب انسانوں کو کئی کئی سو سالوں کی زندگیاں ملتی تھیں اور وہ لمبے وقت کے لیے توانا اور مضبوط رہتے تھے۔

حاضر وقت کو یہ احساس دلانا بھی ضروری ہو گیا کہ پُرانا وقت لمبی زندگیاں پانے والے انسانوں کے ساتھ بہت رحم دلی کا سلوک کرتا تھا اور ان کے جسموں سے طاقت زائل کرنے میں کسی قسم کی عُجلت کا مظاہرہ نہیں کرتا تھا۔ حاضر وقت سے بھی گزارش کی گئی کہ وہ انسانوں کو کمزور کرنے اور بڑھاپے کی طرف لے جانے والا عمل تھوڑا سُست رفتار کردے تاکہ لوگ زیادہ دیر تک اپنے پیروں پہ چل پھر سکیں اور ان کی زندگیاں ان پر ایسا بوجھ نہ بنتی جائیں جسے اٹھانے کی ان میں سکت نہ رہے اور وہ قیامت تک گھسٹتے پھرنے کی اذیت سے باہر نکل سکیں۔ وقت من موجی مخلوق تھا جسے انسانوں کی جانب سے پیش کردہ یہ تجویز اس کے دائرہ عمل میں مداخلت لگی اور وہ جلال میں آ کے بول اٹھا:

‘دیکھو انسانو! تمہاری اور میری نہ کبھی بنی ہے اور نہ بنے گی۔ تم ایسی مٹی سے بنے ہو جو کسی حال میں بھی مطمئن نہیں رہ سکتی۔ تمہاری زبان پہ سوائے فرمائشوں کی رال کے میں نے آج تک کچھ نہیں دیکھا۔ تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ تم خود کو پوری کائنات کا ڈرائیور سمجھتے ہو اور چاہتے ہو کہ سارے کا سارا نظام ہی تمہارے تابع ہوکے چلے۔ حالانکہ کتنی ہی ایسی بے شمار چیزیں ہیں جو تم پر حاوی ہیں اور تمہیں حقیر ثابت کرتی ہیں مگر تم ہو کہ کسی کی سنتے ہی نہیں ہو۔ پہلے تو تمہارا یہ اشرف المخلوقاتی والا خبط دور کرنا ہوگا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ مجھے تو تم نے آج تک اپنا دشمن بنا کے رکھا ہوا ہے۔ مجھے کوسنے بھی دیتے رہتے ہو اور تھوڑی سی گڑ بڑ ہو جائے تو درخواستیں بھی لے کے پہنچ جاتے ہو۔ کبھی کہتے ہو زمانہ خراب ہے۔ کبھی کہتے ہو وقت بڑی ظالم شے ہے۔ کبھی کہتے ہو وقت کو اپنی قید میں کر لیں گے۔ میرے بارے میں اگر تحسین کے دو بول تمہاری زبان پر آ جائیں گے تو مجھے بتاؤ تمہاری شان میں کیا کمی واقع ہو جائے گی؟’

انسان جو پہلے ہی بے بس ہو کے وقت سے درخواست کرنے پہنچے تھے اب وقت کا جلال دیکھ کے مزید سہم گئے۔ وقت اپنی شعلہ زبانی جاری رکھے ہوئے تھا اور لگ رہا تھا آج وہ سارے زبانی بدلے (یعنی باتوں کے) لے کے ہی چین سے بیٹھے گا۔ وہ پھر بولا:

‘تمہاری منافقت کی میں اس سے بڑھ کر کیا مثال دوں کہ تم لوگوں نے کبھی موجودہ وقت کو یعنی مجھے کسی حیثیت کا نہیں سمجھا مگر جُوں ہی تم اگلے لمحے، اگلے گھنٹے، اگلے سال میں پہنچتے ہو تمہیں میرا گزرا ہوا حصہ اچھا لگنے لگتا ہے۔ میں تو تمہاری حماقتوں کو دنیا جہان کی کامیڈی فلموں پر ترجیح دیتا ہوں جو گزرے ہوئے ایسے وقت کو بھی گلیمرائز کرتے رہتے ہو جس میں انتہائی مشکل حالات کا سامنا کر رہے تھے اور دن رات مرنے کی ترکیبیں سوچتے تھے۔ تم جیسی غیر مطمئن، متجسّس اور دوہرے رویوں والی مخلوق کو کسی حال میں خوش نہیں دیکھا جا سکتا لہٰذا میری اور تمہاری کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ میں اپنی مرضی سے چلوں گا اور اپنے ضابطوں کو دیکھوں گا۔ تمہیں اتنی تکلیف ہو رہی ہے تو موت کو قید کرنے سے پہلے ہی سوچ لینا چاہیے تھا۔ اب رہو اسی حال میں، شاید اس کائنات کا چیمپئن ہونے کی تمہارے دل میں پائی جانے والی غلط فہمی بھی اسے بہانے کچھ کم ہو سکے اور شاید تمہیں اب احساس ہو جائے کہ کچھ چیزیں یہاں تمہارے دائرے سے باہر کی ہیں جنہیں تم کبھی قابو میں نہیں لا سکتے۔’

یہ شاید پہلا موقع تھا جب حضرت انسان کو اس قدر واضح انداز میں اس کی اوقات یاد کرائی گئی تھی مگر اس کا اثر بھی کوئی لمبے عرصے تک نہیں چلنے والا تھا۔ انسان کی سرشت میں ہے کہ وہ ایسی باتوں پہ جلدی ایمان نہیں لاتا۔ اس نشے کا شاید کوئی توڑ نہیں ہے کہ وہ خود کو تمام مخلوقات میں سب سے افضل مخلوق سمجھتا ہے۔ خیر کہانی آگے بڑھتی ہے۔

دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ لوگ اپنے منہ سے موت مانگ رہے تھے، زندگی ان کے لیے ان کی برداشت سے بڑھ کر بوجھ بن چکی تھی اور وقت انہیں دن بدن مزید کمزور کرنے پر کمربستہ تھا۔ اب جب موت کے امیدواروں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی اور دوسری کوئی صورت باقی نہ بچی تو انسانوں نے موت کو ایک بار پھر آزاد کر دیا اور موت جو اتنے دنوں سے قید میں رہنے کے باعث بھوکی پیاسی تھی اس نے بغیر وقت ضائع کیے سانسوں سے آزادی کے پروانے ہر سُو بانٹنے شروع کر دیے اور آن کی آن میں کئی سسکتے وجود زندگی کی سرحد سے اُس پار لنگھا دیے۔

مرنے والوں کو تو جو شانتی ملی سو ملی، پیچھے رہ جانے والوں کو بھی اپنے ساتھی انسانوں کا درد، کرب، بے بسی، لاچاری اور بوجھ سے چھٹکارا پانا ہشاش بشاش کرگیا۔ انہیں موت اب جس روپ میں ملی تھی وہ ان کے لیے موت کا نہایت قابلِ قبول روپ تھا۔

اب انسانوں کی اس بستی کی موجودہ حالت یہ ہے کہ لوگ موت کو سفّاک نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایک ایسا مسیحا سمجھنے لگے ہیں جو انہیں ایک لمحاتی دائرہ پورا کرنے اور خاص وقت گزرنے کے بعد ان کے دکھوں اور زندگی کی قید سے آزادی دیتی ہے. اب لوگ کائنات کا فطری طریقہ کار سمجھ گئے ہیں اور موت کو گھر کا ہی ایک فرد سمجھ کر قبول کرنے لگے ہیں۔ اب انسان موت کو زندگی سے الگ کوئی دوسری چیز نہیں سمجھتے اور زندگی کی طرح موت کو بھی محسن کے روپ میں دیکھتے ہیں۔

اس بستی کے لوگ اب موت کی حقیقت کو گلے لگا چکے ہیں اور پہلے کی نسبت بہت زیادہ مطمئن ہیں۔


پسِ نوشت: اب خبر نہیں یہ افسانہ ہے، کہانی، میٹا تھنکنگ ہے، لا لکھائی یا پھر یاوہ گوئی۔ جو بھی ہے بس یہی ہے۔