طبقاتی تفریق سے مُبرا حادثاتی اموات کے امدادی پیکج
شمع ذوالفقار
مملکتِ خدا داد پاکستان کئی دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام، غیر جمہوری طرز حکومت، ذاتی پسند نا پسند پر مبنی خارجہ پالیسی اور اخلاقیات و اقتصادیات کی گراوٹ کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے اس مُلک کے بیشتر افراد گونا گوں مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔
خاص کر پچھلے ایک عشرے سے یہ مُلک تشدد اور شدت پسند رویوں کی وجہ سے لہو لہان ہے۔ اب تک 70 ہزار کے لگ بھگ افراد لقمہِ اجل بن چُکے ہیں جس میں سے بیشتر افراد اسلام کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔
حکومت پاکستان اس مسئلے سے نمٹنےکے لیے کبھی سنجیدہ تو کبھی غیر سنجیدہ کوششیں کرتی نظر آتی ہے، مگر ابھی تک اس مسئلے کو جڑ سے اُکھاڑا نہیں جا سکا۔ اس حوالے سے بہت ساری قیاس آرائیاں، تھیوریز اور پالیسیاں مُختلف طبقہِ فکر کے لوگوں کے بیچ زیر بحث رہتی ہیں مگر کسی ایک نُکتے پر اتفاق کا فُقدان واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے ریاست پوری طاقت اور تندہی سے تشدد پر مبنی بیانیے کے خلاف اپنی حکمت عملی شفاف انداز میں اب تک اختیار نہیں کر سکی۔
اس فقدان کی وجہ سے قتل و غارت کا سلسلہ بھی پوری طرح سے تھم نہیں سکا اور وقتاً فوقتاً دھماکوں اور حادثات کی وجہ سے لوگ مرتے رہتے ہیں۔ جب لوگ حکومت کی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے مرتے ہیں تو حکومت اُن کے ورثاء کی داد رسی کے لیے مُختلف پیکجز کا اعلان کرتی ہے۔
ان پیکجز کے حوالے سے بھی ریاست کے دوسرے معاملات کی طرح واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے بُحران کا شکار نظر آتی ہے جس کی حالیہ مثال پاڑہ چنار میں مرنے والوں کے ورثا کو دی جانے والی رقم پر کافی بحث اور لے دے کی شکل میں ہمیں نظر آئی۔
میں نے اس حوالے سے مُختلف واقعات میں مرنے والے افراد کو دیے جانے والے پیکجز کے تناظر میں ذاتی کوششوں سے کُچھ ڈیٹا اکٹھا کیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرنے والوں کی مذہبی شناخت، علاقہ، پیشہ اور جان جانے کی وجہ کو مد نظر رکھ کر پیکج کا اعلان کیا جاتا ہے جو پہلے سے موجود تفریق اور نفرت کو اور بڑھاوا دیتا ہے۔ مثلاً
ہوائی حادثے میں مرنے والے افراد کے لیے تیس لاکھ
جل کر مرنے والوں کے لیے بیس لاکھ
دھماکے میں مرنے والوں کو پندرہ لاکھ
ٹرین حادثہ میں مرنے پر دس لاکھ
بس حادثہ پانچ لاکھ، وہ بھی اگر اموات 30 یا اس سے زیادہ ہوں
دوران ریپ انصاف نہ ملنے کی وجہ سے خود کُشی کرنے والوں کو دو لاکھ، مگر اس کے لیے میڈیا کوریج ضروری ہے
اسی فیصد سے زائد جلنے والوں کے لیے دس لاکھ
پچاس فیصد سے زائد جلنے والوںکے لیے پانچ لاکھ
بم دھماکے میں ٹانگ یا ہاتھ ضائع ہونے پر تین لاکھ
زخمی ہونے والوں کے لیے پچاس ہزار
اگر کسی واقعے کو میڈیا کی ایک دن سے زائد کی کوریج ملتی ہے تو معاوضہ بیس سے پچیس فیصد بڑھ بھی سکتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگ غُصے میں آکر دھرنا دے دیں تو پچاس سے ساٹھ فیصد معاوضہ طے شُدہ ریٹوں سے مزید بڑھا دیا جاتا ہے۔
ان پیکجز کو دیکھ کر حیرانی، پریشانی، دُکھ، غصہ اور نفرت کی طرح کے جو ملے جُلے جو احساسات پیدا ہوتے ہیں وہ اپنی جگہ، مگر اس حقیقت کو جُھٹلایا بھی تو نہیں جا سکتاکہ لوگ مر رہے ہیں، اور حالیہ پالیسیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آسانی سے اور افسوس کے ساتھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لوگ مُستقبل میں بھی اسی طرح مرتے رہیں گے۔ اگر حکومت لوگوں کی زندگیوں کو تحفظ نہیں دے سکتی تو کم از کم مرنے والوں کے لیے طبقاتی تفریق سے مُبرا موت پیکج کے نام سے واضح پالیسی ہی بنا لے۔
ادارتی نوٹ : ایسی کسی پالیسی کی ضرورت اس تناظر میں اور بھی بڑھ جاتی ہے جب کہ ہمارے ہاں حادثات اور بم دھماکوں کے نتیجے میں موت کے سایے کسی بھی لمحے منڈلاتے رہتے ہیں۔ لیکن لائف انشورنس کی سکیمیں غربت کی وجہ سے معاشرے میں بہت کم شرح و تعداد میں موجود ہیں۔ ان کی سرایت نا ہونے کے برابر ہے۔ اس سلسلے میں امن و امان کے ذمے داروں اور سماجی تحفظ کے کرتا دھرتاؤں کو مثبت انداز میں سامنے آنے اور صورتِ حال کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال معاوضے کی تقسیم و اعلان کردہ رقم کے سلسلے میں طبقاتی تفاوت کسی طور بھی پسندیدہ نہیں۔