(تنویر احمد)
دسمبر کی آمد سے ہزیمت، شکست اور شرمندگی کی سوئیاں رگ و پے میں چبھنے لگتی ہیں۔ اس ماہ کے درمیانی عشرے کی سولہ تاریخ اس ملک کے وجود کے ساتھ کھیلے جانے والے اس گھناؤنے کھیل کی تلخ یادوں کا دفتر کھول دیتا ہے، جب قائد اعظم محمد علی جناح کے اس ملک کو دولخت کر دیا گیا۔ جس کے قیام کے پس پردہ جمہوری، روشن خیال، مساوات اور شہری آزادیوں کے بلند و ارفع نظریات کار فرما تھے۔ قائد کے ایک جمہوری و روشن خیال ملک کو دوحصوں میں تقسیم کرنے والے کردارو ں کے چہرے پر تاریخ نے ایسی کالک ملی ہے جسے وقت کا بہاؤ بھی نہیں مٹا سکا۔
فیض کے الفاظ مستعار لئے جائیں تو خون کے وہ دھبے ابھی تک دھلنے کو نہیں آرہے جو چودہ اگست 1947سے لے کر سولہ دسمبر 1971تک آمرانہ، غیر مہذبانہ، جابرانہ اور استبدادانہ پالیسیوں کی بدولت متحدہ پاکستان کے وجود پر بدنما داغ کے طور پر ثبت ہوئے تھے جس نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ایک الگ ملک کے طور پر ابھرنے کی راہ ہموار کی۔ پاکستان کا وجود اگر سنگین لگی بندوق کا رہین منت نہ تھا، تو پھر اس کے بقا کے لئے سنگینوں کے سائے میں مشرقی پاکستان کوکیونکر سانس لینے پر مجبور کر دیا گیا تھا؟
یہ ہماری تاریخ کا ایک بد نما اور کریہہ باب ہے جس کے ذکر سے نا صرف ایک عام پاکستانی حزن و ملال کے سمندر میں غرقاب ہونے لگتا ہے، بلکہ بانیان پاکستان کے روحیں شاید آج تک اس سانحے پر بے قرار ہیں جب ان کی تخلیق کو دو حصوں میں بانٹ دیا تھا۔ مشرقی پاکستان کے سانحے کے ذمہ داروں پر مقتدر حلقوں نے تو پراسراریت اور رازداری کے دبیز پردے ڈالنے کی کوشش کی؛ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر آنے سے روکنے کے لئے عشروں تک سرکاری قفل زنگ آلود ہوتے رہے۔ لیکن تاریخ نے ان کرداروں کو معتوب و ملعون قرار دیا جو مشرقی پاکستان کے پاکستانیوں کے حق رائے کے سامنے مزاحم ہوئے۔
پاکستان کا وجود جو ووٹ کے بل بوتے پر عمل میں آیا لیکن ہم نے اس ووٹ کے تقدس کو تاریخ میں با ر ہا روندا، جس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں اس قوم کو ایک ناقابل فراموش سانحہ عطا کیا، تو دوسری جانب با ر بار باقی ماندہ پاکستان میں بے چینی، شورش، فسادات اور رجعت پسند قوتوں کو بڑھاوا اور انتہا پسند رجحانات کو فروغ دیا۔ بلاشبہ بھارت پاکستان کا کھلا دشمن ہے اور اس کی جانب سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں گھناؤنا کردار ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جس پر کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی۔ غیر ملک جس سازش کے تانے بانے بنے گئے تھے اس کے الگ رکھیے لیکن پہلے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ ہم نے مشرقی پاکستان کے باسیوں کے ساتھ کیا برتاؤ روا رکھا۔ متحدہ پاکستان میں اکثریت رکھنے والے بنگالیوں کو متحدہ پاکستان کے چو بیس برسوں میں ہم نے کار مملکت میں کس حد تک دخیل ہونے دیا۔ اقتدار کے اعلیٰ ترین ایوانوں سے لے کر ریاستی اداروں میں ان کی نمائندگی اگر آٹے میں نمک کے برابر رہی تو پھر ہم کس طرح اس وفاداری کا تقاضا کرنے میں جائز ٹھہرتے ہیں جو پاکستان کو متحد رکھنے کی قوت کی حامل تھی۔
سیاسی، معاشی، تہذیبی اور لسانی طور پر اگر اس وقت کی ہےئت مقتدرہ نے بنگالیوں کو ہرنوع کے حقوق سے محروم رکھ کر ان سے وفاداری کی غلط توقعات باندھی ہوئی تھیں تو پھر ہمیں ان کی دماغی حالت پر شک کرنے کا پورا حق ہے جو اس وقت متحدہ پاکستان کے کرتا دھرتا بنے ہوئے تھے۔ ہماری ہیئت مقتدرہ نے سیاسی طور پر اگر انہیں اقتدار سے محروم رکھا تو دوسری جانب معاشی تفاوت کی ایسی خلیج دونوں حصوں کے درمیان حائل ہو گئی جہاں پاکستانی قومیت کی ناؤ ساحل پر لگنے کی بجائے غرقاب ہو گئی۔ شراکتی ترقی کا وہ تصور جو پاکستان جیسے کثیر السانی اور کثیر الثقافتی ملک کے لئے نا گزیر تھا وہ بد قسمتی سے شرمندہ تعبیر نہ ہوا اور ہم یکساں مذہب کی بنیاد پر دونوں خطوں کو باہم جوڑ کر رکھنے کی سعی لاحاصل میں سر گرم رہے۔
جدید دنیا میں ایک قومی ریاست کے تقاضوں، ضروریات، خواہشات اورامنگوں کو پس پشت ڈال کر ہم نے فقط مشترکہ مذہب کی بنیاد پر اتحاد و یک جہتی کی جو کوشش کی اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ مذہب متحدہ پاکستان میں بجا طور پر ایک فیکٹر کے طور پر کا ر فرما رہا کہ جب مسلمانان بر صغیر نے جدو جہد پاکستان میں مذہب کے ایک فیکٹر کے لئے استعمال کیا لیکن ملک کے قیام کے بعد فقط اس ایک عنصر سے کار مملکت کو نہیں نمٹایا جا سکتا تھا اگر یکساں مذہب کا نعرہ بلند کرنے کے علاوہ آپ معاشرے کے مختلف طبقات کی معاشی، سیاسی اور تہذیبی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوں تو پھر کسی قومی ریاست کا وجود ایک اکائی کے طور پر قائم رہنا ناممکن ٹھہرتا ہے۔
مشرقی پاکستان کے کیس میں ہم سے یہی تاریخی غلطی سر زرد ہوئی اور آج بھی شاید با قی ماندہ پاکستان میں ہم یہ غلطی دھرانے پر مصر ہیں۔ پاکستان کے قیام کے پس پردہ مختلف صوبوں اور خطوں کی وہ آزادانہ رائے تھی جو کہیں ووٹ کی صورت میں، کہیں ریفرنڈم کی صورت میں اور کہیں قبائلی عمائدین کے جرگے کی رضامندی کی صورت میں متحرک تھی۔ پاکستان کے مقتدر اداروں سے ماضی میں فاش غلطیاں سرزرد ہوئیں کہ انہوں نے عوامی مقبولیت کی قوتوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش میں متحدہ پاکستان کو ہی دیوار سے لگا دیا تھا۔ مشرقی پاکستان کے سانحے نے جہاں ہمارے قومی وجود پر کاری ضرب لگائی تو وہیں اس نے ہمیں ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ان غلطیوں کو دوہرانے سے اجتناب کرنے کا بھی درس دیا کہ جنہوں نے متحدہ پاکستان کو ایک عظیم ہزیمت سے دوچار کیا تھا۔
بد قسمتی سے گزشتہ چار عشروں میں ہم نے سانحہ مشرقی پاکستان سے کم ہی سیکھا اور با رہا اس عمل کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی۔ جس میں باقی ماندہ پاکستان کی وفاقی اکائیوں کے درمیان شراکتی معاشی ترقی، ایک روشن خیال جمہوری، مساوات و انصاف پسند معاشرے کا قیام عمل میں لانا تھا۔ ان رکاوٹوں کے باعث پاکستان میں رجعت پسند قوتوں کو فروغ ملا۔ جنہوں نے سولہ دسمبر کو معصوم بچوں کی صورت میں ایک اور سانحے کی کرچیوں سے ہمارے وجود کو چھلنی کر ڈالا۔