پشاور، سولہ دسمبر، 2014
از، عرفانہ یاسر
یہ بھی ایک دن تھا۔ دن کیا تھا، گھڑی کی سوئیوں کا رینگتا عذاب تھا۔
بریکنگ نیوز: وارسک روڈ پشاور پر سکول کے قریب فائرنگ
ایک خبر ٹی وی پر فلیش ہوئی۔ ایک نظر دیکھی اور سوچا لگتا ہے کسی رپورٹر نے بریکنگ نیوز کی دوڑ میں آگے نکل جانے کی آڑ میں یہ خبر دے دی ہے۔ کوئی لڑائی ہوئی ہو گی… لوگ بھی تو بات بات پر اسلحہ نکال لیتے ہیں۔
اگلی خبر: آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں کا حملہ
یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کوئی کتنا ہی ظالم کیوں نہ ہوں وہ سکولوں کے بچوں کو کیسے نشانہ بنا سکتا ہے۔ بچے تو معصوم ہیں۔ جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔
یہ آج کل کے ٹی وی چینلز بھی نہ… ایسے ہی افواہیں اڑاتیں رہتے ہیں… دل دل میں کوسا… ضرور یہ بھی ایسے ہی کوئی خبر ہوگی، جیسے کسی جگہ دھماکے کی آواز سنی گئی کی خبر آتی ہے اور چند لمحوں کے بعد پھر وہ خبر غائب ہو جاتی ہے۔
اپنے کام میں مصروف ہو گئے… تھوڑی دیر بعد کی خبر… اسکول کے اندر سے گولیوں کی آوازیں آ رہی ہیں… دھماکے کی آ واز بھی سنی گئی ہے… لگتا ہے بچے آپس میں کھیل رہے ہوں گے… دھماکے کی آ واز… کوئی سیلنڈر پھٹ گیا ہو گا۔۔۔ آج کل کے سلنڈر بھی تو پائیدار نہیں ہوتے، یسے ہی پھٹ جاتے ہیں… ابھی کچھ دن پہلے کی خبر تھی… سیلنڈر کے پھٹنے سے لوگ زخمی ہوئے ہیں۔
پھر کام میں مصروف ہو گئے… تھوڑی دیر بعد پھر ٹی وی پر نظر ڈالی… سیکیورٹی فورسز نے سکول کو گھیرے میں لے لیا… گرافکس کے ساتھ سکول کی لوکیشن دکھائی جا رہی تھی… سکول کس جگہ واقع ہے… ابھی تک کوئی فوٹیج تو نہیں دیکھی۔۔۔ ضرور یہ افواہ ہی ہو گی… دل کو تسلی دی… کام بھی آج جلدی ختم کرنا ہے… پھر مصروف!
ایک کولیگ کی آواز آئی… کسی اور چینل پر دیکھتے ہیں… لگتا ہے صرف اسی چینل کے پاس خبر ہے… کوئی افواہ ہی لگ رہی ہے۔
جیو، ایکسپریس نیوز، دنیا نیوز، ڈان نیوز… یہ تو سب کے سب یہی دِکھا رہے ہیں… اے اللہ رحم کرنا… سب ماؤں کے بچوں کو اپے حفظ و امان میں رکھنا… ایک امید تھی کوئی بڑا واقعہ نہیں لگتا… سب ٹھیک رہے گا۔ لیکن 16 دسمبر کا دن ہی پاکستان کی تاریخ میں سیاہ رہا ہے… سب امیدیں دم توڑ گئیں… اور وہ ہوا جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔
تھوڑی دیر بعد نیوز چینلز نے فو ٹیج دکھانی شروع کی تو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا… معصوم، سہمے ہوئے بچوں کو سیکیورٹی فورسز کے جوان ریسکیو کرا کر لے کر آ رہے تھے… ان معصوم بچوں کے چہرے آ ج بھی بھولے نہیں بھولتے۔
اگلی خبر آئی… اے پی ایس سکول پر دہشت گردوں کا حملہ… 10 بچے شہید… گولیوں کی آوازیں ابھی بھی سکول سے آ رہی ہے… بچے شہید ہو گئے ہیں… چھوٹے بچے جن کو ابھی یہ بھی نہیں پتا تھا کہ دہشت گرد کہتے کس کو ہیں!
20 بچے شہید… ریسکیو ذرائع… یہ تو بڑھتے جا رہے ہیں… لیکن ابھی بھی امید تھی… اب تک سب دہشت گرد مارے جا چکیں ہوں گے… اور باقی بچے محفوظ ہوں گے… لیکن یہ دن تو سب امیدیں ٹوٹ جانے کا دن تھا۔
50 بچے شہید، 50 زخمی: پولیس ذرائع… زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے… جیسے جیسے وقت گزرتا گیا۔
اے پی ایس پشاور سے آنے والی خبریں دل دہلا نے والی تھی… اور اس دن کی شام بد ترین شام تھی جس میں یہ خبر آئی کہ بچوں سمیت 150 کے قریب لوگ شہید ہو گئے ہیں۔
سیاست دانوں کے مذمتی بیانات… ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کر کے ہی دم لیں گے۔ دہشت گرد ہمارے حوصلے کم نہیں کر سکتے… اور پھر وہی روز کے کام۔ جی، پھر وہی روز کے کام!
آج اس پشاور سکول کے واقعے کو دو سال ہو گئے ہیں… لیکن آج بھی ان ماؤں کا درد محسوس ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے معصوم بچوں کو کھو دیا… کیسے نصیب ہوتے ہیں ماؤں کےبھی… وہ اولاد کو جنمیں بھی تو درد ان کا مقدر، پر یہ درد تو تخلیقی ہوتا ہے، ایک فخر ہوتا ہے۔ لیکن جوان بچوں کو اپنے ہاتھ سے دفنانے کا غم؟ ماں جو تخلیق کا منبع ہوتی ہے۔ کیسا ہو سکتا ہے یہ وقت اس کے لیے… اس متعلق میرے لفظوں کی زبان گَنگ ہوجاتی ہے۔ باقی آپ کے تخیل کو سونپے دیتے ہیں!
سانحہِ پشاور کے حوالے سے
آبِ زم زم میں اگر زہر ملا سکتا ہے
موجِ نفرت میں کہیں تک بھی وہ جا سکتا ہے
کر کے وہ پھول سے بچوں کو لہو میں لت پت
اُن کے ملبوس کی دستار بنا سکتا ہے
جن سے بارود گراتا ہے وہ اسکولوں پر
حیف ! قرآں انہی ہاتھوں میں اٹھا سکتا ہے
اُس کی خصلت پہ تو حیراں ہیں درندے سارے
وحش ایسا کسی انساں میں بھی آ سکتا ہے
اُس کے نزدیک مثالی وہی مومن ہے کہ جو
ٹکڑے جسموں کے مساجد میں اڑا سکتا ہے
اُس کے سینے میں تو احساس کا جگنو بھی نہیں
وہ فقط جلتے چراغوں کو بجھا سکتا ہے
جلیل عالی