میثاقِ جمہوریت
از، سفیان مقصود
۲۰۰۶ میں جب میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو جلا وطنی کاٹ رہے تھے اور پاکستان میں مشرف کی آمریت تھی، ایسے وقت میں بے نظیر ایک ایسی پیشکش لے کر میاں صاحب کے پاس پہنچییں جو پاکستان کی سیاست میں کسی نے نا سوچا تھا، نا پہلے ہوا تھا، یہ پیش کش ایک معاہدہ تھا جو تاریخ میں مثاقِ جمہوریت کے نام سے مشہور ہوا۔
اس معاہدے میں ایسے عوامل شامل تھے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ ہمیشہ کے لیے بدلنے کی صلاحیت رکھتے تھے، ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں نے ماضی کی تلخ یادوں کو ہمیشہ کے لیے دفن کر کے جمہوریت کے لیے جد و جہد کرنے کا عزم کیا اور آمریت کے خلاف آہنی دیوار بننے کا فیصلہ کیا۔ میاں صاحب مشرف کی موجودگی میں الیکشن لڑنے کے حق میں نہیں تھے، لیکن یہ محترمہ بے نظیر تھیں جنہوں نے میاں صاحب کو الیکشن لڑنے اور وطن واپسی پر آمادہ کیا۔
محترمہ کی شہادت کے بعد پی پی کی قیادت اور پارٹی پوزیشن تبدیل ہو گئی، لیکن پی پی کی نئی قیادت نے میثاقِ جمہوریت کو زندہ رکھنے کا عزم کیا۔ الیکشن کے نتیجے میں پی پی ملک کی بڑی جماعت بن کر ابھری جسے میاں صاحب نے حکومت بنانے اور حکومت میں ساتھ بیٹھنے کا فیصلہ کیا، لیکن پھر افتخار محمد چودھری کی بَہ حالی کے معاملے پر دونوں پارٹیوں میں پہلی دراڑ پڑی اور میاں صاحب نے حکومت سے علیحدگی اور عدلیہ بہ حالی کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔
لیکن وقت نے میاں صاحب کو غلط ثابت کیا۔ اس کے بعد پاکستان کی سیاست ایک بار پھر نوے کی دھائی میں چلی گئی میاں صاحب ایک بار پھر اسٹیبلیشمنٹ کے فیورٹ بن گئے اور میثاقِ جمہوریت توڑنے کا بھی اعلان کر دیا۔
یوسف رضا کی نا اہلی کی ن لیگ نے کھل کر حمایت کی اور زرداری اور پی پی کے خلاف جو زبان استعمال کی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے جو میاں صاحب کے لیے تا عُمر پچھتاوے کا باعث رہے گا۔
میاں صاحب جب تیسری بار وزیر اعظم بنے تو عمران خان کے دھرنے نے میاں صاحب کو مشکلات کا شکار کر دیا۔ ایسے وقت میں ہمیشہ کی طرح پی پی نے ایک بار پھر جمہوریت پسندی کا ساتھ دیتے ہوئے ن لیگ کا ساتھ دیا، لیکن جب ن لیگ مشکل حالات سے نکلی تو ایک بار پھر پی پی کے خلاف محاذ کھول دیا۔
نیب میں کیسز بنوائے گئے اور انتقامی سیاست کا بازار گرم کیاگیا، لیکن جب پانامہ معاملے میں میاں صاحب کو نا اہلی کا سامنا کرنا پڑا ایسے کڑے وقت میں پی پی ایک بار پھر ن لیگ کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔
اس صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ پی پی نے ہمشہ جمہور کے لیے سب اختلافات بھلا کر ن لیگ کا ساتھ دیا، لیکن ن لیگ نے ہمیشہ مفاد پرست ہونے کا ثبوت دیا۔
آج ایک بار پھر مریم بی بی اور بلاول بھٹو نے میثاقِ جمہویت بَہ حال کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، لیکن بلاول نے ورثے میں جمہوریت پسندی اور نظریہ پایا ہے جب کِہ مریم بی بی کا وَرثہ مفاد پرستی ہے؛ اور تاریخ گواہ ہے کبھی کسی نظریاتی اور مفاد پرست میں کوئی اتحاد ہوا ہے نا ہو گا۔