گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کاری شو
از، نصیر احمد
گریز از طرز جمهوری غلام پخته کاری شو
که از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید
اقبال
ھاھا، پھر یہ نقصان تو ہوتا ہے، جب طرز جمہوری سے گریز کر کے پختہ کاری کے غلام ہو جائیں تو فکر انسانی چار ہزار سال پیچھے چلی جاتی ہے اور پامال مضامین سے غرور و تکبر ہی اخذ کیا جا سکتا ہے جس کے تحفظ کے لیے غیروں سے بد سلوکی اور سچ سے دوری اختیار کرنی پڑ جاتی ہے۔
اچھا جی، یہی بات فرعون سے لے کر سٹالن کرتے رہے۔لیکن اس پختہ کاری کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی نئی بات نہیں ہو پاتی، سچی بات نہیں ہو پاتی، اچھی بات نہیں پاتی۔
یہ بات سطحی جذباتیت اور غرور کو تو اپیل کرتی ہے لیکن انسانیت کے لیے نقصان دہ ہے۔
کوئی چوہے کہتا ہے، کوئی کیکڑے کہتا ہے، کوئی گدھے کہتا ہے مگر ایسا ہوتا نہیں۔ جب انھیں موقع ملتا ہے، تو ڈاکٹر، انجنئیر، سائنس دان، سیاست دان اور معاشرہ دان سب کچھ بن جاتے ہیں۔
انسان تو انسان ہی ہوتا ہے اور ہر کسی کے امکانات ہوتے ہیں۔ اور سیاسی اور معاشی نظام کو سب کے امکانات میں آزادی، برابری اور برادری کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ کوشش تو کرنی ہوتی ہے۔
ایفریقیوں کو کتنا عرصہ کہتے رہے کہ ڈھورڈنگر ہیں لیکن جب اس سوچ سے تھوڑا پیچھے ہٹے تو ایفریقیوں میں شاعر، فلسفی اور سائنس دان پائے جانے لگے۔
مزید دیکھیے: پاکستان میں لبرل ازم اور مذہب کی چپقلش کا کوئی جواز تو نہیں؟ از، نصیر احمد
اب پھر سیانوں کے راج کی باتیں ہونے لگی ہیں مگر اقلیت دشمنی، حقوق کی معطلی اور تشدد ہی تو بڑھا ہے۔
دانائی سچائی سے فرار کا تو نام نہیں۔
اقبال اور ان جیسے دوسروں کا مغربی تجربہ شاید اچھا نہیں ہوا۔ نسل پرستی بھی تھی، استعمار سے متعلق بھی تکالیف تھیں، پرایا دیس بھی تھا اور کچھ رویوں میں غیروں سے دشمنی تھی۔جیسے ہی فاشزم سامنے آیا تو یہ لوگ اس پر جھپٹ پڑے کہ ان سب تکالیف کے باعث جو نفسیاتی مسائل ہیں ان کو واہموں کے بوجھ تلے دبا دیں۔
یہ سوچا نہیں کہ جو بات اختیار کر رہے ہیں، اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ ساری تشکیک جمہوریت کے نام کر دی اور سارا یقین فاشزم کے۔ اور جب فاشزم کو مذہب سے منسلک کیا تو معاملات اور خراب ہو گئے۔
اور پھر یہ ہوا کہ جن کو خر کہتے تھے، انھوں نے معاشرے آزاد کیے، معاشروں میں کچھ برابری بڑھائی اور آپسی تعلقات بہتر کیے اور ان کیا ختراع ، ایجاد اور دریافت میں اور نکھار آتا گیا جو آجکل کچھ خطرے میں ہے کہ وہاں بھی سیانوں کا کچھ عروج ہو گیا ہے۔ اور جنھیں انسان کہتے تھے
کھاتا ہے کوڑا بھی
رہتا ہے بھوکا بھی
کہیے شریمان آپ کا کیا وچار ہے؟
اور رہی فارسی، جہاں اصلی تے وڈی فارسی ہے وہاں پر بھی داناوں کی حکومت ہے جہاں ایک ہی دانا کروڑوں گدھوں پر بھاری ہے۔ مگر وہ لڑکا گلہ کرتا ہے کہ ہماری زبان ہی گل و بلبل کی زبان تھی لیکن جب سے آقا حاکم ہیں، گل بیمار ہے اور بلبل زنداں میں۔ پہلے بھی کچھ اچھا نہیں تھا کیونکہ وہ بھی دانائی کا ایک ہی بہروپ تھا لیکن لڑکے نے تو دستار عمامہ میں دانائی چمکتی دمکتی دیکھی ہے۔
لیکن یہ بے علم غرور و تکبر والی سوچ نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک طرز جمہوری کے اچھے دنوں میں توانا ہو گئی تھی، اب تو ٹائم ہی خراب ہے، اب تو توانا تر ہو گی۔یعنی پہلے جمہوریوں کو گدھا کہے تو کم از کم ماتھے پر شکنیں نمودار ہو جاتی تھیں، دو تین جمہوری ہوں، تو کچھ احتجاج بھی کر دیتے تھے، اب تو آقا گدھا کہیں گے اور ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں رہ جائے گا۔
ہم تو کہتے ہی رہتے ہیں جب کوئی بہت دانا بننے کی کوشش کرے تو سجدے میں جانے سے پہلے کچھ سوچ تو لیں کہ کہہ کیا رہا ہے؟ اپنے جیسا انسان ہی تو ہے، ہو سکتا ہے ہم آپ سے کچھ سیانا بھی ہو لیکن بات تو سامنے پڑی ہوتی ہے ناں، اس کا تجزیہ تو ہمارے امکان میں ہے اور جو بات اپنے اور اپنے بچوں کے امکانات کے خلاف ہو، وہ تو سمجھ آ ہی جانی چاہیے۔پڑھنے لکھنے کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا ناں کہ اپنی نفسیاتی کمزوریوں کو واہموں میں گم کر دیا جائے۔