جمہوریت محض تصنع تو نہیں
از، نصیر احمد
اپنا اپنا نکتہ نظر ہوتا ہے۔ وہ اگر طالبان کی اور القاعدہ کی بھرپور حمایت کے بعد بھی جمہوریت پسند ہیں تو ان کے حساب سے یوسفی صاحب اگر بہت بڑے جمہوریت پسند ہیں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ سب داغ دُھل جاتے ہیں، سب نشانیاں مٹ جاتی ہیں، سب سراغ چھپ جاتے ہیں پاس اگر طاقت اور پیسہ ہو اور محلے میں نام ہو۔ بس کچھ غیر اہم لوگ اور غیر اہم جگہیں رہ جاتی ہیں جہاں سچائی سسکتی رہتی ہے۔
نواز شریف بھی اسی طرح کے جمہوریت پسند ہیں کہ ان کے پاس بھی سلیمانی ٹوپی موجود ہے اور انہوں نے بھی سب کچھ چھپا لیا ہے۔
پرویز مشرف بھی جمہوریت پسند ہیں۔ ان کی بھی اپنی پارٹی ہے۔ ان کی تو عدالت میں طلبی بھی ممکن نہیں ہے۔
کس کس کا نام لیں؟ بارڈر پار مودی بھی جمہوریت پسند ہیں۔ لوگ بھی جلے، گھر بھی اجڑے لیکن جج اور گواہ خریدے جا سکتے ہیں، ثبوت مٹائے جا سکتے ہیں۔ اور عوام کو تو بس گن پتی بپا کی جے جے کار ہی تو درکار ہے۔ گنیش جی سرجن (ولی دکنی والا سریجن نہیں انگریزی والا سرجن) ہو سکتے ہیں تو مودی جمہور پسند کیوں نہیں ہو سکتے۔
کل ہی جمہوریت کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے برطانیہ عظیم کے قصے سنائے۔ ان کی نیت تو جمہوریت کی حمایت کی نہیں تھی مگر سچی بات بھی معشوقہ جان فزا کی یاد کی طرح ہوتی ہے، کسی نہ کسی روزن یا دریچے سے ٹپک ہی پڑتی ہے۔
کہہ رہے تھے اپنے لوگوں میں اور انگریزوں میں بہت فرق ہے۔ ان کے رہائشی علاقے کے مے خانے میں قتل ہو گیا۔ پہلے دو چار دن تو قاتل کا کچھ پتا نہیں چلا، لیکن ایک دن قاتل کی معشوقہ تھانے پہنچ ہی گئی اور بتانے لگی کہ قتل اس کے عاشق نے کیا ہے۔
تھانے والوں نے پوچھا، اتنی دیر کیوں ہوئی؟ اس بے چاری نے کیا کہنا تھا وہی محبت اور فرض کی جنگ، سچ اور جھوٹ کی کشمکش۔ کہہ رہے تھے کہ اس خاتون نے یہی بتایا کہ اسی پیچ و تاب میں وہ چند راتیں سو نہیں پائی اور اب سچی بات لیے قانون کے سامنے کھڑی ہے۔ پھر اپنوں (پاکستانی نژاد) کے علاقے میں ہونے والے ایک قتل کا بھی بتایا۔ سب دیکھ رہے تھے مگر چشم دید گواہ پولیس کو ملتا نہیں تھا۔
مزید دیکھیے: جمہوریت صرف عوام کی بالادستی کا نام ہے از، خورشید ندیم
کیا ناخواندہ لوگ ملک کو ترقی نہیں کرنے دیتے؟ از، شمع عزیز
پولیس نے سائنسی تفتیش بروئے کار لاتے ہوئے سراغ لگا لیا۔ لیکن گواہی پر کسی کو آمادہ نہیں کر سکی۔ قاتل کا سراغ لگاتے لگاتے پاکستان تک پہنچ گئی مگر جب یہاں چھتوں پر کلاشنکوف بردار کھڑے دیکھے تو اس پردیسی پولیس کو بھی سائنسی تفتیش معطل کرتے ہوئے اچھے دنوں کے انتظار پر اکتفا کرنا پڑا۔ لیکن پولیس بات بھولی نہیں اور ایک دن سپین سے قاتلوں کو گرفتار کر لیا۔
وہ ایک فلم تھی، مسی سی پی برننگ جس میں شہری حقوق کی تحریک کے دنوں میں ایف بی آئی (امریکہ کا ایک تفتیشی ادارہ) مسی سی پی کے کسی قصبے میں نسل پرستی کے خاتمے کے لیے ڈرے ہوئے افریقی نژاد امریکیوں کا ڈر ختم کرتی ہے اور سفید فام امریکیوں کی رعونت کا فسانہ بھی توڑتی ہے جس کے نتیجے میں سچی بات سامنے آنا شروع ہو جاتی ہے۔
ہمارے ہاں کے تربیت یافتہ لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر حکومت سچائی اور اچھائی کے لیے امداد کرنا بھی شروع کر دے، زیادتی کی چوکیداری کا نفسیاتی اور سماجی نظام اتنا مضبوط ہےکہ سچی بات تب بھی دبی ہی رہے گی۔ اسی وجہ سے مغربی جمہوریتوں میں بھی اپنوں کے جرائم کی پردہ پوشی ہی کی جاتی ہے۔ (ویسے بھارت نے اس فلم کا چربہ بھی بنایا ہے جس میں اپنے چھدا بھائی(اجے دیو گن) چمکتے کم بجھتے زیادہ ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہاں فرد ہے جس کی اپنی ریاست سے ایک ہمدردی ہے، اپنے حقوق اور فرائض سے کچھ وابستگی بھی ہے، اور اپنے اندر کی آوازوں سے کچھ لڑائی جھگڑا بھی کرنا پڑتا ہے۔
ادھر قوم کی رکھوالی سچ سے زیادہ ضروری ہے۔ پھپھو کی تائی کی چاچی کی بھانجی کا قاتل سے اگر کچھ ناتا بنتا ہو تو پھر اس ناتے کی پاسداری شہری ذمہ داری سے بھی اہم ہوتی ہے اور انسانیت سے بھی۔ اور قوم بھی اتنی بڑی ہے کہ چیچنیا کی حفاظت کرنی ہے، ازبکوں کو سچا دین سکھانا ہے، فلسطین کے لیے بھی کچھ کرنا ہے، اتنی مصروفیت میں اپنے ملک کا تو نمبر بھی نہیں آتا۔ ہمارے ایک دوست بھی ایسے ہی تھے۔ امتحانات کے دنوں میں ملے تو کہنے لگے کہ آج ضرب کلیم میں سے ایسے دقیق نکات دریافت کیے کہ سب منکروں کی بولتی بند ہو جائے گی۔ زبر دست، مگر یار پرچہ تو کل بیالوجی کا ہے۔
ایسے حالات میں ایک ایسا جمہوری ہونا کوئی مشکل کام نہیں ہے جو ہٹلر کی بھی تعریف کرے، ہٹلر کے قوانین کو بھی زندگی کے لیے ضروری سمجھے، عورتوں کی صِنفی کم تری کا بھی قائل ہو، اقلیتوں کی انسانیت سے بھی انکاری ہو، مخالفوں کے مکمل خاتمے پر بھی اصرار کرے، ذات پات کے فرق سے انا کی مسرت بھی کشید کرے، جمہوری قوانین کی خلاف ورزی کو باعث فخر بھی جانے، اپنے آپ سمیت پورے جہاں سے نفرت میں بھی مبتلا ہو، چئیرمین ماؤ کے روزانہ قصیدے بھی لکھے، مذہب کا نام سنتے ہی گالی گلوچ شروع کر دے، آمریت کو روحانی جمہوریت بھی کہے اور اپنے مفاد کے لیے کچھ بھی کر جائے۔ کیوں کہ اس جمہوریت کو سچائی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
لیکن تابکئی؟ (جسے ہم تابکے اور فارسی والے تابکی لکھتے ہیں لیکن گاتے تابکئی ہی ہیں، مطلب کب تک) سانحہ در سانحہ حادثہ در حادثہ ہزاروں سال ہو گئے لیکن سچ کی شروعات ہی نہیں ہو سکیں۔ کنبہ کٹم، قبیلہ گروہ، ملک و ملت سچ کے خلاف ایسا اتحاد بنا لیتے ہیں کہ سچ بھی پریشان ہو جاتا ہے کہ اب کس کس سے جھگڑیں۔ اور دانا مادھو رام پینچ کی طرح جہاں بھی سچائی نظر آتی ہے یہی کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہے، اس کو پڑی رہنے دو، ہم تو اور کریں گے۔ لیکن یہ اور وہی ہوتی ہے جس سے ہم لوگ صدیوں سے آشنا ہیں، ہر دفعہ، ہر بار۔
جمہوریت نئی تو تھی مگر ہم نے اس کی سب ہیکڑی نکال دی۔ ہم محلے میں بازو پھیلا کر اتراتے پھرتے ہیں۔ ہے کوئی ہم سا؟