جمہوریت یا آمریت؟ نفسیاتی جائزہ

Naeem Baig

جمہوریت یا آمریت؟ نفسیاتی جائزہ

از، نعیم بیگ

بلا کسی تمہید کے آمدم بر سرِ مطلب۔ پاکستان میں نئی “تبدیلی” کے نعرے کے بعد سماجی سٹرکچر جو بہت پہلے سے ہی بیش تر معاملات میں تنزلی کی جانب تیزی سے گر رہا تھا، اپنے انہدام کی طرف ایک نئی کروٹ لے رہا ہے۔ جمہوری ادوار میں عوامی، سماجی، معاشی اور دیگر معاملات میں (گو بادی النظر ہی سہی) ایک تکلف، خاطر داری یا رکھ رکھاؤ ہمیشہ سرکار و اہل اقتدار کی ضرورت رہی ہے۔

بھلے درونِ خانہ وہ آمرانہ فیصلہ ہی کیوں نہ ہو، لیکن اسے با قاعدہ نیشنل، صوبائی یا بلدیاتی اسمبلی سے منظور کرایا جانا قابلِ تحسین سمجھا جاتا ہے۔ ایسے اقدامات سے ملک کے اندر جو بھی اثرات نظر آئیں، عالمی سطح پر جمہوری و سافٹ امیج ضرور ابھرتا ہے اور عالمی معاملات میں ملکی توقیر و منزلت بہرحال حاصل ہوتی ہے۔ عالمی میڈیا اپنے ویسٹڈ انٹرسٹ میں اس کا اقرار کرے یا نا کرے تاہم گلوبل عوامی سطح پر یہ امیج ضرور ابھرتا ہے کہ ریاست کے ادارے جمہوریت کی علم برداری پر قائم ہیں۔

اب اِس نئے دور کی بات سن لیں۔ ابھی گزشتہ ماہ راقم نے لاہور میں مقامی پولیس افسران/ بیوروکریٹس کے ایک فیصلہ پر اپنی ناقدانہ رائے کا اظہار کیا تھا۔ اِس مضمون کا عنوان تھا اپنے ہی شہر میں ہوٹل کا کمرہ نہیں ملے گا (شائع ایک روزن) میری اِس رائے میں اختلاف کی واحد وجہ یہ تھی کہ اِکیسویں صدی میں ایک کروڑ آبادی کے شہر کے بارے میں سرکاری افسر یہ کیسے طے کر سکتا ہے کہ قانون اِس کے دفتر کی لونڈی ہے۔ کیا صرف اِسے اپنی سہولت دیکھنی ہے یا مفادِ عامہ میں سوچنا ہے ۔وہ جب چاہے مفاد عامہ کے نام پر غیر مقبول قوانین ایک نوٹیفیکیشن کے تحت لاگو کر سکتا ہے۔

میرا خیال تھا کہ شاید شنوائی ہو لیکن خیر صاحبو ۔۔۔ع۔’ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں’  کے مصداق اسی طرزِ فکر کے شواہد مزید میڈیا میں سامنے آئے ہیں۔ کل ہائی کورٹ لاہور میں میں عوامی رسل و رسائل (ایم ٹو اور ایم ون) پر ایم ٹیگ کی پابندی لگائے جانے کے سلسلے میں سرکاری محکمہ نیشل ہائی وے کے خلاف ایک رِٹ کے ذریعہ اس عوامی مفاد کے خلاف اٹھایا جانے والے عمل کو چیلنج کیا گیا ہے۔

بات سیدھی سی یہ ہے یہ سرکاری محکمے کس طرح اس قسم کے فیصلے کر سکتے ہیں جو عوامی مفاد کے خلاف سامنے نظر آتے ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اپنی مرضی کی گاڑیوں کو ایم ٹیگ کے سلسلے میں رجسٹر کر کے رسل و رسائل کی اجازت دیں گے اور باقی غیر مرضیانہ  ملکی ٹرانسپورٹ کو روک دیں گے، جب کہ اس سے پہلے تمام گاڑیاں (فٹنس کی شرط کے ساتھ) اجازت رکھتی تھیں۔ اگر کوئی “اور” وجہ ہے تو اسے عوامی پلیٹ فارمز پر ضرور ڈسکس کیا جائے۔

رجسٹر کرنے کی بات آئی ہے تو نادرا کی اہلیت تو اسی بات پر ہے کہ ابھی تک سو فیصد پاکستانی شہریوں کو وہ رجسٹر نہیں کر سکا ہے۔ (96٪ شہری رجسٹر ہوئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ابھی بھی ایک کروڑ کے قریب شہری رجسٹر ہونے باقی ہیں) یاد رہے رجسٹریشن کا محکمہ 1971/1972 سے یہ فرائض سر انجام دے رہا ہے، جسے بعد میں نادرا کا نام دیا گیا۔   

آمرانہ فیصلوں کی اس بہار میں اور بھی پھول کھِل رہے ہیں۔ ایمنسٹی سکیم پر کئی ایک دنوں سے کیبنٹ کے اندر بار بار کڑی اختلاف رائے سامنے آ رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایمنسٹی سکیم پورے پاکستان کے مفاد میں یا بہت بہتر نتائج لا سکتی ہے یا اِس برے طریقے سے اس کی معاشی معاملات کو خاک برد کر دے گی۔ اس معاملے کو کیوں اسمبلی کے بند اجلاس میں کیبنٹ فیصلے سے پہلے نہیں لایا جاتا۔ کیا ہم اسے آمرانہ طرز فکر نہیں کہہ سکتے؟  

پچھلی حکومتوں نے بھی اسی طرح کے آمرانہ فیصلے کیے، جس کے منفی نتائج سے  وہ خود یا عوام آج تک نہیں نکل سکے ہیں۔ آج بھی اسی کا تسلسل ہے تو پھر نئی “تبدیلی” کہاں ہے؟ نیا جمہوری حق یا دور کہاں ہے؟

اِس ضمن میں ایک اور اخباری خبر کہ ایف بی آر کے اختیارات میں وسیع پیمانے پر توسیع کی جا رہی ہے۔ یہ خالصتاً ایک ایسا معاملہ ہے کہ جہاں بقول آپ کے بیش تر بیوروکریٹ کرپٹ ہیں یا نا اہل ہیں۔ پچھلے آٹھ ماہ میں بیوروکریسی کی اکھاڑ پچھاڑ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بیش تر افسران نا لائق ہیں یا کام نہیں کر رہے ہیں یا کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔۔ کیا ایسے افسران کو مزید اختیارات دے کر پاکستان کی عوام کو ان کے ہاتھوں یرغمال بننے سے کوئی روک سکتا ہے۔

کیا اِن اختیارات کے ساتھ ساتھ ان کے غلط فیصلوں پر احتساب کا کڑا قانون بھی لایا جا رہا ہے جس سے اختیارات کا نا جائز استعمال روکا جا سکے ۔ ورنہ صرف اختیارات دینا تو مزید ریٹ بڑھانے کی بات بن جائے گا۔ یہ معاملہ نیشنل اسمبلی کی کمیٹی کے سپرد ہونا چاہیے جو اس پر طے کرے کہ کتنے اختیارات بڑھائے جائیں اور پھر کیسے انھی افسروں/ اہل کاروں کو کرپشن سے روکا جائے۔  میں اپنے ایک مضمون پی ٹی آئی حکومت، کچھ تنقید، کچھ تجاویز (شائع ایک روزن) میں پہلے ہی بہت کچھ کہہ چکا ہوں۔

قصہ مختصر کہ یہ آمرانہ طرز عمل جو اب اِس حکومتی پیرا مِڈ میں نیچے کے طرف ایک چھوت کی بیماری کی طرح سفر کرتا ہوا پہنچ رہا ہے، عوامی اذہان کو منفی رحجانات سے متاثر کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ ایسا فکری پیراڈائم ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے۔ اگر جملہ صاحبِ اقتدار یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسمبلیاں، عوامی فورمز کی اب کوئی حیثیت نہیں، تو بھلا اِن پر اربوں روپیوں کے ماہانہ اخراجات کی کیا ضرورت ہے۔ سیدھے سبھاؤ کام چلائیے۔۔۔ مرکزی اور صوبائی سطح پر ایک چھوٹا سا قانونی جمہوری سیٹ اپ بنا لیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔