جمہوری آزادی پہ ستم گری
از، وارث رضا
عمران خان کی نا اہل اور منصوبہ بندی سے مبرا طاقت ور قوتوں ذریعے جمہوریت کے پردے میں لپیٹ کر لائی گئی حکومت سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر ستر برس سے زائد مسلط عوام دشمن طاقت ور بیانیے کو جمہوریت کی آڑ میں عوام کی سیاسی، جمہوری اور سماجی آزادی تاراج کر کے عوام دشمن غیر جمہوری عمل کسی طور آئندہ نسلوں کا مقدر نہیں بنایا جا سکتا۔
پاکستان کی جمہوری تاریخ کا چہرہ مسخ کرنے میں جہاں فوجی مارشلاؤں کا کردار رہا ہے، وہیں دوسری جانب انتہائی بھیانک کردار سیاسی اقتدار کی منتقلی میں نیم مارشلائی عمل دخل کا بھی رہا ہے۔
اس سلسلے میں یہ تاریخی حقیقت پوشیدہ نہیں رہنی چاہیے کہ موجودہ پاکستان میں عوام کی قوت یا عوام کی جد و جہد کے نتیجے میں کوئی سیاسی قوت یا جماعت وجود نہیں رکھتی۔
پیپلز پارٹی سے لے کر جماعت اسلامی، جمیعت، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کو بنانے یا انہیں مشروط اقتدار منتقل کرنے میں صرف فوجی اشرافیہ ہی کا کردار رہا ہے اور پاکستان میں بہ غیر کسی تخصیص کے 1952 کے بعد تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں فوجی اشرافیہ نے بنائیں اور ان کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ان جماعتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ریٹائرڈ فوجیوں کو اپنا ریاستی بیانیہ نافذ کرنے کے لیے ان ترجمانوں کو اعلیٰ عہدے دلوائے، جیسا کہ پیپلز پارٹی میں جنرل ٹکا خان اور دیگر جماعتوں میں فوجی اشرفیائی جاگیر دار یا مذہبی افراد۔
یہی طاقت ور ریاستی بیانیہ ہنوز اپنی بھیانک شکل میں تحریکِ انصاف حکومت میں سامنے آ رہا ہے جس سے طاقت کے بیانیے کا عوام دشمن کردار روز بَہ روز کم زور سے کم زور تر ہو رہا ہے۔
ایسے خطرناک دو راہے پر طاقت کے پروردہ پنڈی کی حکمت عملی کو بہ رُوئے کار کرنے میں مسلسل سرگرمِ عمل دکھائی دیتے ہیں۔ اس موقع ہر صورت حال کی باریکی اور طاقت ور بیانیے کی چِیرہ دستیوں کو عوام کے سامنے لانا اور اسے سمجھنا ہر جمہوریت پسند کا اہم فرض ہے جو کہ جمہوری قدروں پر یقین رکھتا ہے۔
اس گنجلک سیاسی ماحول میں تاریخی طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ قیام پاکستان کی تحریکِ آزادی میں مسلم لیگ سیاسی طور سے متحرک رہی جب کہ اس کے مقابل سیاسی طور پر متحرک قوت کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان رہی، افسوس کے ساتھ اس حقیقت کو مانا جائے کہ قائد اعظم کی رحلت کے بعد مسلم لیگ کو فوجی اشرافیہ نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے گود لے لیا جب کہ کمیونسٹوں کی سیاسی اور نظریاتی مزاحمت کو کچلنے کے لیے کمیونسٹ فکر کے سیاست دانوں حسن ناصر کو ملک دشمن قرار دے کر عقوبت خانے میں تشدد سے مارا گیا۔
ڈی ایس ایف کی طلبہ تحریک پر غدّارِ وطن کا الزام لگا کر پا بندی عائد کر دی گئی اور مظلوم عوام کی آواز بننے والے دانش وروں فیض احمد فیض، حبیب جالب، سجاد ظہیر اور امام علی نازش کو غدار کہہ کر ان کے سیاسی اور روشن خیال نظریات کو ریاستی قوت سے کچلا گیا اور آخرِ کار ان نظریات کے نو جوان نذیر عباسی کو بھی فوجی ٹارچر سیل میں تشدد کر کے ما ورائے عدالت قتل کیا گیا۔
نظریاتی اور عوامی حقوق کی سیاسی جماعت کو ریاستی طاقت سے ختم کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ فوجی آمروں کی مدد کے لیے اپنی پسند کی سیاسی جماعتیں بنوائی جائیں جو طاقت وروں کے بیانیے کے ساتھ ہاتھ پیر باندھ کر ایوانِ اقتدار تک لائی جائیں اور جن سے فوجی اشرافیہ اپنے مقاصد پورے کر کے دنیا کو جمہوریت کا نام نہاد چہرہ دکھاتی رہے۔
آج بھی یہ تمام جماعتیں کسی نہ کسی طرح اقتدار کے ایوان تک رسائی میں ریاست کے طاقت ور افراد کی حمایت کی منتظر نظر آتی ہیں۔ ایسے میں بہت آہستگی سے پاکستان کی تیسری اور چوتھی نسل پیدا ہو گئی جو جدید تعلیم سے آراستہ تھی گو اس نسل کی سیاسی نَس بندی کرنے کے لیے فوجی آمر ضیاء نے طلبہ سیاست کو شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا تھا۔
مگر موجودہ نسل نے جدید دنیا کے انسانی اور سیاسی حقوق کے حاصلات کی خاطر روشن خیال فکر اور ترقی پسند سوچ کا راستہ اپنایا۔ یہی نئی نسل کا وہ انقلاب آفرین بیانیہ تھا جس کو دبانے کے خاطر تحریکِ انصاف کی گالم گلوچ نسل تیار کی گئی مگر ترقی پسند طاقت ور سیاسی اور عقامی حقوق کے مضبوط نظریے کی پذیرائی نوجوان نسل میں بڑھی اور نئی نسل طلبہ یونین اور طلبہ سیاست کی آزادی خاطر ملک میں کمر بستہ ہو گئی تو طاقت کے ایوانوں کو شاید یہ بات اور عوام کا سیاسی شعور نہ بھایا۔
لہٰذا، اس کا توڑ کم زور طاقت کے خداؤں نے جمہوریت میں تشدد کے بیانیے کو سمجھا اور یہ وجہ رہی کہ سب سے پہلے یہ تشدد کا بیانیہ پنجاب میں کروایا کہ جہاں نئی نسل میں ترقی پسند نظریہ اور روشن خیال سوچ طاقت ور طریقے سے آگے بڑھ رہی تھی اور جس میں رکاوٹ ڈالنا اَز حد ضروری تھا۔
یہی نئی نسل کا وہ انقلاب آفرین بیانیہ تھا جس کو دبانے کے خاطر تحریکِ انصاف کی گالم گلوچ نسل تیار کی گئی مگر ترقی پسند طاقت ور سیاسی اور عوامی حقوق کے مضبوط نظریے کی پذیرائی نو جوان نسل میں بڑھی اور نئی نسل طلبہ یونین اور طلبہ سیاست کی آزادی خاطر ملک کے کونے کونے تک کمر بستہ دکھائی دی تو طاقت کے ایوانوں کو شاید نو جوانوں کا سیاسی شعور اور عوامی حقوق کی جد و جہد نہ بھائی۔
لہٰذا، اس کا توڑ کم زور طاقت کے خداؤں نے جمہوریت میں تشدد کے بیانیے کو سمجھا اور یہی وجہ ہوئی کہ سب سے پہلے یہ تشدد کا بیانیہ پنجاب کے روشن خیال فکر کے شہر لاہور میں کروایا گیا تا کہ پنجاب کی پُر جوش نئی نسل میں ترقی پسند نظریے اور روشن خیال سوچ کی طاقت کو آگے نہ بڑھنے دیا جائے؛ لہٰذا ریاستی طاقت کا اس جد و جہد میں رکاوٹ ڈالنا اَز حد ضروری تھا۔
اس وقت ضروری ہے کہ ملک کی سیاسی جمہوری اور ترقی پسند قوتیں لاہور کے اس پُر تشدد اور جان لیوا واقعہ کو مطلوبہ زاویے سے دیکھیں کہ جس میں جمہوری انداز سے آزادانہ عدالت کے مقابلے میں ملٹری کورٹس اور پولیس کے مقابلے میں رینجرز طلبی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔