ڈینگی کرپٹ تو نہیں
ان سے راول پنڈی اور اسلام آباد میں ڈینگی نہیں روکا گیا، مولانا فضل الرحمان کو کیا روکیں گے؟ بَہ قبولِ جمعیتِ عُلَمائے اسلام کے ایک لیڈر۔
مولانا کو شاید روک ہی لیں۔ اب ڈینگی کو نہ تو وزارت دی جا سکتی ہے، اور نہ ٹھیکے لیکن مولانا ان ترغیبات کو بَہ کراہت قبول کر ہی لیتے ہیں۔
یہ تو نا دان دوستی ہوئی ناں۔ مولانا کو وبائی امراض سے بھی خطر ناک بنا دیا۔
اب پی ٹی آئی کا کیا پتا؟ ہو سکتا ہے مولانا کی دشمنی میں ڈینگی کے ہی گُن گانے لگے۔
اچھا ڈینگی، پیارا ڈینگی، اسے کیوں روکیں؟ یہ تو پیسے بوریوں میں بند کر کے بیرونِ ملک محَلّات تو نہیں خرید رہا؟ اپنے ہی ملک میں اپنے عوام کی خدمت کر رہا ہے۔ نہ مودی سے ملتا ہے، نہ اشرف غنی کا ہم درد ہے۔ اسے کیوں روکیں، اپنا ہے اپنا۔
کاٹتا ہے تو کیا؟ اس کاٹنے پہ میں صدقے اور قربان۔ کوڑا کرکٹ ہی تو ختم کر رہا ہے۔
وہ آوے میں بھلی، میں چنگی
اے سکھی ساجن
نہ سکھی ڈینگی
کیوں نہ ڈینگی کی افزائش کے لیے ایک وزارت بنا دیں۔ وہ تو بُزدار صاحب کی موجودگی میں بنی ہوئی ہے۔
وہ تو شہباز شریف چِھچھورا، سپرے کراتا تھا، سری لنکا سے ماہرین بلاتا تھا اور ڈینگی مارنے والے ہیلی کاپٹروں (کیڑوں) کی افزائش کراتا تھا۔ بے وُقُوف آدمی، سمجھ ہی نہیں سکا کہ مؤمنین اور مؤمنات ڈینگی کے ڈنگ سے کتنی گہری عقیدت رکھتے ہیں۔ پانی گرا کر موڑھے پر بیٹھ جاتے ہیں کہ اور چھیتی بوہڑیں وے (جلدی آ پیارے) گنگنانے لگتے ہیں۔
بس ابھی تربیت نہیں ہو سکتی، ورنہ ڈینگی کے پُر جوش اِستِقبال سے پہلے کینسر ہسپتال کے لیے عطیات بھی جمع کرا دیتے۔ اس بات کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک کمیشن بنا رہے ہیں۔ ایک اشتہار تو بنایا ہوا ہے:
پیارے پاکستانیو،
ڈینگی کاٹ جائے
تو جان لو
جہاں آپ جا رہے ہیں وہاں دولت کام نہیں آئے گی۔
کام آئیں گے اچھا اعمال
اور عطیات
اس لیے جانے سے پہلے
سب کچھ ملک و قوم کے لیے وقف کر جائیں
چندہ دے، عطیہ دے
جان دے
دیر نہ کر جانی
اللہ کو پیاری ہے قربانی۔
کل وزیرِ محترم کا شو نہیں دیکھا؟ اک تمھارے جیسے کی بہت بے عزتی کی۔ کہہ رہا تھا صحت کا تحفظ حکومت کا فرض ہے۔ حفاظتی تدابیر مؤثر بنانا حکومت کی ذمے داری ہے۔
وزیر صاحب نے صاف کہہ دیا۔ بند کرو یہ مغربی چونچلے۔ ڈینگی کرپٹ نہیں ہے۔ نیک ہے۔ اہلِ ایمان کی موت، محبت کی علامت ہے۔ قصرِ سلطانی کے گنبد پر بسیرا نہیں کرتا، بَل کہ منٹو کی طرح پُر تعفن سماج کو کاٹ رہا ہے۔
بانو آپا کی طرح بھنبھنا کر عشقِ لا حاصل اور خواہشِ مرگ کے سلسلے استوار کر رہا ہے۔ اور بابا صاحبا کی طرح سڑے بسے گلی کوچوں میں موت کا نور پھیلا رہا ہے۔ اسے تو تمغے دینے چاہییں۔ تم اس عظیم ہستی کا خاتمہ چاہتے ہو۔ یہی تو مغربی ایجنڈا ہے کہ ایک عظیم ہستی رُو نُما نہیں ہوئی اور اس کے خاتمے کی سازش ہوئی۔
بزدار صاحب، مگر مُحبِّ وطن ہیں، وہ بس بیٹھے ڈینگی کے کِشف و کرامات کی داد دیتے رہیں گے۔ اور پھر جب کوئی اچھا کام کر رہا ہو تو اسے روکنا تو بدی ہے، اور یہ بدی ہماری حکومت نہیں کر سکتی۔ ایسے گناہ شو باز جیسے بد کار ہی کرتے ہیں۔
اب ایک وزیر کچھ کہیں تو دوسرے کب پیچھے رہتے ہیں۔
حکومت ایک ڈینگی ڈے کا اعلان جلد ہی کرے گی۔ یہ بھی سوچا تھا کہ ڈینگی ڈبوں میں بند کر کے آزادی مارچ پر آزاد کر دیں لیکن پھر ماہرین نے بتایا کہ یہ ڈینگی مچھروں میں طہارت و نفاست کی کام یابی ہے اس لیے آزادی مارچ کا شُرَکاء کو دوسری دنیا میں بھیجنے کے سلسلے میں اتنا کار گر نہیں ہو گا۔ یہ بس پھوہڑ افرادِ گھرانہ اور ان کے ستم زدوں کی فریضۂِ مرگ کی تربیت ہی کر سکتا ہے اور پھر ایک اچھے مسلم معاشرے کے لیے مؤمنات کی تربیت کا مولانا مودودی درس دے گئے ہیں۔ مریں گے، جنت میں جائیں گے۔
ایک لیڈر تو بھٹو صاحب کی طرح تقریر کرنے لگے۔
ڈینگی سے لڑو گے؟
نہیں
کام کرو گے
نہیں
مرو گے
جی ہاں۔
جزاک اللہ۔ مُژدہ، مرحبا، مَشِیّت پوری ہوئی۔ رضائے الٰہی، پڑھو فاتحہ۔
اس کے بعد پی ٹی آئی کے اقلیتی رہنماء کب پیچھے رہتے۔
مسلمان بھائیو، ڈینگی سے محبت میں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ بھائیو، اس مَن موہن کا تو پرانوں میں بھی ذکر ہے کہ 2019 میں ایک مخلوق جنم لے گی جو جیسے ہی پنڈ کاٹے گی، پرش کو برہمانڈ سے ملا دے گی کہ 2019 سال تکمیل ہے، اس سے پہلے جو ڈینگی تھے، وہ شہباز شریف کی مایا سے محبت کی وجہ سے پنڈ اور برہمانڈ کا ملن نہیں کرا سکے۔ جب سے بُزدار آئے ہیں، مایا سے محبت پسپا ہو گئی اور جو ڈینگی بھی کاٹتا ہے، وہ آتما کو شریر کے بندھن سے آزاد کر دیتا ہے۔ اور یہ معجزہ بد عنوان اور کرپٹ نہیں کر سکتے تھے، اس کے لیے اندھیری راتوں میں شہنشاہ کی ہی ضرورت تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ گروہ سے جڑے رہنے کے لیے کیا کیا کچھ تیاگ دیتے ہیں۔
از، نصیر احمد