دارالعلوم دیوبند اور تاجِ برطانیہ کے خلاف مزاحمت
از، ڈا کٹر شاہد صدیقی
1857ء کی جنگِ آزادی کے دوران ہندوستان کی بیرونی سامراج سے آزادی کے لیے معاشرے کے مختلف طبقات یکجا ہوگئے تھے۔ شاہ ولی اللہ کے پیروکاروں میں بہت سے مذہبی رہنماؤں نے بھی آزادی کی جدوجہد میں بھرپور شرکت کی۔ مولانا امداد اللہ مکی، مولانا رشیداحمد گنگو ہی اورمولانا قاسم نانوتوی نے شاملی کے مقام پر آزادی کی جنگ لڑی۔ ان کے ایک ساتھی حافظ ضامن نے برطانیہ کے خلاف جنگِ آزادی میں جام شہادت نوش فرمایا۔ جنگِ آزادی بظاہر برطانیہ کی فتح پرمنتج ہوئی جس کے نتیجے میں بہت سے حریت پسند شہید ہوئے اوربرطانیہ جدید اسلحہ اورتربیت یافتہ فوج کی بدولت فتح یاب ہوا۔ اگرچہ حریت پسندوں کاجذٔبہ آزادی بھرپور تھا لیکن جوبات ان کی کمزوری کاباعث بنی وہ مرکزی قیادت، تربیت اورجدید اسلحہ کافقدان تھا۔
1857 ء سے بعد کا دور آزادی کے جانبازوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھا۔ جنگ آزادی کے دوران بہت سے ہندوستانی ماردیئے گئے اورسینکڑوں گرفتارکرلیے گئے جنہیں اجتماعی پھانسیاں دی گئیں۔ لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے یہ تمام سزائیں عوام کے سامنے دی گئیں۔ وہ لوگ جوآزادی کے خواہاں تھے ان کے لیے یہ ساری صورتحال انتہائی کٹھن اورمایوس کن تھی۔ اس سارے منظر نامے میں آزادی کے حق میں اٹھنے والی تمام آوازیں خاموش کردی گئیں اور کسی میں یہ جرأت نہ تھی کہ کھلے عام برطانوی راج کے خلاف آواز اٹھائے، سیاسی پارٹی بنائے یاپھر برطانوی بالادستی کوچیلنج کرسکے۔ اس مایوسی واضطراب کے عالم میں مذہبی رہنماؤں کاوہ گروہ یکجا ہوا جس نے1857ء کی جنگِ آزادی میں شرکت کی تھی۔ ان سب لوگوں کا خیال تھا کہ برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کی پالیسی پرنظرثانی کی جائے اور مزاحمت کا طریق کار بدلاجائے۔ انہوں نے ایک تعلیمی ادارہ قائم کرنے کافیصلہ کیا جوایسے طلبہ کی پنیری تیار کرے جونظریاتی بنیادپرقائم ہواوربھرپور اندازمیں برطانیہ کامقابلہ کرنے کے لیے تیارہو۔
اس طرح جنگِ آزادی کے نوسال بعد 1866ء کوچھتہ مسجد میں دارالعلوم دیوبند کاقیام عمل میں آیا۔ دیوبند کاقصبہ سہارنپور کے جنوب میں دہلی سے90 میل کی مسافت پرہے۔ حاجی عابدحسین لوگوںسے چندہ اکٹھا کرنے میں پیش پیش تھے۔ مولانا محمودعرف مُلا محمود کوپندرہ رویے ماہانہ تنخواہ پردارالعلوم دیوبند کاپہلا اتالیق مقررکیاگیا۔ محمودالحسن دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم تھے جنہیں بعد میں شیخ الہند کا خطاب ملا۔ پہلے سال کے اختتام تک طلبہ کی تعداد78تک جاپہنچی۔ اس دارالعلوم کے پہلے صدر مدرس محمود یعقوب کی25روپے ماہانہ تنخواہ کی بنیادپر تعیناتی کی گئی۔ دارالعلوم کے تمام امور کی باقاعدگی سے انجام دہی کے لیے ایک مجلس ِشوریٰ کاقیام بھی عمل میں لایاگیا۔ دارالعلوم دیوبند میں مولانا قاسم نانوتوی مرکزی کردار کے حامل ہیں اوروہ اپنی دوربین نگاہوں اوراعلیٰ بصیرت کی بدولت دارالعلوم کادرخشاں مستقبل دیکھ رہے تھے۔ ان کی تجویز پربہت سے طالب علموں کی اقامتی ضروریات کوپورا کرنے کے لیے ایک نئی اورکشادہ عمارت تعمیرکی گئی۔1866ء میں دارالعلوم کی بنیادپر ٹھیک نوسال کے بعد1875ء میں نئی عمارت کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔
دارلعلوم دیوبند کایہ امتیازتھا کہ اس نے کبھی حکومتی امدادسے ایک پیسہ تک نہ لیا حتیٰ کہ اس نے امراء سے بھی امداد لینے سے انکار کردیا۔ تاہم لوگوں کی طرف سے دیئے گئے فنڈزکوبخوشی قبول کیا جاتاتھا۔ اس فیصلے کی بنیاد دانش مندی اورحکمت پرتھی کیونکہ دارالعلوم نے اپنی آزادانہ پالیسی برقرار رکھناتھی۔ اوریہ کوئی عام مدرسہ نہیں تھا بلکہ اس کا مقصدانقلابی قوتوں کامرکز بنناتھا۔
نصاب کوحقیقی دنیاسے جوڑنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ فلسفہ کونصاب سے نکالنے کاشعوری فیصلہ کیاگیا تاکہ یہ عملی اورحقیقت پسندانہ نصاب کاروپ دھار سکے۔ اساتذہ بھی دینی علم کے ساتھ ساتھ اپنے طلبہ میں آزادی کاجذبہ پیدا کرتے۔ اگرچہ دارالعلوم دیوبنداورعلیگڑھ کے طریقۂ تدریس میں ظاہری فرق بہت نمایاںتھا لیکن ان دونوں کے درمیان باہمی احترام کا رشتہ تھا۔ یہ تجویزبھی دی گئی کہ دارالعلوم دیوبند کے طلبہ انگریزی سیکھنے علیگڑھ جائیںگے اورعلیگڑھ کے طلبہ عربی سیکھنے دارالعلوم دیوبندآئیں گے۔ اس عمل کاآغازبھی ہوگیا۔ تاہم بعد میں اس پروگرام کوزیادہ عرصہ جاری نہ رکھاجاسکا۔
دارالعلوم دیوبند کی تعلیمات کاثمربارآورہونے لگا‘یہاں سے فارغ التحصیل طلباء نے آزادی کی جدوجہد میں فعال کردارادا کیا۔ مولانا محمودالحسن جوکہ دارالعلوم کے پہلے شاگرد تھے انہوں نے آزادی کی کوششوں میںبھرپورشرکت کی اور ہراول دستے کا کردارادا کیا۔ وہ ”تحریکِ ریشمی خطوط‘‘ کے بانی تھے۔ اس تحریک کابنیادی مقصد بھی ہندوستان کی برطانوی راج سے آزادی کے لیے مختلف ممالک کی حمایت حاصل کرناتھا۔
مولانا محمود الحسن، مولانا حسین احمدمدنی اور مولانا عزیزگل کو گرفتارکرکے مالٹا بھجوا دیا گیا۔ مالٹا سے رہائی کے بعد مولانا محمودالحسن نے جمعیت العلماء میں شرکت اختیار کرلی تاکہ وہ آزادی کی جدوجہد میں بھرپور حصہ ڈال سکیں۔1926ء میں جمعیت العلماء نے مکمل آزادی کااعلان کیا۔
مولانا محمود الحسن نے اپنے شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی کو بھی کابل جانے کا کہا۔ مولانا عبیداللہ سات سال تک وہیں قیام پذیر رہے اورآزادی کی راہ ہموار کرنے کے لیے کئی لوگوںسے ملے۔ ان کی کوششوں کی بدولت ہندوستان کی عبوری حکومت کا بنیادی خاکہ بنا لیا گیا۔
دارالعلوم دیوبند کا تجربہ آزادی کی جدوجہد میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس نے1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مایوس ہونے والی قوم میں ایک نئی روح پھونک دی۔ مذہبی راہنماؤں کواس بات کاادراک ہوگیاتھا کہ یہ وقت لڑائی کے لیے موضوع نہیں۔ مزاحمتی طریقہ کار میں تبدیلی لائی گئی۔ دارالعلوم دیوبند کے قیام نے ان لوگوں کوایک پلیٹ فارم فراہم کیا جو اسلام کامطالعہ کرنا چاہتے تھے۔
دارالعلوم دیوبند ایک روایتی مدرسہ نہیں تھا۔ تدریسِ اسلامیات کے علاوہ یہ ایک انتہائی متحرک اورفعال قسم کاادارہ تھا جس نے اپنے طلبہ میں آزادی کی چنگاری سلگا دی تھی۔ درس نظامی کے نظرثانی شدہ نصاب کے ساتھ ساتھ اس ادارے نے اپنے نصاب کوہندوستان کی معاشرت وسیاست سے بھی مربوط کرلیاتھا۔ اس کانتیجہ یہ نکلا کہ دارالعلوم کے طالب علم نہ صرف مذہبی علوم سے آگاہ تھے بلکہ ان کی تربیت ایسے ماحول میں ہوئی تھی کہ وہ سیاسی سمجھ بوجھ میں بھی کمال تھے۔
یوں دارالعلوم دیوبند نے اجارہ داری ڈھانچوں کے خلاف مزاحمت کی داغ بیل ڈالی۔اسی حکمتِ عملی کوبعد میں ہندوستان کے قومی رہنماؤں نے استعمال کیا اورتعلیمی اداروں کے ذریعے برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کی۔