ڈئیوس، علی اور دِیا : ایک شاہکار ناول
تبصرہ کار: مظہر چودھری
نامور افسانہ و ناول نگار نعیم بیگ کے نئے اردو ناول ڈئیوس، علی اور دِیا پر تفصیلی تبصرہ کرنے سے سے پہلے ان کے اب تک کے علمی و ادبی سفر پر ایک مختصر نگاہ ڈال لیتے ہیں۔ پاکستان کے ادبی مرکز لاہور سے تعلق رکھنے والے نعیم بیگ بنیادی طور پر ترقی پسند فکر و فلسفہ کے نمائندہ ادیب ہیں۔ مختلف اخبارات و جرائد میں اردو اور انگریزی مضامین لکھنے کے علاوہ وہ انگریزی زبان میں دو ناول ٹرپنگ سول اور کوگن پلان لکھ کر انگریزی ادب میں اپنی منفرد پہچان بنا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو زبان میں شائع ہونے والے ان کے دو افسانوی مجموعے یو – ڈیم – سالا اور پیچھا کرتی آوازیں اردو ادب میں انہیں معتبر کر چکی ہیں۔
جہاں تک اردو زبان میں شائع ہونے والے ان کے پہلے ناول ڈئیوس، علی اور دِیا کے علمی و ادبی مقام کی بات ہے تو میری ناقص رائے میں یہ رومانس، سماجی المیوں اور سیاست کے حسین امتزاج پر مشتمل ایک شاہکار ناول ہے۔ 70 اور 80 کی دہائی کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں لکھا گیا یہ ناول تاریخی حوالوں سے عصری سماجی المیوں اور اقتدار کی راہداریوں میں پائی جانے والی سازشوں کو آشکار کرتے ہوئے قاری و نقاد کو فکر و خیال کی دعوت دیتا ہے۔ مصنف نے ناول کے مختلف کرداروں کے مابین ہونے والے مکالموں کے زریعے تلخ و تند سماجی و سیاسی حقائق سے پردہ اٹھا کر قاری کے ذہن و فکر کے بند دریچوں کو وا کرنے کی کوشش کی ہے۔ نعیم بیگ یہ واضح کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ اس ملک کی اشرافیہ نظام کا ‘ سٹیٹس کو’ قائم رکھنے کے لیے بڑی سے بڑی انتہا تک جا سکتی ہے
ناول کی کہانی سارہ (فیچر سیکشن کی انچارج) اور نعمان (فیچر رپورٹر) سے شروع ہوتی ہے۔ صحافت میں پروگریسو اپروچ کی حامل سارہ خان شیزو فرینیا کے آخری درجے پر پہنچے ایک نفسیاتی مریض کا انٹرویو اس کی بیماری کے پس منظر جاننے اور لوگوں کو اس بیماری کی سماجی وجوہات سے آگاہی دینے کے لیے میگزین کی کور سٹوری کے طور پر چھاپنا چاہتی ہیں۔ ڈاکٹروں کی توقعات کے برعکس سارہ خان نہ صرف علی کمال ہمدانی کو انٹرویو دینے پر قائل کر لیتی ہیں بلکہ دوران انٹرویو ایسے کلیوز حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں جس سے اسے علی کمال ہمدانی کی پوری زندگی کی کہانی تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔
ناول کے صفحہ نمبر 29 سے 226 تک تقریباً 200 صفحات میں مصنف نے علی کمال ہمدانی کی کہانی کو ایسے دلچسپ انداز میں پھیلایا ہے جس کو پڑھتے ہوئے ایک لمحہ کی بوریت محسوس نہیں ہوتی۔ نوجوانی سے جوانی تک کے مرحلوں میں علی کی زندگی میں تین لڑکیاں آتی ہیں جو اس کی محبت و رفاقت حاصل کرنے کے لیے بیتاب تھیں لیکن زندگی میں کچھ الگ سا کر دکھانے کی دھن کا شکار علی پہلے منزل کے انتظار میں پڑوس میں رہنے والی شانی کو کھو دیتا ہے تو بعد ازاں یورپ کے سفر کے دوران ملنے والی ہمسفر جینی کو خود ساختہ خوابوں کی تعبیر میں اپنے قریب نہ آنے دیا۔ یونان میں قیام کے دوران علی کی زندگی میں آنے والی دِیا اگرچہ کئی سالوں بعد پھر اس کی زندگی میں آتی ہے لیکن یونان میں قیام کے دوران دِیا جیسی کامل لڑکی کی محبت و رفاقت کو کیرئیر اور دوسروں کے لیے رول ماڈل بننے کی دھن میں جب علی نے کھویا تو درحقیقت یہ اپنے آپ کو کھونے کے مترادف تھا۔
سماجی المیوں اور ملک و قوم کے اصل مسائل پر اظہار خیال کے لیے مصنف نے پروفیسر اقتدار اور میڈم جہاں آراء کے کردار متعارف کرائے ہیں۔ یورپ کے سفر کے دوران اور قیام کے دنوں میں پروفیسر اقتدار سے علی ہمدانی اور جمال یوسفزئی کے علمی مباحث اور یونیورسٹی کے دنوں میں ماس کمیونیکیشن کی میڈم جہاں آراء سے علی، حمزہ اور فاخرہ کی مطلق سچ کی تلاش اور پاکستان کے اس وقت کے حالات و واقعات (1975 سے 1977) پر فکری نشستوں کا احوال مصنف نے کچھ ایس شاندار انداز میں قلمبند کیا ہے کہ ایک ایک جملہ کئی کئی بار پڑھنے کو دل کرتا ہے۔ حکومتی پالیسیوں سے انحراف کے الزامات پر فارغ ہونے والی میڈم جہاں آراء کے حق میں اخبار میں سٹوری لگانے کی وجہ سے علی ہمدانی کی مارشل لاء ہیڈ کوارٹر طلبی کا احوال بہت سے چشم کشا حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے۔
مارشل لاء اتھارٹی سے رہائی کے بعد علی، حمزہ اور فاخرہ کا سی ایس ایس امتحان پاس کر کے سول سروس جوائن کرنا اور اسی دوران اماں کے کہنے پر علی کا دور کی رشتہ دار امبر سے شادی دو الگ داستانیں ہیں۔ سول سروس میں اسسٹنٹ کمشنر سے جائنٹ سیکرٹری تک کے عہدے تک پہنچ کر استعفی دینے کی کہانی عروج و زوال سے بھر پور ہے لیکن علی کی شادی کی داستان المیہ کتھارسس کے سوا کچھ نہیں۔ امبر کی بے وفائی اور سرکاری ملازمت چھوڑنے کے بعد اچانک دِیا کا ملنا ناول میں ایک بار پھر رومانس اور جمالیاتی رنگ بھر دیتا ہے۔
ناول کا آخری حصہ بہت جاندار ہے جس میں اس راز سے پردہ اٹھتا ہے کہ علی شیزو فرینیا جیسی نفسیاتی بیماری میں کیسے مبتلا ہوا۔ آخری 13 صفحات میں سارہ خان اور نعمان کی آمد ناول کو بہت دلچسپ بنا دیتی ہے۔ اس حصے میں ایک کے بعد دوسرا انکشاف بھی ناول کے سسپنس کو ختم نہیں کر پاتا۔ ناول کا سسپنس اس وقت ختم ہوتا ہے جب نعمان سارہ خان کو محکمہ داخلہ کے سیکرٹری حمزہ درانی (علی کا یونیورسٹی فیلو) کی جانب سے علی کو ایک بار پھر اٹھائے جانے کی خبر دیکر بعد ازاں اس کی وجوہات بھی بیان کر دیتا ہے۔
ناول ڈئیوس، علی اور دیا عکس پبلیکیشنز لاہور نے شائع کیا ہے۔ ناول کی قیمت 800 روپے ہے لیکن عکس پبلیکیشنز کے اعلان کے مطابق پاکستان بھر میں یہ ناول 480 روپے میں گھر بیٹھے منگوایا جا سکتا ہے۔ ڈلیوری اور ڈاک کے کوئی چارجز نہیں ہیں۔ میرے خیال میں یہ ناول ہر اس شخص کو پڑھنا کو پڑھنا چاہیے جو اچھے اور معیاری ناولز پڑھنے کا دلدادہ ہے۔ اس ناول میں انسانی خمیر میں گندھا ہوا رومانس بھی ہے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اہم موڑ پر ہونے والے فیصلوں کے اسباب و عوامل اور اثرات کا خوبصورت احوال بھی۔