شازیہ نیئر
کچھ دنوں سے کچرا میڈیا کی ہیڈ لائنز میں انتہائی اہم ہو گیا ہے۔ ہر خبر نامے میں نہ صرف کچرا کنڈی سے رپورٹر حضرات چینخ چینخ کر انتظامیہ کی بے حسی پر اظہار خیال کرتے ہیں بلکہ حکومت پر بھی شدید تنقید کروائی جاتی ہے کہ حکومت آنکھیں بند کر کے بیٹھی ہے۔ میڈیا کا تو کام ہی یہی ہے کہ ہمارے سیاسی اور سماجی شعور کی آبیاری کرے، اور ان مسائل کو سامنے لے کر آئے جو روز مرہ ذندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ لیکن یہاں ایک بات انتہائی اہم ہے کہ اس کچرے کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومت؟ انتظامیہ یا ہم خود؟ تو میرا جواب ہو گا کہ ہم خود۔
ہمیں یہ عادت ہو گئی ہے کہ ہم اپنا گھر تو صاف کرلیتے ہیں لیکن اپنے گھرکی ساری گندگی اٹھا کر سر عام سڑکوں پر پھینک دینے کے عادی ہیں۔ ہم نے کبھی اپنی ذمہ داری قبول نہیں کی اور اپنا کیا دھرا ہمیشہ حکومتوں اور انتظامیہ پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ جیسے تمام تر ذمہ داری صرف انتظامیہ اور حکومت کی ہی بنتی ہے۔ ارے جناب جب آپ کو اپنا گھر گندا پسند نہیں ہے، اسے صاف کر کے ہی دم لیتے ہیں اور ہر وقت اپنے گھر کی خوبصورتی اور تزئین و آرائش میں لگے رہتے ہیں تو اس ملک کو بھی اپنا گھر تسلیم کر لیں۔ مان لیں کہ یہ ملک بھی ہمارا اپنا ہے۔ اگر ہمیں اپنا گھر گندا نہیں پسند، تو ہم اپنا ملک کیوں گندا کر رہے ہیں۔
جب ہم اپنے گھروں کی گندگی اٹھا کر سڑک پر، گلیوں میں یا نالوں میں پھینک رہے ہوتے ہیں تو ہمارا ضمیر ہمیں کیوں نہیں جگاتا کہ صرف پانچ، دس مرلے کی جگہ نہیں بلکہ یہ پورا شہر، یہ پورا ملک ہمارا ہے۔ ہم ہیں مالک اس کے اور اسکی خوبصورتی اسکی حفاظت اس کی تزئین و آرائش بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمارے ملک میں آنے والوں کو ہماری مختلف جگہیں صرف اسی صورت میں پسند آئیں گی جب ہم اس ملک کو اپنے گھر کی طرح صاف رکھیں گے۔ ہم تو وہ ہیں جو کسی جگہ پکنک کے لئے جاتے ہیں چپس، جوس، بوتلیں، بچا ہوا کھانا کھا کر وہیں پھینک کر ہاتھ جھاڑ کر اٹھ کر نکل جاتے ہیں۔
ذرا سوچیں! اگر کسی پکنک کی جگہ پر گندگی ہوگی تو کیا ہم وہاں بیٹھنا پسند کریں گے؟ آپ کا جواب یقیناً نہیں میں ہوگا، تو جو گندگی ہم چھوڑ کر جا رہے ہیں وہاں بھی تو کوئی بیٹھنے کی جگہ ڈھونڈ رہاہو گا اور ہماری پھیلائی گندگی کی وجہ سے وہ وہاں بیٹھ نہیں پائے گا۔ سڑک پر سفر کرتے ہوئے بھی ہم عادی ہیں کہ چلتی گاڑی سے کچرا سڑک پر پھینک کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ گاڑی صاف رکھ لی لیکن جس سڑک پر ہر روز سفر کرنا تھا اسے گندا کر دیا۔ سوچنے کی بات ہے اگر ہر شخص اپنے گھر کا کچرا گلی میں پھینکنا شروع کر دے تو کچھ ہی دنوں میں وہاں کچرے کے ڈھیر لگ جائیں گے اور اس سے کوئی اور متاثر نہیں ہو گا بلکہ آپ کے ہی بچے متاثر ہونگے۔ نہ تو وہ اس گلی سے گذر پائیں گے نہ ایک صحت مند صاف ستھری ہوا میں سانس لے سکیں گے۔ تعفن اور بدبو کی فضا وہاں رہنا محال کر دے گی۔ یہی کچرا ہر روز آپ کو یہ احساس دلائے گا کہ یہ آپ ہی کی پھیلائی گندگی ہے۔ مچھر اور مکھیاں دن اور رات کا سکھ چین حرام کر دیں گی۔ اور آپ کی دیکھا دیکھی ارد گرد کی گلیوں کے افراد بھی اس کچرے کے ڈھیر کو دیکھ کر اسے کچرا کنڈی سمجھتے ہوئے اپنا کچرا بھی وہیں پھینکنے کی کوشش کریں گے۔
لیکن اگر حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری کو بھول کر صرف اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنے گھر کی گندگی باہر پھینکنے کی بجائے ہر روز کچرا اٹھانے کے لئے آنے والوں کے حوالے کریں تو کہین کوئی کچرا کنڈی نہیں بنے گی۔ نہ صرف گلی محلے بلکہ شہر اور ملک بھی صاف ستھرا رہےگا۔ اور گھر سے نکلتے ہوئے صاف ستھرا ماحول منتظر ہو گا۔ ہم دیگر ملکوں کی مثالیں ضرور دیتے ہیں لیکن ان کی اچھائیوں کو نہیں اپناتے۔ وہاں کی خوبصورتی سے متاثر ہوتے ہیں لیکن اپنے اندر کی خوبصورتی کے لئے کوشش تک نہیں کرتے۔ ہم مثالیں دیتے ہیں کہ امریکہ، کینیڈا برطانیہ سمیت دیگر کئی ممالک نہایت صاف ستھرے ہیں لیکن جناب وہاں کے رہائشی ہماری طرح کھا پی کر کچرا سڑک پر نہیں پھینکتے بلکہ سڑک کنارے موجود خصوصی طور پر بنائے گئے کچرا دانوں میں ڈالتے ہیں ۔کبھی اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو آپ کو بھی ہر شہر ہر گلی کے قریب میں کچرا دن نظر آ جائے گا لیکن اس کچرا دان کو استعمال کرنے کےلئے اپنے شعور کی آنکھیں کھولنا ہونگی۔ باہر کی گندگی دور کرنے کے لئے پہلے اپنے اندر کی گندی صاف کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا۔ پھر ہمیں بھی ایک ساف ستھری گلی، صاف ستھرا محلہ، صاف شہر اور صاف ملک میں رہنا نصیب ہو گا۔ لیکن اس کی ابتدا کوئی حکومت، کوئی انتظامیہ نہیں کرے گی بلکہ اسکی ابتدا ہمیں خود کرنا ہو گی، اپنے گھر کا کچرا گلی میں پھینکنے کے بجائے کچرا دان میں ڈال کر۔ ایسا کر کے دیکھیں دل اور ضمیر کو سکون اور خوشی کا احساس ضرور ہو گا۔