دھرنے کا اصل محرک خیبر پختون خوا میں ووٹ بینک
اس بات کو سمجھنے کےلیے اس سادہ سوال پر غور کیجیے کہ دھرنے میں کن پارٹیوں کے کارکن کہاں سے آئے ہیں؟
جی ہاں۔ سوال تقریریں جھاڑنے والے لیڈرز کے متعلق نہیں، بَل کہ کارکنوں کے متعلق ہے۔
ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ جمعیتِ علمائے اسلام کے کارکن آئے ہیں اور وہ پورے ملک سے آئے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ حضرت مولانا نے اپنے کارکنوں کی انتہائی طاقت اکٹھی کرکے سامنے رکھ دی ہے۔ چناں چِہ ان کی انتظامی اور تحریکی صلاحیتیوں کی داد دینی لازم ہے۔
کسی زمانے میں قاضی حسین احمد صاحب مرحوم کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ وہ کہیں بھی بہت بڑا مجمع اکٹھا کر دیتے۔ بالعموم یہ مجمع ان کے اپنے کارکنوں کا ہوتا اور بالعموم یہی کارکن ہر جلسے اور مجمع میں جمع ہوتے۔ ہمارے بعض دوست ان دنوں کہا کرتے تھے کہ قاضی صاحب خود نہیں تھکتے لیکن ہمارا بھرکس نکل گیا ہے، کیوں کہ کبھی دِیر میں جلسہ ہے تو کبھی پشاور میں، پھر لاہور میں، اس کے بعد کراچی میں اور ہر جگہ ہمیں جانا پڑتا ہے۔
حضرت مولانا نے اس اقدام کو اچھی حکمت عملی اور بہترین پلاننگ سے اپنی طاقت کے اظہار کےلیے استعمال کیا ہے۔ مولانا کے کارکن سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے بعض مخصوص علاقوں میں ہی پائے جاتے ہیں؛ البتہ خیبر پختون خوا کے تقریباً ہر حلقے میں مولانا کے کچھ نہ کچھ ووٹرز پائے جاتے ہیں اور بعض حلقے تو گویا روایتی طور پر ان کی جیب میں پڑے ہوئے ہیں۔ مولانا نے یہ ساری قوت متحرک کر دی ہے۔
دوسرے نمبر پر اس دھرنے میں آپ کو پختون قوم پرست پارٹیوں کے کارکن نظر آتے ہیں۔ البتہ، پختونخوا میپ، یعنی جناب اچکزئی صاحب کی پارٹی شمولیت کےلیے عوامی نیشنل پارٹی سے مختلف وجہ رکھتی ہے۔
دوسرا زاویہ:
پنجاب اور آزادی مارچ از، عمار خان ناصر
اچکزئی صاحب بنیادی طور پر میاں صاحب کی دوستی میں آئے ہوئے ہیں۔ چناں چِہ ان کے ذاتی تعلقات، اگر ہم بعض معلوم ذاتی مفادات کا ذکر نہ بھی کریں، ہی اصل وجہ ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت کے بھی میاں صاحب سے قریبی تعلقات ہیں لیکن ان کے کارکنوں کی شمولیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی نے ان کے ووٹ بینک میں بہت بڑا dent لگایا ہے۔
یہ امر ابھی تجزیہ نگاروں کی نظر میں اہمیت حاصل نہیں کر سکا کہ پی ٹی آئی نے کیسے پختون قوم پرستوں کے ایک بڑے حصے کو اپنی طرف کھینچا ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ اسی کے متوازی اس حقیقت کو بھی تجزیہ نگاروں نے کوئی خاص اہمیت نہیں دی کہ صوبہ خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی نے دونوں بڑی دینی جماعتوں، جمعیتِ علمائے اسلام اور جماعتِ اسلامی، سے بھی اچھا خاصا ووٹ بینک چھینا ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ خیبر پختون خوا کے سیاق میں پی ٹی آئی نے آخر کیسے ایک جانب قوم پرست اور دوسری جانب مذہبی ووٹرز کی حمایت حاصل کی ہے۔ اسی طرح خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی کے سوئے ہوئے اور مایوس ووٹر کو بھی اپنی طرف کھینچا ہے، لیکن اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کیوں کہ محترمہ کی شہادت اور زرداری صاحب کی قیادت کے بعد پیپلز پارٹی کے ووٹر کے لیے شاید پی ٹی آئی ہی مناسب آپشن رہ گیا تھا۔ (واضح رہے کہ یہ بات خیبر پختون خوا کے تناظر میں کہی جا رہی ہےجس کی سیاسی حرکیات پنجاب اور سندھ کی سیاسی حرکیات سے الگ اور مختلف ہیں۔)
اس لحاظ سے دیکھیں تو اس امر پر حیرت
نہیں ہو گی کہ کیوں دھرنے میں خیبر پختون خوا سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔
جہاں تک سندھ سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا تعلق ہے تو دھرنے میں ان کی موجودگی کالعدم ہے اور سندھ میں بھی آزادی مارچ کو پیپلز پارٹی نے انگریزی محاورے کے مطابق، cold shoulder، یعنی سرد کندھا دیا تو اس کی وجہ قابلِ فہم ہے۔ یہ بالکل اسی طرح کا معاملہ ہے جیسے پنجاب، بالخصوص لاہور، میں نون لیگ نے کیا۔ مصالحت کی کوششیں بھی اس کے پیچھے ہوں گی لیکن بنیادی وجہ مصلحت ہے، یعنی اپنے ووٹرز کو مولانا کے ہاتھ نہ لگنے دینے کی خواہش۔
یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ آخر کیوں پنجاب نون لیگ کی نسبت خیبر پختون خوا نون لیگ اپنے کارکن دھرنے میں لے آئی! یہاں بھی واضح رہے کہ بنیادی طور پر یہ کارکن امیر مقام کے زیرِ اثر علاقوں سے آئے ہیں۔ ویسے بھی خیبر پختون خوا کے دیگر علاقوں میں نون لیگ بہت پہلے ارذل العمر کی بیماریوں میں مبتلا ہو چکی ہے۔
چُناں چِہ، خلاصہ یہ بنتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ کے کارکنوں کو دھرنے کا حصہ بننے نہیں دیا، بالکل اسی طرح جیسے نون لیگ نے پنجاب، بالخصوص لاہور، کے کارکنوں کو بچانے کی پالیسی اختیار کی؛ بلوچستان کی سیاست ہمیشہ سے چُوں چُوں کا مُربّہ بنی رہی ہے اور اب بھی وہی کیفیت ہے؛ البتہ خیبر پختون خوا سے ہر بڑی پارٹی نے اپنے کارکنوں کی کچھ تعداد کو دھرنے کا حصہ بنادیا ہے۔
گویا دھرنے کے پیچھے اصل محرک خیبر پختون خوا کی سیاست میں اپنے اپنے حصے کے تحفظ کا احساس ہے اور اصل معرکہ خیبر پختون خوا کے ووٹرز کی حمایت کے حصول کا ہے۔ باقی ملک میں حالات جوں کے توں ہیں۔
پس نوشت:
جمعیتِ علمائے اسلام کے پرجوش کارکنوں سے مخلصانہ اپیل: نا پسندیدہ تجزیہ برداشت کرنے کی خُو پیدا کیجیے کیوں کہ اس کا فائدہ دل پسند تجزیے سے زیادہ ہوتا ہے، اگر سمجھیں۔
از، پروفیسر محمد مشتاق