دھرنا، مذہب اور متروکہ جائیداد
از، ملک تنویر احمد
اسلام آباد اور راولپنڈی کو باہم جوڑنے والی شاہراہ پر دیا جانے والا دھرنا چشم فلک کے لیے کوئی نیا منظر ہے اور نہ ہی ہماری اجتماعی سماعتیں اس دھرنے کے شرکاء کے حلق سے بر آمد ہونے والے بلند آہنگ آوازوں سے نا مانوس ہیں۔ اس رُوئے زمین پر پاکستان نامی خطہ ارضی تو روز اول سے ایسی ’’پاکیزہ‘‘ روحوں کے پیکر خاکی کے قدموں تلے دہل رہا ہے جو سیاست کے میدان میں تو کسی گنتی شمار میں نہیں لیکن سیاست کی قبا کو چاک کرنے والے خفیہ اور نادیدہ ہاتھوں کا آلہ کار بننے کے لیے مستعد و تیار۔
اس دھرنے نے جڑواں شہروں کے نظام زندگی کو کس طرح مفلوج کیا اور چند سو افراد کے ہاتھوں وفاقی حکومت کو کس طرح یرغمال بنایا گیا یہ اب خیرسے ثانوی باتیں ہی رہ گئی ہیں کیونکہ اس دھرنے میں مسند صدارت پر فروکش’’مقدس‘‘ ہستیوں کے بقول کسی اعلیٰ و ارفع مقصد کے لیے ایسی مشکلات تو سہنی پڑتی ہیں اب وفاقی حکومت رہ گئی ہے جو ٹک ٹک دیدم دیدم نہ کشیدم کی تصویر بنے ایک عضو معطل سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی اور شاید اس دھرنے کے پس پردہ ہاتھوں کی مرضی و منشاء بھی یہی ہے کہ ایک سیاسی و جمہوری حکومت کو اس طرح مفلوج کر دیا جائے کہ غیر تو غیر اپنے بھی اس کی ناتوانی و کمزوری پر اسے کوسنے دیں کہ ایسی حکومت کا ہونا نہ ہونا ایک برابر۔
پاکستان میں سیاسی و جمہوری حکومتوں کو سرِ بازار اس طرح رسوا کرنا اور انہیں ایک ناکام و ناتواں حکومت ثابت کرکے اپنے لیے اسپیس حاصل کرنا ایک پرانا لیکن آزمودہ نسخہ رہا ہے، اس مقصد کی آبیاری کے لیے مذہب کو حربے کے طور پر استعمال کرنا دو آتشہ ٹھہرتا ہے کہ ایک طرف ایک خاص حکومت کومذہب دشمن ظاہر کر کے اسے عوام الناس کی ہمدردیوں سے محروم کر دیا جائے تو ددوسری جانب اسے حد تک دیوار سے لگا دیا جائے کہ اسے کان سے پکڑ کر اقتدار سے باہر کرنے میں آسانی ہو یا اگر آئینی مدت پوری بھی کر لے تو اس کی حیثیت کسی مفلوج زدہ جسم سے زیادہ کی حیثیت نہیں ہوتی جو فقط قدرت کی جانب سے عنایت کردہ سانسیں پوری کرنے کے لیے ہی زندہ ہوتا ہے۔
مذہب کے نام پر جذبات ابھار کر سیاسی حکومتوں کو کھڈے لائن کی شروعات تو پچاس کی دہائی میں ہی ہو گئی تھی جب خواجہ ناظم الدین جیسا مرنج مرنجاں وزیر اعظم بھی آنکھوں اور قلب دونوں میں کھٹکتا تھا۔اس دور میں چلنے والی تحریک نے کیا اعلیٰ ارفع مقاصد حاصل کیے اس پر زبان دانتوں کے تلے ہی رہے تو بہتر ہے ہاں البتہ گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ نظام الدین کی حکومت کو چلتا کیا ۔ چلیں خواجہ ناظم الدین تو بیچارہ ایک کمزور بنگالی وزیر اعظم ٹھہرا یہا ں تو ذوالفقار علی بھٹو جیسا نڈر بھی نہ ٹھہر سکا۔یہ وہی بھٹو ہے جس نے آئین میں اسلامی دفعات شامل کرنے کا سہرا اپنے سر پر سجایا لیکن اسلامی نظام کے نام پر چلنے والی اینٹی بھٹو تحریک نے ملک کو طالع آزماؤں کو پنجے میں پھنسا دیا۔
آج پھر مذہب کے مقدس نام پر ایک ناٹک رچایا جا رہا ہے جس میں مذہبی ہیجان اور لسانی ہذیان کے وہی سارے رنگ نظر آتے ہیں جو روز اول سے ہماری جنم جلی قسمت میں لکھ دیا گیا تھا۔اسلام آباد دھرنے کے اغراض و مقاصد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں کہ دھرنا دینے والی جماعت اب ایک سیاسی فریق بن چکی ہے جس کی فرقہ وارانہ بنیادوں پر اٹھان ہوئی ہے۔ یہ بات تو قطعیت سے کہی جا سکتی ہے کہ لبیک تحریک کبھی پاکستان کے عوام کی اجتماعی دانش کو جو ووٹ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اس کی نمائندہ نہیں ہو سکتی تاہم چند ہزار معتقدین اور پیروکاروں کی بنیاد پر ایک پریشر گروپ کے طور پر اس وقت تک افادیت و اہمیت کی حامل رہے گی جب تک ان خفیہ مقاصد کی تکمیل نہ ہو سکے جو ہمارے ہاں پس پردہ قوتوں کے نخل فکر پر پھوٹتے رہتے ہیں۔
مذہب کے نام پر ایجی ٹیشن کرنا اس ملک میں سب سے سہل اور آسان حکمت عملی ہے کیونکہ اس میں ہینگ اور پھٹکڑی زیادہ لگے بغیر مطلوبہ رنگ چڑھ آتا ہے۔ مذہب کے مقدس نظریے کو اسی طرح متروکہ جائیداد سمجھ لیا گیا جس طرح بقول شورش کاشمیری کہ ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنیو الے ایک ناشر نے ابو الکلام آزاد کو متروکہ جائیداد سمجھ لیا تھا۔ ان صاحب نے ایک ڈرامہ مولانا ابو الکلام کے نام سے شائع کر دیاجس سے مولانا صاحب کا دور دور تک تعلق نہ تھا۔ شورش کاشمیری نے ناشر کو اس سے باز رکھنا چاہا تو اس کا جواب تھا،’’ ہم مہاجر ہیں۔ اپنی جائیدادیں ہندوستان میں چھوڑ آئے ہیں۔یہاں روپیہ پیدا کرنے کے لیے اس قسم کا ڈالڈا تیار کرنا پڑتا ہے۔ آپ مولانا کی ادبی عظمت اور دینی تبحر کا احساس نہ کریں ہماری ویرانی کو ملحوظ رکھیں۔ ہمارے لیے مولانا کا نام متروکہ جائیدا د ہے اور ایک مہاجر کو متروکہ جائیداد سے مستفید ہونے کا حق پہنچتا ہے‘‘۔
مذہب کو بھی متروکہ جائیداد سمجھ کر اس کا جس طرح استحصال کیا جا رہا ہے وہ ہماری تاریخ کا کربناک باب ہے۔ اسلام آباد دھرنا بھی اسی طویل سلسلے کی نئی کڑی ہے اور اس کے پس پردہ مقاصد بھی سب پر خوب عیاں ہے لیکن کوئی بلند آواز سے کہہ نہیں سکتا کہ اب ایسے کھیل بند ہونے چاہیے جس میں مذہب کی آڑ میں مذموم مقاصد کی آبیاری کی جا رہی ہو ۔یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام آباد دھرنے کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جا رہی ہیں لیکن ایک سندھی کہاوت کی طرح کہ شیر کے منہ سے بو بھی آئے تو کسی میں یہ جرات نہیں کہ اس کے منہ پر کہہ سکے کہ تمھارے منہ سے بو آرہی ہے۔
تخت اسلام آباد پر بلاشبہ ایک نالائق اور کمزور حکومت براجمان ہے کہ جس کی رٹ دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھلتی جا رہی ہے لیکن اس ضعیف رٹ میں فقط حکومت کی ناتوانی کو ہی دخل نہیں کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں جو پس چلمن اپنا کھیل کھیلنے میں بہت مشاق ہیں اور اسلام آباد دھرنے جیسے اسکرپٹ تیار لکھنے میں کمال مہارت رکھتے ہیں ۔ جب دھرنے میں موجود ’’تقدیس‘‘ کے ہالے میں لپٹے ہوئے اجسام سے گھن گرج بلند ہوتی ہے تو میں کانپ جاتا ہوں کیونکہ ع
بہت باریک ہیں واعظ کی چالیں
لرز جاتا ہوں آواز اذاں سے میں