دھند میں لپٹا ہوا لا یعنی وجود
کہانی از، محمد عاطف علیم
ایک تیز آواز اس کے خوابیدہ دماغ کی جھلیوں میں ارتعاش پیدا کرتی ہوئی گہرائیوں میں جذب ہوگئی۔
ایسی ہی دوسری آواز پر لگا جیسے دبیز جالے پر کسی نے پتھر پھینک دیا ہو۔
تیسری آواز پر وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔
باہر یقیناً کوئی تھا جس نے اس کا نام لے کر اسے پکارا تھا اور اب جواب کا منتظر کھڑا تھا۔ اس نے ٹرنکولائزر کی دبیز دھند کو جھٹکتے ہوئے لائٹ جلا کر گھڑی دیکھی۔ رات کے دو بج رہے تھے۔
“اوہ مائی گاڈ! ماں بھی چل بسی؟”، ایک لرزا دینے والے خیال سے اس کے ماتھے پر تریلی آگئی۔ رات کے اس پہر کوئی اور کیوں آتا؟
“مگر کیا وہ اب تک زندہ تھی؟”، ایک اور خیال نے اسے چکرا دیا۔ اس نے یاد کرنے کی بہت کوشش کی مگر اسے کچھ یاد نہ آیا۔ اس کا ماضی زیر آب جزیرہ تھا اور وہ دور کے کسی ساحل پر بے نشاں کھڑا تھا۔
ماں کی موت یقیناًایک سانحہ ہے (جس نے ایک بار تو اسے دھڑکا ہی دیا تھا)لیکن اس سے زیادہ بداخلاقی کی بات یہ ہے کہ رات کے اس پہر کوئی باہر کھڑا اس کا انتظار کرتا رہے سو اس نے تلاش کرکے چپل پاؤں میں اڑسے اور تیزی سے باہر کو لپکا۔ باہر کوئی نہ تھا سوائے تاریکی اور سکوت کے جو ایک دوسرے سے لپٹے بے خواب نیند میں ڈوبے پڑے تھے۔ یہ سوچ کر کہ آنے والا اندھیرے میں ایک سی دکھنے والی عمارتوں کے باعث مغالطے میں نہ پڑ گیا ہو، اس نے گلی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جا دیکھا مگر اس کا کہیں کوئی سراغ نہ تھا۔
“عجیب آدمی ہے، اتنی بڑی خبر دینے کے لیے مشکلوں سے میرا ٹھکانہ تلاش کیا اور میرے جاگنے کا انتظار کیے بغیر ہی چل دیا۔” اس نے طیش کے مارے پاؤں پٹختے ہوئے اسے ماں کی گالی دی اور ایک اینٹ پر پھونک مار کر بیٹھ گیا کہ اب کیا کرے۔
اب کی بار اس نے ذرا جم کر ماں کو یاد کرنے کی کوشش کی مگر بہت کوشش کے بعد بھی اسے ایک دیمک کھائی چوکھٹ، جھاڑیوں میں الجھی سفید چادر اور موم بتی کی آنکھ سے ٹپکے ایک قطرے کے سوا کچھ یاد نہ آسکا۔ ظاہر ہے ایسی مبہم اور بے تکی علامتوں کو لے کر ماں جیسی ماں کے ہیولے کو تعمیر نہ کیا جاسکتا تھا سو اس نے ایک بار پھر یہاں سے وہاں تک نظر دوڑائی مگر بے سود۔ اب تو اس شخص سے ملنا زیادہ ضروری ہوگیا تھا کیونکہ صرف وہی تھا جس کے ذریعے اسے اپنی ماں کا سراغ مل سکتا تھا۔ اس نے اس کے ہونے کے مختلف امکانات پر غور کیا جن میں سے صرف یہی ایک امکان قابل قبول تھا کہ وہ جو اتنی دور سے اسے تلاش کرتا آیا ہے یقیناً اب بھی کسی دوسری گلی یا کسی دوسرے محلے میں اسے پکارتا پھر رہا ہوگا۔
“اگر وہ بچ کر نکل گیاتو سمجھو میں گیا۔” اس نے سوچا اور ایک عزم کے ساتھ اٹھ کر ایک طرف کو چل دیا۔ بہت دور جانے پر اس نے سمت بدلی اور ایک بغلی گلی میں گھس گیا،وہاں سے ایک اور گلی کو نکلتے دیکھا تو ادھر کو ہولیا۔ وہ چوروں، چوکیداروں اور کتوں سے بچتا بچاتا چار اطراف کی کئی ایک بھول بھلیوں جیسی تنگ اور بے مراد گلیوں میں گھوم آیا مگر کہیں بھی ایک بے کیف سکوت اور یاس انگیز نیند کے سوا کچھ نہ ملا۔
وہ گھوم پھر کر مقام آغاز پر واپس پہنچا توخاصا تھک چکا تھا سو اس نے بغیر بلب کے ایک کھمبے سے ٹیک لگائی اور اپنی تلاش کا پہلا سگریٹ سلگا لیا (افراتفری میں گھر چھوڑنے کے باوجود سگریٹ ماچس ساتھ لانا نہ بھولنے پر اس نے خود کو شاباش دی)۔ اس نے اوپر تلے چند بے تاب کش لگانے اور بہت سا کھانس چکنے کے بعد اپنی تلاش کے گذشتہ عمل کا تنقیدی جائزہ لیا اور اپنے اکتائے ہوئے دماغ کو نئے امکانات کھوجنے پر لگادیا۔
سوچتے ہوئے دفعتاً ایک نئے خیال نے اسے چونکا دیا، “خدایا! یہ مجھے پہلے کیوں نہ سوجھا کہ ممکن ہے اس نے کسی اور دروازے پر جاکر اسے پکارا ہو اور جواب میں جو آدمی بھی باہر نکلا اس نے پہچان نہ ہونے کے سبب مغالطے میں اسے میری ماں کے مرنے کی اطلاع دی ہو اور وہ شخص اپنی ماں کی بھول میں اس کے ہمراہ چل دیا ہو۔”
“بلکہ یہ بھی ۔۔۔ ہاں، بالکل یہ بھی ہوسکتا ہے۔”اس نے ایک اور نئے خیال کی رو کے جوش میں سوچا کہ کیا معلوم کہ فوتیدگی کی خبر پانے والے کو پتا ہو کہ مرنے والی اس کی نہیں کسی اور کی ماں تھی پھر بھی وہ شخص چالاکی سے اس کے ہمرا چل پڑا ہو کہ توجہ حاصل کرنے کا اس سے سنہری موقع اور کیا ہوسکتا ہے؟ آجکل تو ہر کوئی توجہ کا طالب بنا پھرتا ہے۔
“حرامزادہ! میرا بہروپ بھر کر لوگوں سے میری ماں کا پرسہ لے گا اور خوش ہوگا کہ لوگ (جوان عورتیں بھی) اس کے گلے لگ کر رونے کی رسم پوری کررہے ہیں۔”اس نے تصور میں اس بہروپیے کو ٹریجک ہیرو بنے دیکھا توحسد کے مارے اس کا تن بدن سلگ اٹھا۔ اب کے ایک قاتلانہ عزم نے اس کے اندر پھر سے تلاش کا جذبہ بھردیا۔
“مگر کیا واقعی میری ماں آج سے پہلے تک زندہ تھی؟”وہی شک پھر سے سرسرایا مگر توجہ کی دیرینہ طلب نے اس کا سر سختی سے کچل دیا۔ اس نے ان دونوں کی جائے موجودگی جاننے کے لیے اپنے دماغ میں شہر کے جغرافیے کی بازیافت کی(رات کے وقت شہر کا نقشہ کتنا بدل جاتا ہے، اس نے سوچا) وہ دونوں یقیناًلاری اڈے کی طرف روانہ ہوئے ہوں گے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ شہر میں ویگنوں اور بسوں کے اڈے کھمبیوں کی طرح اگے ہوئے تھے، کون جانے وہ کس اڈے کی طرف روانہ ہوئے ہوں گے؟
“خیر، یہ کوئی ایسا بڑا مسئلہ بھی نہیں، وہ اسی اڈے کی طرف گئے ہوں گے جہاں سے میری ماں کے شہر کو بسیں جاتی ہیں۔” اس نے یہ طے کرکے قدم بڑھائے ہی تھے کہ اسے وہیں رک جانا پڑا۔ اب کے یہ سوال سامنے آکھڑا ہوا کہ اس کی ماں نے جس گھر میں دم توڑا تھاوہ کس شہر میں یا کس شہر کے کس گاؤں میں واقع ہے؟یہ سوال نہایت ادق تھا کہ اس میں صاف علم جغرافیہ اپنی ناک گھسیڑ رہا تھا جبکہ وہ اس علم میں ہمیشہ سے کورا تھا۔ جتنی دیر میں وہ اپنی ساری جغرافیہ دانی کو بروئے کار لاتے ہوئے اس پیچیدہ سوال کو حل کرتا، وہ دونوں لوگ فراٹے بھرتے ہوئے جانے کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہوں۔ وہ اس گھمبیر سمسیا کو حل کرنے کے لیے وہیں زمین پر پھسکڑا مار کر بیٹھ گیا اور خود پر استغراق کا عالم طاری کرنے کے لیے ایک اور سگریٹ سلگا لیا۔
اس نے گلے کی زخمی رگوں کو پر اذیت لذت کے ساتھ کاٹنے والی کھانسی کے ایک مختصر دورے کے بعد دماغ کو جما جما کر جاننے کی کوشش کی کہ وہ کب اور کس شہر سے ہجرت کرکے یہاں آیا تھا اور جہاں وہ اس وقت موجود ہے اس شہر کا نام کیا ہے؟اگر کوشش سے عرصہ ہجرت کا تعین ہوجاتا اور موجودہ شہر کا نام بھی یاد آجاتا تو عین ممکن تھا کہ سو چ کے بہاؤ کے دوران اس شہر کا نام بھی یاد آ جاتا جہاں سے اس نے ہجرت کی تھی اور ظاہر ہے کہ وہی اس کی ماں کا شہر تھا۔
مزید ملاحظہ کیجیے: بانو قدسیہ نے خواتین لکھاریوں کو کس طرف لگا دیا
محمد عاطف عاطف علیم کی ایک روزن پر شائع شدہ دیگر تحریریں
اسے بہت سی دماغ کھپائی کے باوجود کچھ یاد تو نہ آسکا مگر اس خیال نے اس کی ڈھارس بندھادی کہ وہ اپنے کمرے میں واپس جاکر اپنی اسناد اور شناخت میں مدد دینے والے دیگر کاغذات کی مدد سے سب کچھ معلوم کرسکتا ہے۔ لیکن وائے ناکامی کہ اگلا لمحہ کامل ترین مایوسی کا لمحہ تھا۔ اس کے دماغ نے تھوڑی حسابی چھان پھٹک کے بعد اسے باور کرایا کہ وہ تو چوری کی ایک واردات کے نتیجے میں اپنی تمام شناختی علامات سے محروم ہوچکا ہے۔
“خدایا! اگر ایسے میں میں کسی پولیس وغیرہ کے چکر میں پھنس جاؤں تو کیا ہو؟”، اس نے دہل کر سوچا۔
اس نے مایوسی کوجھٹکنے کے بعد اپنی زخمی رگوں کی کاٹ دار اذیت سے لطف اندوز ہونے اور استغراق کے عالم کو طاری کیے رکھنے کے لیے اوپر تلے دو چار کش لگائے اور کسی نئی راہ سے اس مسئلے کو سلجھانے کی ٹھانی۔ اب کے اس نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کب کب اور کہاں کہاں سفر پر جاتا رہا ہے۔ وہ اس دھوکے میں آنے کے لیے تو خیرقطعی تیار نہ تھا کہ اس نے کبھی سفر ہی نہ کیا ہو کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کے بیڈ کے نیچے بہت سی الم غلم چیزوں کے درمیان کہیں ایک سفری بیگ پڑا ہوا ہے جس کے اندر گو کہ ایک ٹوٹی ہوئی جوتی کا جوڑا اور بہت سی ٹڈیاں بھری پڑی تھیں تاہم گرد کی دبیز تہہ میں ملفوف یہ بیگ اس کے گذشتہ کم از کم کسی ایک سفر کا ناقابل تردید ثبوت تھا۔
اس نے سفری بیگ کو اپنی تلاش کا نقطہ آغاز مانا اور کسی خاص سمت میں آگے بڑھنے سے پہلے ایک اور سگریٹ سلگالیا۔ مگر آہ! آخری کش کے بعد آتشی جگنو کو فضا میں اچھالنے تک وہ اس نقطہ آغاز سے ایک انچ بھی آگے نہ کھسک سکا تھا۔ اسے بہت یاد کرنے پر بھی یاد نہ آسکا کہ یہ سفری بیگ آخری بار کب سفر کے کام آیا تھا۔ اسے یہ تک یاد نہ تھا کہ وہ بیگ کب سے اس کے پاس ہے۔
اس نے جزو کو کل کے ادراک کے ناقابل پایا تو الٹی منطق اپناتے ہوئے کل سے جزو کی طرف بڑھنے کی ٹھانی۔ تب اس نے آسمان پر آخری پہر کے ٹمٹماتے ستاروں کو دیکھا اور ایک لامتناہی کائنات کا اثبات کرتے ہوئے ترنت اسے نقطہ آغاز مان لیا۔ یہ کرنے کے بعد اس نے فلکیات کے بارے میں اپنے مبلغ علم کو بروئے کار لاتے ہوئے جانا کہ اس کائنات کی کسی کہکشاں میں ایک سورج موجود ہے جس کے گرد چند عدد ستارے یا سیارے گردش کرتے ہیں جن میں یقیناً زمین بھی شامل ہے۔ یہ وہ ستارہ یا سیارہ ہے جس کے کسی حصے میں امکانی طور پر وہ شہر یا گاؤں موجود ہو سکتا ہے جس میں واقع کسی گھر میں اس کی ماں نے دم توڑا تھا۔ یہاں تک پہنچ کر اس نے نیا سگریٹ سلگا کر ایک اطمینان بھرا کش لگایا۔ اس بار وہ اپنے نقطہ آغاز سے بہت آگے بڑھ چکا تھا۔
اب یہ ہے کہ اس زمین پر ہزاروں جزیرے اور سینکڑوں ملک آباد ہیں جن میں سے ایک وہ ملک (یا جزیرہ) بھی ہے جہاں اس لمحے وہ اور اس کا مطلوبہ ہدف موجود ہیں۔ اگر اس ملک یا جزیرے کا پتا چل جائے تو سارا معاملہ صاف ہو جائے۔ اس کا علم فلکیات اسے یہاں تک تو لے آیا لیکن اس کے آگے وہ گڑبڑا گیا کیونکہ اس سے آگے علم جغرافیہ کی حدود شروع ہوجاتی ہیں اور یہ وہ منطقہ ہے جہاں محاورے کے مطابق فرشتوں کے پر جلتے ہیں۔
اس نے آگے بڑھنے سے پہلے سنبھالا لینے کے لیے ایک اور سگریٹ سلگایا تو پہلے ہی کش پر کھانسی کا ایسا شدید دورہ پڑا کہ اس کا دم الٹ گیا۔ اپنی فکر کی گرم بازاری میں محو ہوکر اتنے سارے سگریٹ پیتے ہوئے وہ بھول گیا تھا کہ اس کے گلے ہوئے پھیپھڑے نکوٹین کی مزید ایک رمق بھی برداشت کرنے کے روادار نہ رہے تھے۔ اپنی اس حالت کا یقیناًوہ خود ذمہ دار تھا کہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے روز اپنا ڈاکٹری معائنہ کرانے کا سوچتا تھا اور روز ہی بھول جاتا تھا۔
اس نے کھانسی کے دورے سے سنبھلتے ہی سگریٹ کو مرے ہوئے سانپ کی طرح دور پھینکا اور آنکھیں پونچھ کر خرخراتی سانسوں دوبارہ سے محو استغراق ہوگیا۔
ابھی وہ خود پر استغراق کی کیفیت کو ٹھیک سے طاری بھی نہ کرپایا تھا کہ زمین پر یکساں وقفوں سے لاٹھی بجنے کی قریب آتی آواز پر وہ جنگلی ہرن کی طرح بدک اٹھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ آنے تک وہ اندھیرے کی کوکھ سے نکل آیا تھا اور اب عین اس کے سر پر کھڑا اسے گہری طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ گھور رہا تھا۔
“پھر ٹپک پڑا نامراد، ہمیشہ کی طرح عین غلط وقت پر۔”، اس نے دانت پیس کر بے زاری سے یوں منہ پھیر لیا گویا اسے دیکھا ہی نہ ہو۔
“بہت بد اخلاق ہوگئے ہو، بیٹھنے کا بھی نہیں کہا۔”، اس نے اپنے معمول کے کاٹ دار لہجے میں کہا اور جواب کا انتظار کیے بغیر قریب ہی زمین پر اپنی لکڑی کی ٹانگ کو دونوں ہاتھوں سے بہتر پوزیشن پر لاتے ہوئے بیٹھ گیا،”کیا زندگی پائی ہے تم نے بھی، دن بھر آنکھوں پر کھوپے چڑھائے کنویں کے گیڑے گیڑنا اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر گلیوں میں ہڑبڑائے پھرنا۔”، اس نے لفظوں کی چاند ماری جاری رکھی۔
“دیکھو میں پہلے ہی بہت مشکل میں ہوں، اوپر سے تم۔۔۔”
’اتنی بے زاری مت دکھاؤ، میں تمہاری مشکل کو اچھی طرح سے سمجھ رہا ہوں۔” وہ اس کی بات اچکتے ہوئے قدرے ملائم لہجے میں رواں رہا،”لیکن اس مشکل کا براہ راست تعلق تمہاری عدیم المثال بے وقوفی سے ہے۔ جو کچھ کھوچکا ہے اسے پھر سے پانے کے لیے بھٹکتے پھرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟”
“مگر میں اس بھوکے ندیدے خلا کا کیا کروں جو منہ کھولے مجھے نگلنے کو بے چین ہورہا ہے۔ اور پھر تم کون ہوتے ہو میرے ذاتی معاملات میں ٹانگ اڑانے والے؟”
“تم مان کیوں نہیں لیتے کہ خلا ایک ابدی سچائی ہے اوراس سے فرار کی کوشش نری حماقت ہے۔”لکڑی کی ٹانگ والے نے اس کے کڑے لہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے بات جاری رکھی۔”تم یہ بھی مان کیوں نہیں لیتے کہ تم اپنی ماں کی خبر کھوچکے ہو اور یہ کہ تم لاکھ سر پٹکو نہ تمہیں اپنا نشان ملے گا نہ اپنی ماں کے شہر کا سراغ ملے گا۔ رہی پکار تو کوئی پڑا پکارے تم کیوں اپنی نیند خرا ب کرو ہو؟”
اتنے میں ہوا کا ایک تیز جھونکا اپنی جھونک میں وہاں سے گزرا اور اپنے ساتھ لائی چیخ اور بین کے بین بین نہ سمجھ میں آنے والی تیز نسوانی آوازیں سارے میں بکھیرتا چلا گیا۔ وہ جھرجھرا کر رہ گیا مگر لکڑی کی ٹانگ والا رسان سے کہے گا:
“چلو ہٹیلا ہونے میں بھی کوئی عیب نہیں مگر تمہاری غلطی یہ ہے کہ تم اپنے الجھے ہوئے مسئلے کو استخراج اور استقرا کی مدد سے سلجھانے کے درپے ہو، یہ جانے بغیر کہ بیکار کی یہ منطق آدمی کو لایعنیت کے سوا کبھی کہیں لے کر نہیں گئی۔ اس پر اپنی فاش غلطی دیکھو کہ تم نے اپنے مسئلے کے حل کے لیے کائنات کو حقیقی شے مان لیا حالانکہ تمہارے پاس اس کا کوئی ناقابل تردید جواز موجود نہیں ہے۔”
“ویدانت کا گھپلا مت مارو بقراط کے بچے!” اس نے تیزی سے بات کاٹی۔
“نہیں ویدانت وغیرہ نہیں لایعنیت کہو کہ یہی ایک شے بچی ہے جو بامعنی ہے۔ اچھا، یہ بتاؤ کہ تم نے کیسے جانا کہ واقعی کسی دوسرے شخص نے تمہیں پکاراتھا؟ چلو، فرض کیا کہ سچ مچ میں کہیں سے کوئی پکار آئی تھی مگر تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ جسے پکارا گیا تھا وہ تم ہی ہو اور کوئی نہیں؟جب کہ تم نے راتوں کو بھٹک بھٹک کر اتنا تو پتا چلا ہی لیا کہ اندھیرے میں سب ٹھکانے اور ساری عمارتیں ایک سی ہوجایا کرتی ہیں اور تمہیں یہ بھی معلوم پڑ ہی جائے گا کہ ہر چہرہ ایک ہی چہرہ ہے اور ہر شخص ایک ہی نام کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہے۔
اس نے ٹٹول کر پیکٹ سے آخری سگریٹ نکالا مگر سلگایا نہیں کہ وہ اپنا دم الٹا کر اس ناروا شخص کے سامنے مزید کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا۔
” اور پھر یہ بھی ہے کہ کوئی تمہیں پکارنے آبھی کیسے سکتا ہے جبکہ تمہارے کسی جاننے والے کو تمہارے ٹھکانے کا اتا پتا ہی معلوم نہیں۔” اس نے لکڑی کی ٹانگ کو سہلاتے ہوئے بات جاری رکھی، “چلو یہ بھی مان لیا کہ کسی پر اسرار ذریعے سے اس نے تمہارا پتا چلا بھی لیا ہو مگر یہ کیسے تسلیم کرلیا جائے کہ وہ تمہیں تمہاری ماں کے مرنے کی خبر ہی دینے آیا تھا۔ وہ تم سے مثلاً ماچس سگریٹ وغیرہ مانگنے کیوں ہیں آسکتا تھا؟”
“نہایت بے تکی بات ہے۔ رات کے پچھلے پہر صرف دھڑکا دینے والی خبر ہی مل سکتی ہے اور یہ خبر ماں کی موت کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے؟”،وہ اس پولیو زدہ شخص کے خلاف پوائنٹ سکور کرکے فاتحانہ انداز میں مسکرایا۔
“شاید ایسا ہی ہو۔” اس نے زمین پر لاٹھی بجائی، ” لیکن تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ تمہاری ماں آج سے پہلے تک زندہ تھی جب کہ تم تو ایک سالخوردہ چوکھٹ، جھاڑیوں میں الجھی سفید چادر اور موم بتی کی آنکھ سے ٹپکے ایک قطرے کے سوا اپنی ماں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔”
“خیر، یہ شک تو مجھے بھی گزرا تھا۔” اس نے ایمانداری کے ساتھ اعتراف کیا۔
“شک؟۔۔۔ چہ خوب!”، اسے مدہم پڑتے دیکھ کر وہ ایک کڈھب ہنسی ہنسا۔”خیر، اس لفظ شک پربھی بات ہو جائے گی پہلے یہ بتاؤ کہ ہم سب کچھ مانتے بھی چلے جائیں تب بھی یہ کیسے مانا جائے کہ وہ صرف تمہی کو تمہاری ہی ماں کے مرنے کی خبر دینے آیا تھا۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ کسی اور کو اس کی ماں کی موت کا بتانے آیا ہوبلکہ اس سے بھی زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ بہت سارے لوگوں کو ان کی ماؤں کے مرنے کی خبر دینے آیا ہو؟”
“اب تم صاف بے وقوفی پر اتر آئے ہو۔”وہ بہت سی ماؤں کے ایک ہی وقت میں مرنے کے تصور سے دہل سا گیا،”یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی روز، ایک ہی وقت میں بہت سی مائیں اکٹھی ایک ساتھ مرجائیں؟”
“سب کچھ ممکن ہے برادر عزیز!” اس نے ایک رسان سے کہا، “یہ دنیا عجائب خانہ ہے، یہاں ممکن کو ناممکن سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ کیا خبر اس بے امان شہر میں سب کے سب لوگ اپنی ماؤں سے محروم ہوچکے ہوں۔”
“تمہاری اس بے ہودہ اور لایعنی بات کو مان بھی لیا جائے تب بھی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خبر دینے والے نے چند لمحوں کی مہلت کے دوران ایک ایک کو پکارا ہو لیکن میرے سوا کوئی بھی باہر نہ نکلا ہو۔”
“یہ ایسے ہوسکتا ہے کہ ممکن ہے کسی اورنے اپنے نام کی پکار ہی نہ سنی ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ پہلے سے ہی باخبر ہوں اور اپنی نیند خراب نہ کرنا چاہتے ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سب لوگ اپنے بستروں پر مرے پڑے ہوں۔”
یہ ایک اور لرزا دینے والی بات تھی جس پر یونہی اسے خیال آیا کہ اپنے بھٹکنے کے دوران اسے کسی بھی گلی میں کوئی چوکیدار ملا نہ کسی چور سے سامنا ہوا، یہاں تک کہ کوئی آوارہ کتا بھی اس پر نہیں لپکا تھا۔
” تو کیا۔۔۔ ؟”، خوف کی ایک لہر اس کے دل و دماغ کو لرزا گئی۔
“اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم از کم میں، ایک میں تو ہوں۔”اس نے خوف کے اندر سے اپنے ہونے کے امکان کو تلاش کیا تو سرخوشی کے مارے اس کی آواز یکایک بلند ہوگئی۔
“آہستہ بولو، یہاں بہت سی بے قرار روحیں بھٹکتی پھر رہی ہیں تمہارے اس ہونے کے اعلان پر وہ ٹھٹھا کریں گی۔”
“نہیں، دیکھو! میرے ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب مجھے پکارا گیا تو میرے نام کی سمفنی نے میرے وجود میں تحرک پیدا کیا۔ جواب میں میں بستر چھوڑ کر اٹھا، باہر نکلا اور۔۔۔”
لکڑی کی ٹانگ والا اس پرجوش دلیل پر مسکرایا،”یہ جن روحوں کی تم نے ابھی چیخیں سنی تھیں، ان کے اندر بھی کسی نہ کسی پکار نے تحرک پیدا کیا تھا اور صلہ یہ کہ ابد تک بھٹکنا ان کا مقدر ٹھہرا۔ تمہاری بودی دلیل صرف شک کے ہونے کا اثبات کرتی ہے۔ یوں کہہ لو کہ تم ہو پر نہیں ہو، جیسے اور سب ہیں پر نہیں ہیں۔”
ہوا کا لہراتا ہوا جھونکا دور کی کسی گلی میں تیز اور کاٹ دار آوازوں سمیت لہراتا پھر رہا تھا۔
خاموشی کے طویل وقفے کے دوران وہ شک کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا پھر ا پھر سنبھل کر اس نے مایوسی اور غصے کی شدت سے اپنے بال نوچ لیے۔”تم لنگڑے، بے حقیقت ، بے ہودہ انسان! تم مجھے میرے خود سے محروم کرنا چاہتے ہو لیکن سن لو، وقت کے اس زندہ لمحے میں میں اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود ہوں۔”وہ چلایا تو اس کی آواز تاریکی اور سکوت میں دور تک ارتعاش پیدا کرتی چلی گئی۔
“وقت۔۔۔ ؟”، وہ ہنسا،”خیر، میں تو تمہیں صرف یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ دھند بہت دبیز ہوچلی ہے اور ابھی رات باقی ہے۔ جاؤ اور ٹرنکولائزرز کھا کر سو رہو۔”
اس نے یہ کہا اور لکڑی کی ٹانگ کھٹکھٹاتا تاریکی میں روپوش ہوگیا۔
(زیر نظر کہانی محمد عاطف علیم کے کہانیوں کے مجموعے “شمشان گھاٹ” سے لی گئی ہے۔)
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.