بنجر ذہنوں کی زمین : مکالمے کی موت کیوں ہوگئی
(معصوم رضوی)
مکالمہ dialogue مر گیا، سوچ بانجھ اور فکر کو قید کر لیا گیا، نتیجہ یہ کہ آج بات شروع ہی قتال سے ہوتی ہے اور ختم بھی، ابتدا ہی انتہا بن گئی، ہر رائے حرف آخر، ہر لفظ سند، ہر شخص سب کو اپنے جیسا دیکھنا چاہتا ہے، تنقید خواہ مذاق کی شکل میں ہی ہو قطعا برداشت نہیں۔
مکالمہ کب مرا، جیتے جاگتے معاشرے میں کسی کو پتہ بھی نہ چلا، سنجیدہ معاملات پر بات چیت، دلائل، مباحث، قائل ہو جانا یا قائل کر دینا، یہ سب ختم ہو گیا، آج کس کی ہمت ہے کہ مسائل پرسر عام بات کر سکے، اپنی سوچ، فکر اور رائے کا برملا اظہار کر سکے، کیا خوب کہا ہے جون ایلیا نے:
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
تحقیق متروک اور تقلید متبرک قرار پائی، لوگوں نے اصل تک پہنچنے کی جستجو ہی چھوڑ دی، جو دیکھا، سنا اسے بنا کسی تصدیق نہ صرف اپنایا بلکہ تن، من، دھن سے نفاذ بھی شروع کر دیا، نہ سوچنے کی ضرورت اور نہ ہی فکر کی زحمت، مکالمے کی موت کے ساتھ برداشت، تحمل، رواداری، باہمی احترام بھی فنا کے گھاٹ اتر گئے، جوش و جذبات، طعنے، دشنام اور تشدد رواج پاتا گیا، نظریات سے اختلاف ہر شخص کا حق ہے مگر دوسرے کے نظریات کو نابود کر دینا وطیرہ بنتا گیا۔
کبھی غور کریں نجانے کتنے موضوعات شجر ممنوعہ بن چکے ہیں، سیاسی، عسکری، مذہبی، معاشرتی، سماج، روایات اور بہت بہت کچھ، بعض موضوعات پر تو سوچنا بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے، کتنی سوچیں ذھن کے نہاں خانوں میں بے گوروکفن پڑی ہیں، اس تعفن نے زھر اور منافقت کو ہوا دی، من پسند نظریات کی تخلیق اور سوچے سمجھے مغالطوں کو تاریخ کو حصہ بنا دیا گیا، جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی اس روش نے ہمیں کہیں کا نہ رکھا اور مکالمے dialogue کی غیر موجودگی میں یہ سب کچھ نہایت آسان بن گیا، رفتہ رفتہ معاشرہ اجتماعی خود فریبی کی دلدل میں دھنستا چلا گیا، مگر کیا حقائق بدل گئے، سچ فنا ہو گیا، مسائل حل ہو گئے، یقینا نہیں، آج پاکستان کا منتشر اور متشدد معاشرہ اس حقیقت کی عملی تفسیر بنا ہوا ہے۔
موقع ملے تو مارٹن لوتھر کنگ کی تقریر I have a dream سنیں، ایک سوچ اور پھر مکالمہ، اس عمل نے تقریبا دس سال میں امریکہ میں سیاہ فاموں کو برابری کے حقوق دلانے کا معجزہ کر دکھایا، نیلسن منڈیلا کی فکر نے جنوبی افریقہ کی تقدیر بدل ڈالی، مگر یہ تبدیلی لمحوں میں نہیں آئی بلکہ نصف صدی کا قصہ ہے، جس میں منڈیلا کو 30 سال قید بھی رہنا پڑا، کبھی سوچیں ہمارے ملک میں کوئی عالمی شہرت کا حامل دانشور، سائنسدان، طبیب، استاد، مورخ کیوں نہیں؟ اب کوئی ڈاکٹر قدیر اور عبدالسلام کیوں نہیں بن رہا، کیا ہمارے یہاں کوئی نوم چومسکی، ارون دھتی رائے پیدا ہو سکتے ہیں، آج کوئی حبیب جالب بھرے جلسے میں، میں نہیں مانتا اور ہر بلاول ہے قوم کا مقروض سنا سکتا ہے؟ کیا منٹو آج کے پاکستان میں جی سکتا ہے؟
سوال کی کوکھ سے فکر جنم لیتی ہے تو مکالمے سے تبدیلی، معاشرے میں سوال اٹھانے کو ہی جرم بنا دیا گیا، یہ عمل اسکول اور مدرسے سے شروع ہو جاتا ہے جب بچوں کو سوال کا جواب جھڑک کر دیا جاتا ہے، جو لکھا ہے بس وہ پڑھو، اسکول کا مطلق العنان آمر استاد ہوتا ہے، زیادہ سوال کرنیوالے بچوں کو غیر پسندیدہ خطابات سے نوازا جاتا ہے، مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جب آپ سوال کسی سوال کو ڈھا دیتے ہیں تو درحقیقت ایک سوچ و فکر کو مسمار کرنے کا جرم کرتے ہیں، فطری تجسس کو تہس نہس کر کے شخصیت کو کچل ڈالتے ہیں، ایسا بچہ عمر بھر سوال اٹھانے سے ڈرتا ہے اپنے جائز حق کیلئے بھی۔
سوچ اور فکر سے عاری کمزور شخصیات بہت آسانی سے قائل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں، ہمارا معاشرہ ماشااللہ اس حوالے سے خود کفیل ہے بیشتر افراد کسی نہ کسی اور کی سوچ اور فکر کے یرغمالی ہیں، ذاتی سوچ اور فکر ناپید ہے، اسی عمل کی دین ہے فرقہ واریت، انتہا پسندی، دہشتگردی، منافقت اور باطل نظریات، یہ زھر اب ہر طبقے میں سرایت کر چکا ہے، جاہل ہو یا تعلیم یافتہ، غریب ہو یا پیٹ بھرا، عوام کی بڑی تعداد کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی حد تک زہریلے ماحول سے متاثر ہو چکی ہے۔
کبھی یہ بھی غور فرمائیں، ایک راسخ العقیدہ معاشرہ ہونے کے باوجود ہم ناکام کیوں ہیں؟ کلام مجید کی بار بار تنبیہ کہ غور کرو فکر کرو، سمجھو، سوچو، پھر بھی ہم غور و فکر سے دور کیوں؟ قران مجید میں تین سو سے زائد مقامات پر غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے کیونکہ یہی راستہ ہےعلم کا اور صداقت تک پہنچنے کا، احیائے علوم میں امام غزالی فرماتے ہیں کہ ایک آیت سمجھ کر اور غور و فکر کے ساتھ پڑھی جائے تو بغیر غور و فکر پورا قرآن پڑھنے سے بہتر ہے، یہ مقام ہے غور و فکر کا تو پھر کس نے لگائے سوچ پر تالے، کس نے بنایا فکر کو جرم اور ذھنوں کو بنجر؟ کبھی سوچئے۔ جواب اتنا مشکل نہیں، یہ تو یقین کامل ہے کہ خدا سے بڑا کوئی نہیں اور اس کے حکم سے بڑھکر کوئی حکم نہیں، تو سوچ کو آزاد کیجئے، غور و فکر کا راستہ اپنائیے، اپنے آپ کو تلاش کریں، حق اور صداقت کی کھوج لگائیں، کچھ دشواری ضرور ہو گی مگر یہی واحد حل ہے ناسور کے علاج کا، کیونکہ نہ کوئی معجزہ ہونے والا ہے نہ کوئی مسیحا آئے گا، تبدیلی کے عمل کو ہمارے اندر سے شروع ہونا ہے۔
ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، کوئی قیامت نہیں آئی، یہ ضرور ہے کہ نا خرابی ایک دن میں آئی نا ہی دور ہو گی، حالات اس نہج تک لانے کے ذمہ دار بھی ہم ہیں اور ٹھیک بھی ہمیں ہی کرنا ہونگے، انفرادی سوچ ہی معاشرتی تبدیلی کی بنیاد بنے گی، جرات کے کام لےکر حقیقت سے آنکھیں چار کرنا پڑیں گی کیونکہ صحیح تشخیص کے بغیر ناسور کا علاج ممکن نہیں، ہر مصیبت کا الزام دوسروں پر ڈال کر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے سے بلا ٹلتی نہیں بلکہ مزید طاقتور اور تباہ کن بن جاتی ہے، اس حقیقت کو جاننا بھی نہایت ضروری ہے کہ دنیا ہمیں اور ہم دنیا کو کس طرح دیکھ رہے ہیں۔
یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں ہونا چاہئے کہ ہمارا تعلق بنجر ذھنوں اور سوچ سے عاری نسل سے ہے جو کوششوں کے بعد بھی ذھن پر لگے تالوں کو نہ توڑ سکی، مگر حقیقت یہ ہے کہ نوجوان نسل ہم سے بہت مختلف ہے، آج جب دنیا بھر کی معلومات ایک اشارے پر دستیاب ہیں، نوجوان ذھن ہم سے کہیں زیادہ وسیع الخیال، سمجھدار اور جدید معلومات کو تسلیم کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے، نہ صرف دنیا کو ہم سے بہت زیادہ بہتر جانتا ہے بلکہ ان راستوں سے بھی بخوبی واقف ہے جو قوموں کو ترقی کی جانب لے جاتے ہیں، نوجوان نسل سوچ بھی رہی ہے، مسلط کردہ مغالطوں اور نظریات کو پرکھنے کے ساتھ سوچ پر لگے تالوں کو بھی توڑتی جا رہی ہے، اس کا عزم، توانائی اور تخیل کی پرواز ہماری بساط سے کہیں زیادہ بلند ہے، بقول جوش صاحب:
زندگی کی ابتدائی دور میں بھی کم سے کم
آدمی کو عرش تک پرواز کرنا چاہئے
اور جب جنبش میں آ جائیں پر و بال حیات
عرش سے پرواز کا آغاز کنا چاہئے
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.