کلاس روم تبادلۂ خیال اور استاد
از، غلامِ شبیر
تبادلۂ خیال مؤثر درس و تدریس کے عمل کے لیے ضروری ہے۔ یہ ایک اہم تدریسی سرگرمی ہے جس کے بَہ غیر خیالات، مشاہدات، تجربات کا تبادلہ ممکن نہیں۔
یہ تدریسی عمل کا ذریعہ ہے نہ کہ مقصد جو کسی بھی تدریسی سرگرمی کے مقاصد یا ٹاسکس کو مؤثر انداز میں حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔
معلم بَہ غیر کسی واسطے کے اس عمل میں شامل ہیں جن کا طلباء کے ساتھ رابطہ معمول کا ہے، جو تسلسل کے ساتھ زبانی اور تحریری دونوں انداز میں خیالات، آراء یا معلومات دیتے اور وصول کرتے ہیں۔
اس تبادلۂِ خیال میں زبان کا استعمال بہت اہم ہے۔
افراد اپنے اپنے فریم میں زبان کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس لیے مختلف لوگوں سے کہے گئے ایک جیسے الفاظ مختلف ردِ عمل پیدا کرتے ہیں۔
اسی طرح تبادلۂِ خیال کے لیے وقت کا موزوں ہونا بھی اہم ہے۔ کبھی تبادلۂِ خیال کی ضرورت ہوتی ہے، اور کسی وقت میں اس کی ضرورت نہیں ہوتی اور کبھی معلومات، تجربات کے تبادلے میں تاخیر دانش مندی کا عمل ہوتا ہے۔ خاص طور پر وہاں جب تنازع کی صورتِ حال سے باہر آنا ہو۔
تبادلۂِ خیال صرف اظہار نہیں، بَل کہ ایک تأثر بھی ہے۔ معلومات اور تجربات کس قدر مؤثر ہیں اس کا اندازہ اسی صورت میں ممکن ہے جب طلَباء یا سامعین سے اس بارے فیڈ بیک لیا جائے۔
تبادلۂِ خیال میں معلم کی زبان کا قابلِ فہم ہونا ضروری ہے۔ ایسی زبان استعمال کرنا جسے طلَباء نہیں سمجھ سکتے، اس کا کوئی مَثبت نتیجہ نہیں دیتا۔ اب ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ استاد کلاس کو مصروف رکھنے کے لیے ایسے بول بولے:
“اس لیے ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے، آپ کا یہ دائرہ ہے، آپ اس سے باہر نہیں آئیں گے، وگرنہ میں آپ کو سزا دوں گا۔”
طلباء اس وقت ہی نئے خیالات کو سمجھ سکیں گے اگر معلم چیزوں میں موازنہ کرنا سکھائے یا مثالیں دے، یا اس سے ملتے جلتے حوالے دے۔ جتنا ممکن ہو اپنی بات کو اختصار دے۔ گفتگو کرتے ہوئے اہم الفاظ اور فقرات پر زور دے، یا ان کو دُہرائے۔
اگر وہ طلباء کی سیکھنے، تکرار اور صراحت میں مدد دے تو یہ قابلِ تحسین عمل ہے۔ لیکن معلم کے بات کرنے سے ہی کمرۂِ جماعت میں خاموشی ہو جائے تو عام طور ایسا تعلّم غیر مؤثر ہے۔ معلم کا تبادلۂِ خیال صرف مضمون کی تدریس تک ہی نہیں بل کہ یہ معلم کا طلَباء کے ساتھ انفرادی تعلق بھی پروان چڑھاتا ہے جو انھیں تعلّم کی طرف رغبت دلانے کا باعث بنتا ہے۔
عام طور پر معلم کلاس ڈسپلن کے لیے نیگیٹو لینگویج استعمال کرتے ہیں جو ایک مَثبت اپروچ نہیں ہے۔ یہ بات اہم ہے اگر شاگرد میں نظم پیدا کرنا ہو تو استاد کو مختلف زاویوں سے بات کرنی چاہیے تا کہ طالبِ علم سننے کی طرف مائل ہو۔
معلم کی آواز کلاس روم تبادلۂِ خیال میں ایک اہم عُنصر ہے جو کسی موسیقی کے آلے جیسی ہے اگر اس کا بہتر استعمال کیا جائے، اسی صورت میں ہی طلَباء قدر کرنے والے اور ردِ عمل ظاہر کریں گے۔
کچھ کی آواز بہت سے لوگوں کی نسبت فطری طور پر سننے میں آسان ہوتی ہے۔ آواز کی ایسی خاصیت معلم کا کردار مثالی بناتی ہے۔ کسی معلم کو تبادلۂِ خیال میں آواز کے اتار چڑھاؤ، اس کی بلندی، رفتار، دھیمے پن، شفافیت اور اس کے اظہار پر دھیان دینا چاہیے۔
سوال اچھے تبادلۂِ خیال کی بنیاد ہے
سوالات معلم اور متعلم کے باہمی تعاون، تعلق سے ہی ممکن ہیں جو اچھی تدریس کی نشانی ہے۔
ایک مؤثر معلم درست یا حقیقی قسم کے سوالات پوچھتا ہے جو ان کے مقاصد کے ساتھ میل کھاتے ہوں۔ سوالات کی ترتیب، ان پر توجہ اور اس بارے مشکلات کے حل بارے مؤثر ہدایت ضروری ہیں۔
معلم کیے گئے سوالات بارے طلَباء کو وقت دے تا کہ وہ تبصرہ کر سکیں اور باقی طلباء اس بارے اپنا ریسپانس دے سکیں۔ اس بارے معلم کو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے، بل کہ دورانِ تدریس طلَباء کے ریسپانس کو محفوظ کرے۔ کیے گئے سوالات کا مقصد کیوں کہ طلَباء کی توجہ تعلم بارے مبذول کرانا ہوتی ہے یا ان کی توجہ کو چیک کرنا ہوتا ہے تا کہ ان کی تفہیم سمجھی جا سکی۔
معلم اگر کمرۂِ جماعت میں تنقیدی، تخلیقی ترقی کو نشو و نما دینا چاہتا ہے تو اسے سولات کے فن بارے جان کاری کرنی چاہیے۔ سوالات طلباء بارے جان کاری کا بہترین ذریعہ ہیں۔
کلاس روم ڈسکشن ایک معلم کے لیے تبادلۂ خیال کا اہم طریقہ ہے جس سے وہ طلَباء کے لے تعلم کو مؤثر بنا سکتا ہے۔ یہ اپروچ طلباء کو وہ مواقِع دیتی ہے کہ وہ اپنی اقدار کو واضح کر سکیں، انکوائری کے عمل کو بڑھاوا دے سکیں اور پرابلم سالونگ مہارتوں کو ترقی دے سکیں۔
ایک طرح سے دیکھا جائے تو معلم، متعلم کا تبادلۂِ خیال زیادہ تر شخصی ہے، جس میں ظاہری صورت، جسمانی حرکات، نشست و برخاست، چہرے کے تأثرات اور طرزِ گفتگو شامل ہیں۔
چہرےکے تأثرات تحریک، بدلاؤ اور منفی نتائج کا باعث ہو سکتے ہیں۔ دکھائی دینے والے چہرے کے تأثرات عام طور ارادتاً ہوتے ہیں جن میں اہم مسکراہٹ ہے جس سے مسرت ملتی ہے۔
معلم کو چاہیے کہ وہ بچوں کے جذباتی حالات میں جس میں خوف، غصہ، غیض و غضب، خوشی اور سرپرائز شامل ہے۔
ایسے حالات میں معلم کو مسرت کے ملے جلے تأثرات سے طلباء تک تعلم پہنچانا چاہیے۔
ہماری آنکھیں نفرت، خوف اور احساسِ شرمندگی کو بَہ راہِ راست مشاہدہ کرتی ہیں، اسی طرح محبت و شفقت کو۔
معلم تعلم دینے کے بعد کلاس میں گھوم پھر تعلم کی کام یابی کا جائزہ لیتا ہے۔ اس کام میں وہ آنکھوں سے طلَباء کے ساتھ ربط میں ہوتا ہے، جس میں وہ مشاہدہ کرتا ہے کہ کس طالب علم نے جواب دینا ہے یا کام مکمل کیا ہے یا کون سا ایزی بیٹھا ہے۔
اب معلم کو اس بارے لکیر کا فقیر یا ایک ہی لاٹھی سے سب کو نہیں ہانکنا چاہیے، بَل کہ طلَباء کے انفرادی مسائل کو گہرائی سے سمجھنا چاہیے۔ اس لے معلم کا ایسا محتاط انداز طلباء کے بدلاؤ میں اہم ہے۔
اسی طرح غیر متوجہ یا غیر شائستہ حرکات والے طلباء سے خاموشی میں ٹکٹکی لگی آنکھیں بالکل ایک مفید ذریعہ ہو سکتا ہے۔
جسمانی حرکات جس میں سر، بازو، ہاتھ اور جسم کے دوسرے حصے شامل ہیں مؤثر معلوماتی تبادلے کے ذرائع ہیں۔
معلم جب وائٹ بورڈ پر لکھے کی طرف پوائنٹر کرتا ہے، اسی طرح طلباء اس وقت بھی متوجہ ہوتے ہیں جب استاد ڈیسک پر اپنا ہاتھ مارتا ہے یا اپنا پاؤں زمین پر مارتا ہے۔ ان میں سے ہر جسمانی عمل خاص معلومات کے تبادلے کا کام کرتا ہے۔
تاہم معلم کو جسمانی اشارات کے استعمال میں تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ حد سے زیادہ اشارات سے سنے جانے والے پیغام میں کیا اہم ہے اس کو ذہن نشین کرنے کا امکان کم ہی ہو گا۔
اسی طرح معلم کے کھڑے ہونے اور بیٹھنے کا انداز معلومات کے تبادلے کا ذریعہ ہے۔ پرائمری سطح پر طلباء کو ٹچ کرنا، گلے لگانا یا تھپکی دینا، تبادلۂِ خیال یا معلومات کے تبادلے میں مؤثر قدم ہو سکتا ہے۔