کیا ڈاکٹر مبارک علی نے نادانی کی؟
از، یاسر جواد
کیا ڈاکٹر مبارک علی کو نہیں چاہیے تھا کہ تاریخ کی بہ جائے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کرتے، یا اردو بازار کے درسی پبلشرز کے لیے گائیڈز اور خلاصے لکھتے؟
دولت کی ریل پیل ہوتی۔ عزت اور آبرو کا کیا کرنا ہے پاکستان میں؟ اِس کی تو ب٘نیان بھی نہیں آتی۔
تو کیا ڈاکٹر مبارک علی کو ان باتوں کا علم نہیں تھا؟
کیا کسی دوست یا ہم عصر نے بھی اُنھیں سمجھ نہیں دلائی؟
مؤرخ کو کیا ہوا تھا؟
ساٹھ ستر سال پہلے جب اُنھوں نے ہوش سنبھالا تو شاید اُنھیں تاریخ کی بَہ حالی کے کوئی امکانات نظر آتے ہوں۔ پچھلے تیس سال میں تو اُنھیں سمجھ آ جانی چاہیے تھی!
ڈاکٹر مبارک علی کئی اعتبار سے بد احوال ہیں۔ ایک تو یہ کہ اُنھوں نے ایسے معاشرے میں جنم لیا اور ایسے معاشرے میں کام کیا جن کے لیے تاریخ صرف کتبۂِ قبر ہے، وہ بھی اسلامی مہینے اور سن کے ساتھ (برکت کے لیے)۔ دوسرے یہ کہ اُنھوں نے ایسا non-coformist مزاج بنا لیا کہ مرکزی روہی نالے سے علیحدہ ہو گئے اور اپنا صاف پانی ایک ریگستان میں لے گئے۔
اُن کی ایک اور بد احوالی (شاید سب سے بڑی) پبلشروں کا سلوک ہے۔ اُن کی کتابیں بہت خراب حالت میں، پرُوف کی متعدد اغلاط کے ساتھ چھاپی جاتی رہی ہیں (کیوں کہ زیادہ فروخت ہوتی ہیں)۔ اور اب شاید وہ بھی نہیں چَھپیں گی۔ ریگستان پھیل گیا ہے، اور پبلشروں کے نخلستان محض فریبِ نظر ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کو اب لکھنا بند کر دینا چاہیے، ورنہ وہ چَھپنا بند ہو جائیں گے۔ جب بھی اُن کے پاس جاتا ہوں، وہ امید دلاتے ہیں، کتاب کی بات کرتے ہیں، مجھے بھی خراب کرتے ہیں۔ ہم جیسے چند ٹِھگنے پودوں کے سِوا اُنھوں نے اپنی تحریروں سے حاصل ہی کَیا کِیا ہے؟
میں پھر بھی شرمندگی سے اُنھیں صاف صاف بتاتا ہوں کہ اب بابے چَھپیں گے، ذاکر نائیک کے ٹیلی خطبات، سپانسرڈ شاعری اور افسانے چھپیں گے، جن کے لکھنے والوں نے خود بھی دوبارہ نہیں پڑھا ہوتا۔ ریٹائرڈ وجدان یافتہ بیوروکریٹس کی ہَزلیات کو سراہا جائے گا۔
یہ مارکیٹ نہیں، اتوار بازار ہے۔ مارکیٹ کے تو بہت اصول ہوتے ہیں۔ یہاں بے اصولی اور دھونس ہی اصول ہے۔ یہ پاکستان ہے۔
ہم جاننا ہی نہیں چاہتے کہ ہم تاریخ کو یاد رکھیں تو تاریخ بھی ہمیں یاد رکھتی ہے۔ ہم فراموشی کی اولاد ہیں۔