ڈیجیٹل شناخت کے بحران کا حل
سیٹھ برکلے (Seth Berkley)
ترقی پذیر ممالک میں ایک تہائی پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کے وجود کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ البتہ ٹیکنالوجی کے مناسب استعمال سے اس مسئلے کا حل ممکن ہے۔
ڈیجیٹل شناخت آج کل کی زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے، لیکن ای پاسپورٹ، صحت کے ریکارڈز یا ایپل پے جیسی سہولیات صرف پہلے ہی سے دستیاب خدمات تک تیزتر، زیادہ آسان اور زیادہ سمارٹ رسائی فراہم کرتی ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں صورتحال مختلف ہے۔ ان ممالک میں ڈیجیٹل شناخت کی ٹیکنالوجی کے ذریعے لوگوں کو پہلی دفعہ ضروری اور زندگی بچانے والی خدمات تک رسائی فراہم کرکے ان کی زندگیوں کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
اس طرح یہ ٹیکنالوجی کئی مسائل کے حل کے لیے معاون ثابت ہوسکتی ہے، جن میں اقوام متحدہ کا Sustainable Development Goal 16 سرفہرست ہے۔ اس اقدام کے تحت 2030ء تک تمام 193 رکن ممالک کے شہریوں کو قانونی شناختی دستاویزات فراہم کرنا ضروری ہے۔
اس کا مقصد بنیادی حقوق سے محروم کئی لاکھوں افراد کے حقوق کا تحفظ ہے، تاکہ انھیں وہ تمام سہولیات فراہم کی جاسکیں جنھیں ہم اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں، جیسے کہ تعلیم، صحت یا ووٹ ڈالنے کی اجازت۔
غریب ممالک میں ایسے کئی لوگ ہیں جن کا سرکاری ریکارڈز میں کوئی وجود ہی نہیں ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان کی پیدائش، اموات یہاں تک کہ ان کی شادیوں کی تصدیق کے لیے کاغذی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ ایک تہائی پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی پیدائش رجسٹر نہیں کی جاتی ہے۔ اگر انھیں رجسٹر کرلیا جائے تو ان کے پاس جنم پرچی نہیں ہوتی۔ اس سے بچوں کی زندگیوں پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے، اور ان کے ساتھ زیادتی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے SDG16 کی آخری تاریخ تک اس کے اہداف کا حصول بہت مشکل لگ رہا ہے۔ ہمیں ایسی نئی اور کم قیمت ڈیجیٹل شناخت کی تکنیکوں کی ضرورت ہے جو کم وسائل، جیسا کہ بجلی کی عدم دستیابی، کے ساتھ کام کرسکتی ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی انھیں اس قدر لچک دار بھی ہونا ہوگا کہ وہ موجودہ انفراسٹرکچر کو پھلانگ کر دیہاتوں اور کچی آبادیوں میں رہنے والوں کو دستیاب ہوجائيں۔
ایسی تکنیکیں عالمی ویکسینیشن کی کوریج بڑھانے کی کوششوں میں استعمال کی جارہی ہیں، اور افریقہ اور ایشیاء میں چھوٹے پیمانے پر ان کے ٹرائل کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت 86 فیصد شیرخوار بچوں کو ٹیکے لگائے جارہے ہیں، جس میں ڈپتھیریا، پیرٹوسس اور ٹیٹنس کے ٹیکوں کی تین خوراکيں شامل ہیں۔ اس وسیع پیمانے پر رسائی فراہم کرنے والے سسٹم سے کافی فائدہ ہوگا۔
یہ سسٹمز عالمی ادارہ صحت، یونی سیف اور گیوی، دی ویکسین الائنس نامی میری تنظیم نے ان سات میں سے ایک شیرخوار بچوں کے لیے بنائے ہيں جو اب تک ان سہولیات سے محروم ہیں۔ لیکن انھیں SDG16 کے حصول کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
My Child نامی سہولت کاغذی ریکارڈز سے ڈیجیٹل ریکارڈز پر منتقل ہونے میں مدد فراہم کررہی ہے۔ یہ دیکھنے میں تو ایک معمولی سے کتابچے کی طرح ہے، جس پر بچے کے ٹیکوں، غذائی سپلیمنٹ وغیرہ جیسے صحت کے ریکارڈز کی تفصیلات درج کی جاتی ہیں۔
لیکن ہر کتابچے میں ایک منفرد شناختی نمبر اور کاٹ پھینکنے کے قابل سلپس موجود ہیں جنہیں جمع کرکے بعد میں سکین کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی بچے کی پیدائش کو درج نہ بھی کیا گيا ہو، تو اس کا منفرد ڈیجیٹل ریکارڈ قائم رہتا ہے۔
سویڈن میں واقع شیفو نامی سٹارٹ اپ کمپنی کی تیار کردہ اس سہولت کے ذریعے یوگینڈا، افغانستان اور گیمبیا میں 95،000 سے زیادہ شیرخوار بچوں کو رجسٹر کیا جا چکا ہے، اور ہیلتھ کیئر ورکرز والدین کو بذات خود یا ٹیکسٹ پیغامات کے ذریعے آئندہ اقدام کے متعلق یاد دلاتے رہتے ہیں۔
ایک دوسرے مکمل طور پر ڈیجیٹل سسٹم میں، جس کا نام خوشی بے بی ہے، ہر بچے کو ایک ڈیجیٹل ہار پہنایا جاتا ہے، جس میں ایک نیئر فیلڈ کمیونیکیشن سلپ پر منفرد آئی ڈی کا نمبر نصب ہے۔ انھیں موبائل فون کے ذریعے سکین کیا جاسکتا ہے، تاکہ ان دور دراز علاقوں میں بھی جن میں موبائل فون کوریج نہ ہو، بچوں کے ڈیجیٹل صحت کے ریکارڈز کی تجدید ممکن ہو۔ بھارت کی ریاست راجستھان میں 100 گاؤں میں 15،000 ٹیکوں کے اوینٹس کی ٹریکنگ کے لیے ٹرائل منعقد کیے جا چکے ہیں۔
ID2020 نامی تنظیم بلاک چین ٹیکنالوجی کی مدد سے شناخت سے محروم افراد کو ایک منفرد شناخت تک رسائی فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
دوسری کوششوں میں بائیومیٹرک آنکھ کی پتلی (آئیرس) کے ذریعے شناخت بھی شامل ہے۔ یہ کوششیں سننے میں تو بہت ہائی ٹیک لگ رہی ہیں، لیکن یہ یاد رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ٹیکنالوجی اسی طرح سے جست بھر کر آتی ہے۔ چند غریب ممالک انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے مکمل طور پر نئی ٹیکنالوجی کے لیے موزوں ہیں۔ اس کی ایک بہت اچھی مثال افریقہ ہے، جہاں موبائل فونز لینڈلائنز کے مقابلے میں بڑے تیزی سے آگے نکل گئے، اور پھر اس کے بعد ایم پیسہ کا موبائل ادائيگیوں کا سسٹم روایتی بینکنگ کو پیچھے چھوڑ گیا۔ آج ایم پیسہ کینیا کی خام ملکی پیداوار کے 44 فیصد کا ذمہ دار ہے۔
ڈیجیٹل شناخت میں دوسرے مسائل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ڈیجیٹل شناختی ٹیکنالوجی کی طرح، حفاظت، اعتبار اور نجی معاملات کا مناسب تحفظ سب سے اہم ہیں۔ لیکن اس کے فوائد اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ کئی لاکھ بچوں کی زندگیوں کو بدل کررکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان بچوں کو ڈیجیٹل دنیا میں وجود دینے کے بعد حقیقی دنیا میں عدم وجود کی زندگی سے بچایا جاسکتا ہے۔
Courtesy: technologyreview.pk