زبانوں کا آنا اور جانا

احمد شکور بھٹہ

زبانوں کا آنا اور جانا

از، احمد شکور بهٹہ

diglossia کے لغوی معنی زبان کا دو حصوں پر مشتمل ہونا ہے۔ اصطلاح میں جب کوئی پورے وثوق سے الفاظ کو توڑ مروڑ کر اور ان کے تلفظ کی دهجیاں اڑا کر ادا کرتا ہے تو اسے diglossia کہا جاتا ہے۔ یہ تحریر پنجاب کے دیہی علاقوں کے لوگوں کی ایک نہایت خوب صورت اور پُر لطف صفت diglossia پر مبنی ہے۔ چند مذکورہ واقعات فیصل آباد کی تحصیل سمندری اور اس کے مضافاتی علاقوں کے ہیں۔

ہمارے انگریزی کے ایک پروفیسر صاحب فرمایا کرتے تهے کہ ہمارے لیے انگریزی زبان سیکهنے میں ایک دقت “mother tongue interference”، یعنی “مادری زبان کی دخل اندازی” بهی ہے۔ ہم انگریزی کا کچھ بهی سنتے یا بولتے وقت اس کی اپنی مادری زبان میں تصویر کشی ضرور کرتے ہیں۔ اس طرح ہم خالص انگریز بننے سے قاصر ہیں۔

کچھ ایسی ہی صورت حال دیگر زبانوں کے ساتھ بھی ہے۔ ہم پنجابی سے اردو میں جاتے ہوئے اردو کا بیڑا غرق کرتے ہیں، پھر انگریزی میں جانے کی سعی کرتے ہوئے انگریزوں کے آبا و اجداد کی ارواح کو زخم پہنچاتے ہیں۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم تین کشتیوں کا سوار بننے کی کوشش میں بد ترین ڈبکیاں کھا کر ڈوبتے ہیں۔ پھر نہ ہماری پنجابی میں پنجاب کی خوش بُو آتی ہے نہ ہی اردو میں وہ چاشنی رہتی ہے، اور انگریزی تو رہنے ہی دیجیے آپ!

سکول میں تھے تو استاد محترم ، جو نواحی گاؤں سے تهے، سے پوچھتے کہ  سر جی کل کیا یاد کر کے آنا ہے۔ خدا ان کا اقبال بلند کرے، فرماتے اگلی دو سٹوریاں! (کہانیاں یا stories) گویا کہانیاں کہتے انھیں اپنی استادی میں عیب معلوم ہوتا۔

شام میں “ٹوِی شَن” (ٹیوشن یا tuition) کا نظام ان علاقوں میں عروج پر ہوتا ہے۔ کام چوری کا ارتکاب کرتے ہوئے شاگرد بولتا ہے، مِس جی!

سینس (سائنس ) کا تو کام ملا ہی نہیں آج۔

مِس جی فرماتی ہیں، اچھا چلو باقی بُکّوں (کتابوں یا books ) کا کام جلدی ختم کرو اور چھٹی کرو۔

خیر کرتے کرتے کالج کی سَر زمین پر قدم رکھا۔ بعض لوگ نا گہانی طور پر میٹرک میں اچھے نمبر لے لیتے ہیں۔ ہم بهی خیر سے انہی میں سے ایک تهے۔ ان نمبروں کا زُعم کالج کے ابتدائی ایام میں نمایاں تها۔ طبیعات کے لیکچر میں پروفیسر صاحب نے تعارف میں نمبر پوچھنا شروع کیے۔ تو ہم بڑے مان سے کھڑے ہو کر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے بولے سر ‘نو سو تینتالیس’

سر بولے، ہیں کِیہ؟

دوبارہ بولنے پر بھی نہ سمجھ  سکے۔

پهر اکتاہٹ بهرا جواب آتا ہے، ‘سر جی نو سو ترتالی

بولے، ‘اچھا اِیداں کہہ نا! لو اودُوں دا پتا نِیں کیہ بولی جا ریا سی۔’

دھاک تو نہیں بٹھا سکے، ہاں مگر اُستادِ محترم کی انگلی نے بیٹھنے کا اشارہ ضرور کر دیا۔ ہم بھی قہقہوں کی زَد میں کِھسیانے سے ہو کر اور دُبک کر بیٹھ  گئے۔

ان پروفیسر صاحب ک بارے میں بعد میں پتا لگا کہ وہ مقامی نہیں، بَل کہ کسی نواحی علاقے سے ہیں اور اپنی زبان و تہذیب پہ بہت مان کرتے ہیں۔


مزید و متعلقہ: پاکستانی زبانوں کے لوک گیت

بروہی، سرائیکی اور پوٹھوہاریوں پر جبری انتقال قومیت کا تسلط

کیا اردو مذہبی زبان ہے؟

اہلیان پنجاب اور پنجابی زبان: جب اپنے، بیگانے ہو جاتے ہیں


پنجابی مرغن غذاؤں کے بہت شوقین پائے گئے ہیں۔ ایک شخص اپنے حلقۂِ احباب میں وارد ہوتے ہوئے بولا، باوا جی! چَس آ گئی اج ناشتے دی۔ (بهائیو مزا آ گیا آج تو ناشتے کا)

استفسار پہ بولا،

وڈے پاوے لَبھے سی اج۔ (بڑے پائے ملے آج )

دوست بولے، بِیر جی (وِیر جی) کلے کلے۔ (یار اکیلے اکیلے)

اس پہ مدعا سنبھالتے بولا، یار اور ھوٹل آ لیاں دی منیج منٹ (مینجمنٹ یا management) چنگی نی۔ پُر کراؤ تانُوں اپنے مربعے (رقبے) تو فلُوٹر(فروٹر) لیا کے کھوا واں گا۔

(یار وہ ہوٹل والوں کی مینجمنٹ اچهی نہیں۔ چهوڑو! میں تمہیں اپنی زمین سے فروٹر لا کر کِهلاؤں گا۔)

گاؤں کے نمبردار کے بیٹے کے ثانوی بورڈ کے امتحانات کا مرکز قریبی گاؤں قرار پایا۔ یہ امتحانات جن محترم اُستاد کے زیرِ نگرانی انجام پانا تھے ان کا تعلق شہر سے تھا۔ پھر جو عام طور پر ہوتا ہے۔ نمبردار صاحب پہنچ گئے؛ مٹھائی کا ڈبہ لیے امتحانات سے پہلے ہی۔

سلام سُپری ڈینٹ ساب! (سپرنٹینڈنٹ صاحب سلام)

میں جی ایہہ گبانڈ آلا پینڈ آ ناں بڈا نبا، اُدا لمبڑدار آں جی۔

(میں جی یہ ساتھ والا گاؤں ہے نا بڑا 90، اس کا نمبردار ہوں)

(رول نمبر سلپ تهماتے ہوئے)، ایہہ میرا منڈا نباج۔ پھوٹو نی سہی آئی اُدا تاں گھبرو آ جی۔ سُپری ڈینٹ ساب تانُوں اک شفارش کرنی سی۔

میرا اک او اک مُنڈا آ جی۔ جی تھوڑی مہربانی کرو تے دس کر لُو جی۔ آخری چا-نس آ جی ادا۔

(یہ میرا بیٹا نواز۔ فوٹو تو اچهی نہیں آئی ویسے ہے خوب رُو جوان۔ سپرنٹینڈنٹ صاحب آپ سے ایک سفارش کرنا تهی۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ اگر آپ تهوڑی مہربانی کریں تو میٹرک کر لے گا۔ آخری چانس ہے یہ اس کا۔)

سپرنٹینڈنٹ صاحب نے اُسے سمجھایا کہ بھئی دیکھو محنت میں عظمت ہے۔ جو محنت کرے گا پاس ہو گا۔

نمبردار بولا، “سہی گل آ۔ مینت چے ای اجمت آ۔ پر جی کی کریے۔ کھلا پیہا آ۔ پر اولاد کسی نہ کم دی۔ رب راجی کرو جی تانوں۔”

(صحیح بات ہے۔ محنت ہی میں عظمت ہے۔ پر کیا کریں جی۔ کهلا پیسا ہے۔ لیکن اولاد کسی کام کی نہیں۔ خدا آپ کو راضی کرے گا۔)

سپرنٹینڈنٹ صاحب نے بھی بس ہاں میں ہاں ملا دی۔ مگر بعد ازاں معلوم ہوا کہ موصوف نے آخری بار بھی دھڑلّے سے فیل ہو کر کالج انتظامیہ کی آمدن کا ایک قدیم اور بے ضرر سلسلہ تا حیات معطل کر دیا۔

وہ داغؔ اردو کے بارے میں فرما گئے تهے ناں کہ،

نہیں کهیل اے داغ! یاروں سےکہہ دو

کہ  آتی ہے  اردو زباں  آتے آتے۔

بہ ہر کیف، ہم یہ رائے ہر ایک زبان کے آنے کے ساتھ ساتھ جانے کے لیے بهی رکهتے ہیں۔