دیونیسس ہمارے ہاں، نیٹشے میں ڈھل گئے اور حال ہے کہ …
از، نصیر احمد
نیٹشے کی فن کی دو روحوں (اپالو اور دیونیسس) کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے میگڈیلینا شول یوں رقم طراز ہیں:
“لیکن نیٹشے نے دونوں میں اختلافی فطرت بوجھ لی تھی جو کہ سمجھ داری کی بات ہے کیوں کہ یہ دونوں دیوتا مخالف شخصیتی ٹائپس کی تجسیم تھے۔
“اپالو شاعری، فن، موسیقی، ادویات، روشنی، نظم و ضبط اور عمومی طور پر ہم آہنگی کے دیوتا تھے۔ وہ حسنِ کامل، خود ضبطی، ترقی، توازن، خِرد، منطقی فکر، اعتدال، اور ڈیزائن کیے ہوئے قواعد سے مطابقت رکھتے ہوئے رویے کی علامت سمجھے جاتے تھے۔
“ڈَیلفی کے معبد کے اقوال میں اپالونی رویے بہتر طور سے ظاہر ہیں۔ قانون پر عمل کرو، ڈسپلن سے چمٹے رہو، بَہ طورِ فانی سوچو، خود پر قابو رکھو، نگاہوں پر کنٹرول رکھو، ہم آہنگ ہونے کے لیے تگ و دو کرو۔
“ان کے معکوس، دیونیسس، وحشی فطرت کے دیوتا تھے، طاقت ور اور زرخیز قوتوں کے سر پرست تھے اور ایک آوارہ طرزِ زندگی، شراب، مذہبی جنون، بے ہودگی، جذبات، جوش، توانائی، جبلتوں اور بے عقلی کی علامت تھے۔
“نیٹشے کے مطابق دیونیسس دَم بَہ دَم ایک حیات بخش قوت کی نمائندگی کرتے ہیں جو قانونی حدود، بیرئیرز اور ہم آہنگی کی شکست و ریخت کر دیتے ہیں۔”
یہ بھی دیکھیے:
برٹرینڈ رسل کے ایک مکالمے سے ماخوذ از، قربِ عباس
ابا جان آپ کا بیٹا ڈیکارٹ سے متفق نہ ہو سکا از، ابوبکر
نطشے اگر خود یہ پڑھ رہا ہو تو گھر آ جائے از، ابو بکر
سیاست اور فلسفہ از، برٹرینڈ رسل ترجمہ کار، نصیر احمد
ہَمہ جہت تعلیم: کُل کے سیاق میں جُزو کا شُعُور از، شہر یار خان
طبقات کی سادہ کاری کے مسائل، از، نصیر احمد
نیٹشے ہمارے ہاں بھی حکیم مان لیے گئے ہیں، بل کہ اصل میں حکیم تو وہی ہیں، جہاں تک بنیادی تصورات کا تعلق ہے، لیکن ان کے تصورات کو مسلمانوں میں مقبول بنانے کے لیے اسلامی ڈِکشن سے نام چنے گئے ہیں۔ جس سے ان کے تصورات کچھ معتبر سمجھے جاتے ہیں۔
بہ ہر حال، ہمارے اندازے میں حکیم وہ سیلیکٹیڈ سے ہی ہیں، اور آمروں کے کافی پسندیدہ ہیں۔ انھوں نے باتیں کہی ہیں، لیکن ان کے ارد گرد کیسز نہیں بنائے۔
اس حوالے سے بھی وہ کافی اپنے اپنے ہیں۔ ان کی ہم دردیاں بھی ان کے اپنے دیونیسس کے تصورات ساتھ ہیں۔
بَہ ذریعۂِ فن نیٹشے کا یہ آئیڈیل ہمارے ہاں تصورات کا حصہ بنا، اور نیٹشے کی سی نَخوَت کے ذریعے مناسب و منطقی انداز سے صورتِ احوال بنانے کی کوئی خاص ضرورت نہیں سمجھی گئی۔
ہمارے ہاں پہلے سے رِشی مُنّی کا بھی ایک تصور تھا: جو نروان حاصل کر لے تو اس پر اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ اس کے بعد صوفی کا تصور بھی موجود ہے جس کے جنون اور قانون دشمنی کی بہت عظمت سازی کی جاتی ہے۔
اور پھر اشتراکیت کے اثرات بھی تو ہیں جن کے مطابق قوانین استعمار کا ڈھونگ ہوتے ہیں جن کی خلاف ورزی کرنا تاریخ کے فیصلے سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔
ہوا یوں کہ اپالو کی حسنِ کامل اور مکمل نظم و ضبط جیسی خامیاں بھی نیٹشے کے ان پیرِ نَخوَت کی آئین دشمنی سے منسلک کر دی گئیں۔
اور اب ان مختلف اثرات کے تحت نیٹشے کے آئین دشمن پیرِ نَخوَت، ہماری عام حقیقت ہیں۔ لیکن اس میں حیات بخش قوت موجود نہیں ہے۔ اور ان کی زرخیزی بھی صرف ان کی اپنی ذات اور ان کے حامیوں تک محدود ہے۔
تو وحشت اور آوارگی، جوش و جنون، قانون دشمنی، اخلاق سوزی، جبلتوں کا غلام اور عُدوِ خِرد معاشرے کی ہر سطح پر فیصلے کر رہے ہیں __ فیصلے جن کو سن کر خِرد مند کبھی ہنستے ہیں اور کبھی روتے ہیں۔ اور اپالو کے آئیڈیل کے ڈسپلن جیسے عناصر بھی اسی فیصلہ ساز کی نَخوَت کی پوجا کرتے نظر آتے ہیں۔
باقی شاعری، فن، خود ضبطی، موسیقی، ادویات، ترقی، توازن، خرد، منطقی فکر اور قانون کی پا بندی جیسے اپالونی اوصاف فیصلہ سازی سے بے دخل کیے گئے ہیں۔
نیٹشے کی عالمی بَہ حالی میں بھی یہی کچھ ہوا ہے کہ ایک چھچھورا سا جوشیلا کاروباریوں، businesses، کا لاڈلا ہو گیا ہے۔ لیکن اس جوشیلے سے لاڈلے کا کوئی کیس نہیں ہے، جس طرح نیٹشے کی کہی باتوں کا کوئی کیس نہیں ہے۔
اور دیگر ملکوں کی طرح کیس کے بَہ غیر ایسے ایک لاڈلے کی فیصلہ سازی کرونا کی وبا میں ہمارے سامنے آ گئی۔ وبا کی نوعیت ہی نہیں سمجھ آئی، جس کے نتیجے میں وبا پھیلتی گئی۔ اور پھیلتی جا رہی ہے۔
معاشی پالیسی میں بھی کسی منطقی کیس کے بَہ غیر فیصلہ سازی کے نتائج سامنے ہیں کہ معیشت کی افزائش کی بس نمائش ہی کی جا سکتی ہے۔ خطبات میں بھی سامنے آتی رہتی ہے۔
باقی، مہنگائی، بے روزگاری، بے گھری اور بے دری میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔
شاعرِ عظیم شیکسپیئر نے اپنے کھیل ہیملٹ کہا تھا، ‘ریاستِ ڈنمارک میں کچھ تو ہے جس سے آگے آگے جاتے ہر چیز گلتی سڑتی جاتی ہے۔’
کچھ ایسا ہی چل رہا ہے، لیکن ترقی، توازن، منطقی فکر اور قانون کی بَہ حالی اور دلائل سازی کی طرف گفتگو نہیں جا رہی۔
لاڈلوں کے جانے کے بعد شاید گفتگو کوئی مَثبت رخ اختیار کر لے، مگر مسئلہ یہ ہے اب دیونیسس کا یہ مثالیہ اقتدار کی راہ داریوں تک محدود نہیں ہے، بل کہ بھٹو کی طرح گھر گھر میں پہنچ چکا ہے۔ ایسے میں امید بَہ راہِ امید ہی قائم کی جا سکتی ہے اور ایسی امید کا بھی یہی حال ہو سکتا ہے جو کیس کے بَہ غیر دانش مندی کا ہوتا ہے۔ ایک بہتر امید کے لیے امید کے ساتھ خِرد اور خِرد پر مبنی اعمال کے کیسز بھی بنانے کی ضرورت ہے۔