فلسفۂ انصاف کا بیان: ڈاکٹروں کی مہنگی ڈگری ، ڈاکوؤں کی سستی کلاشنکوف
سعد اللہ جان برق
آج ہم نے ٹھان لی ہے کہ فلسفہ بگھاریں گے اور اتنا بگھاریں گے کہ بگھارتے بگھارتے ساری دنیا کی کڑاہی بگھار بن جائے۔ ٹھیک ہے ہم ڈبل ڈور یا ٹو ان ون یعنی کالم نگار+ دانشور نہیں ہیں لیکن اتنے بھی پھسڈی نہیں کہ دانش یا فلسفے کی نقل یا مینکر ی بھی نہ کر سکیں۔
سب سے پہلا فلسفہ تو یہ ہے کہ لوگ بالکل جھوٹ بولتے ہیں کہ دنیا میں جھوٹ بھی ہے۔ جھوٹ کہیں بھی نہیں ہے، سب سچ ہی سچ ہے اور پھر سیاست میں تو اصلی اور پیور سچ ہے کیونکہ ایک فلسفی نے کہا ہے کہ جھوٹ تسلسل سے بولا جائے تو وہ سچ نہیں بن جاتا ہے اور دنیا میں کونسا جھوٹ ہے جو تسلسل سے بول بول کر سچ نہ بنایا جا چکا ہو۔ اس لیے ثابت ہوا کہ دنیا میں کہیں بھی کسی قسم کا ذرہ بھر جھوٹ بھی نہیں ہے۔
اس جھوٹ کے فلسفے سے ہم نے آپریشن سیزیرین کرکے یہ دوسرا فلسفہ نکالا ہے کہ دنیا میں صرف ’’انصاف‘‘ ہے اور انصاف کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے یعنی ہر ہر چیز میں ہر ہر کام میں اور ہر ہر مقام پر نصف نصف کا سلسلہ چل رہا ہے بلکہ دوڑ رہا ہے۔ اس پوری کائنات بلکہ کسی رخ سے دیکھنے کا فرق ہے اگر آج ہمیں کوئی چیز بے انصافی نظر آتی ہے تو کسی اور مقام سے وہ عین انصاف نظر آئے گی۔
مثال کے طور پر پشاور کا مشرق اسلام آباد ہے اور مغرب کابل لیکن لاہور سے دیکھیے تو اسلام آباد مغرب بن جاتا ہے اور اگر سعودی عرب سے دیکھا جائے تو یہ سارے کے سارے مشرق نظر نہیں آتے ہیں بلکہ مشرق ہی ہیں حالانکہ جاپان کے لیے مغرب ہیں۔ گویا ہر مقام بیک وقت مغرب بھی ہے اور مشرق بھی ہے۔
ایک اور طرف سے دیکھیے آج جس طرف ہمارا سر ہے وہ ’’اوپر‘‘ ہے اور جو پاؤں کے نیچے ہیں وہ نیچے ہے۔ لیکن اگر اسی جگہ سوراخ کرکے کوئی ہمیں سیدھا آسٹریلیا میں نکال دے تو وہاں، اوپر ہمارے پیروں کی طرف اور نیچا سر کی طرف ہوگا کیونکہ وہاں کے لوگوں کا سر اوپر کی طرف ہوتا ہے اور اگر اسی سوراخ سے وہاں کے کسی کو سیدھا سیدھا یہاں پہنچا دیا جائے تو ہمارے اوپر کی طرف وہ پاؤں اٹھائے ہوئے ہوگا۔
مطلب یہ کہ صرف نظر کا بھرم ہے، اس لیے ’’انصاف ‘‘بھی ہر جگہ ہے حتیٰ کہ جہاں بے انصافی نظر آتی ہے وہ بھی اصل میں انصاف ہوتی ہے یعنی نصف نصف اور دنیا میں ایسی کوئی مردہ یا زندہ چیز ہے ہی نہیں جس کا نصف نہ ہو۔ عورت مرد کی نصف ہے، کالا سفید کا نصف ہے ،کڑوا میٹھے کا اوپر نیچے کا، نر مادے کا، منفی مثبت کا یعنی جدھر دیکھیے ادھر نصف ہی نصف ہے تو ثابت ہوا کہ ہر جگہ انصاف ہے اور انصافی ہی ہر جگہ ہے۔
ہم نے تہیہ کر رکھا ہے کہ آج آپ کو چھوڑیں گے نہیں اس لیے اسی انصاف کے پیٹ سے دایہ گیری کرکے ایک اور فلسفہ یہ نکال رہے ہیں کہ دنیا میں بے انصاف بھی کوئی چاہے اس کا تعلق تحریک انصاف سے ہو یا نہ ہو۔ مثال کے طورپر آج ہمارے ڈاکٹر صاحبان کو بے انصاف کہا جا رہا ہے جو بالکل غلط طور پر لوگوں سے صحت کے جرمانے وصول کررہے ہیں، کچھ بھی دیے بغیر۔ لیکن یہ بھی سرا سر غلط بات ہے، ہم نے اپنی تحقیق کے ذریعے پتا لگایا ہے کہ یہ ڈاکٹر صاحبان نہایت ہی انصاف دار ہیں، چاہے مرکزِ انصاف بنی گالہ سے واقف ہوں یا نہ ہو اور یہ ہم کوئی سنی سنائی ہوائی نہیں چھوڑ رہے ہیں بلکہ باقاعدہ اعداد و شمار سے ثابت کر سکتے ہیں۔
جس زمانے میں ڈاکٹروں کی پرائیویٹ فیس سولہ روپے ہوا کرتی تھی، اس زمانے میں ریحان استاد کے جوتے بھی سولہ روپے میں آتے تھے، جوتے یا پشاوری چپل ویسے تو آٹھ دس بلکہ چار پانچ روپے میں مل جاتے تھے کہ پشاور کے ریحان استاد کے بنائے ہوئے ’’سائی دار‘‘ جوتے سولہ روپے کے ہوتے تھے اور صرف خاص خاص مالدار لوگ ہی بنواتے تھے، وہ ایک خاص ڈیزائن کے جوتے ہوتے تھے جس سے لوگ پہننے والے کے مرتبے کا اندازہ لگا لیتے تھے۔ گویا ان کی پہچان اس کے چہرے نہیں بلکہ جوتے ہوتے تھے۔
زمانہ بدلا روپیہ ترقی کرتے کرتے ٹیڈی پیسے سے بھی آگے بڑھ گیا جہاں سے آگے کوئی ٹائٹل ہے ہی نہیں، چنانچہ آج کل چارسدہ اور مردان اور پشاور میں بھی خاص الخاص جوتے پانچ ہزار تک پہنچ چکے ہیں لیکن ڈاکٹروں کی فیس یہی ہزار کے آس پاس یا اوپر نیچے ہے۔ انصاف سے کہیے کہ یہ ڈاکٹروں کا انصاف ہے یا نہیں اور اگر اس کے بعد بھی کوئی ڈاکٹروں کو بے انصاف کہتا ہے تو بے انصافی کرتا ہے۔
ایک اور پیمانہ بھی ہے جب ڈاکٹروں کی فیس تیس روپے تھی تو ڈاکو یعنی اغوا کار لوگوں کا زرِ تاوان زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے تک ہوتا تھا۔ آج ڈاکوؤں کا زرِ تاوان کروڑوں میں ہے جب کہ ڈاکٹر بیچارے ہزاروں میں ہیں، یہ دوسرا ثبوت ڈاکٹر صاحبان کے انصاف کا تو قطعی ناقابل تردید ہے۔ ٹھیک ہے بیچارے اس بے انتہا کمی کو لیبارٹریوں مشینوں اور دکانوں سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ بات کہاں جو وہاں ہے۔ بیچارے ڈاکٹر بڑی مہنگی ڈگری بھی خریدتے ہیں جب کہ ڈاکو لوگ صرف بیس پچیس ہزار کی کلاشنکوف سے اتنا ڈھیر سارا کماتے ہیں۔ بہت بے انصافی یعنی انصاف ہے۔ آج کے لیے بس اتنا ہی فلسفہ کافی ہے باقی کسی اور وقت۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.